سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
بی جے پی کے سینئر لیڈر رام مادھو نے نیشنل کانفرنس کے نائبِ صدر اور جموں کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ پر سابق ریاست کے معاملات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا الزام لگایا ہے۔رام مادھو کا الزام ہے کہ عمر عبداللہ ایسا کرکے ’’بہت نیچے گر گئے ہیں‘‘۔
سابق ریاست کے وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک حالیہ انٹرویو میں مثالیں دیتے ہوئے نشاندہی کی تھی کہ کس طرح جموں کشمیر کے مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود بھی یہاں کے سبھی اہم عہدوں پر غیر مسلم افسروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک ایسا ’’فرقہ وارانہ عدمِ توازن‘‘ ہے کہ جسکے خلاف مزاحمت ہوسکتی ہے۔ ایک انگریزی اخبار کے ساتھ اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا ’’مہربانی کرکے آُ دیکھیں کہ آپ کا لیفٹننٹ گورنر غیر مسلم ہے،چیف سکریٹری غیر مسلم ہیں،ڈائریکٹر جنرل آف پولس غیر مسلم ہیں،دونوں (جموں اور کشمیر کے) ڈویژنل کمشنر غیر مسلم ہیں، دونوں صوبوں کے انسپکٹر جنرل پولس غیر مسلم ہیں،محض دو ججوں کو چھوڑ کر ہائی کورٹ کے باقی سبھی جج غیر مسلم ہیں۔ آج کے کشمیر کے کتنے ضلع کمشنر یا ایس پی کشمیری بولنے والے ہیں؟ یہ ایک چھوٹی بات دکھائی دے سکتی ہے لیکن مہربانی کرکے اس بات کو سمجھ لیجئے یہ یہ معاملات لوگوں کے لئے اہم ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا ہے ’’ہم کوئی بنیاد پرست نہیں ہیں،مذہبی کارڈ کھیلنے والے لوگ نہیں ہیں لیکن جب (انتظامیہ میں) اس حد تک شدید فرقہ وارانہ عدمِ توازن ہو تو اسکی مزاحمت ہوگی‘‘۔
تاہم جموں کشمیر میں بھاجپا کے تنظیمی اور سیاسی معاملات کے انچارج رام مادھو ،جنکا جموں کشمیر میں مرکزی سرکار کی گذشتہ سال کی مہم جوئی میں انتہائی اہم کردار رہا ہے،نے عمر عبداللہ کے اس بیان پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ مادھو نے عمر عبداللہ پر سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ (عمر عبداللہ) جب خود پہلی بار ممبرِ پارلیمنٹ بنے تھے،انہیں کشمیری بولنا نہیں آتی تھی۔ ایک ٹویٹ میں مادھو نے کہا ’’عمر عبداللہ کی یہ کیا پستی ہے کہ وہ ممبرِ پارلیمنٹ بنتے وقت خود بھی کشمیری نہیں بول پاتے تھے لیکن ابھی معاملات کو اس حد تک فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں۔وزرائے اعلیٰ کے طور ان اور انکے والد کے ڈی جی اور سی ایس سمیت سبھی غیر مسلم مگر قابل افسران ہوا کرتے تے‘‘۔
جانبین میں یہ بیان بازی ٹویٹر پر گرما گرم جنگ میں تبدیل ہوئی کہ جب عمر عبداللہ کے کئی حواری میدان میں کود پڑے اور انہوں نے رام مادھو کو کھری کھری سنانے کی کوشش کی یہاں تک کہ نیشنل کانفرنس کے ایک ترجمان عمران ڈار نے بعدازاں الفاظ کے ساتھ کھیلتے ہوئے آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کی۔
گذشتہ سال اگست میں سابق ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم اور ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں بدل دئے جانے کے وقت عمر عبداللہ اور انکے والد فاروق عبداللہ سمیت مین اسٹریم کے کئی لیڈروں کو قید کرلیا گیا تھا۔ مہینوں بعد جیل سے رہائی پانے کے بعد وہ حیرت انگیز طور پر خاموش رہے تھے اور اب چند دن سے عبداللہ اینڈ کمپنی کی سیاست رفتار پکڑنے لگی ہے اور انہوں نے شروعات میں حسبِ توقع ’’جذباتی مسائل‘‘ کا انتخاب کیا ہے حالانکہ عام لوگ انسے بہت زیادہ متاثر نہیں ہیں۔