حمنہ کبیر
ویسے تو ہوں کامرس کی اسٹوڈنٹ، لیکن بجٹ کی اتنی سمجھ بھی نہیں ہے جتنی فائننس منسٹر نرملا سیتا رمن ’سمجھا‘ جاتی ہیں۔بجٹ کیا ہے؟؟
’اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘ بس اتنا سمجھ لیں کہ حکومت اگلے سال امید کے مطابق ٹیکس، غیر ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو عوام کی فلاح و بہبود سمیت مختلف شعبوں پر خرچ کرنے کے لئے مالی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ بجٹ پیش ہونے کے بعد کئی دنوں تک اس پر بحث ہوتی ہے۔ جس بجٹ پر بحث نا ہو یا پیش کئے گئے بجٹ سے عوام خاص طور پر مڈل کلاس اور اپوزیشن مطمئن ہو جائے ، وہ بجٹ نہیں ہوتا۔ بجٹ کا بحث سے کچھ ایسا ہی تعلق ہے جیسا چولی کا دامن سے۔
رواں سال پیش کئے گئے بجٹ کو ’امرت کال‘ کا بجٹ کہا گیا۔ عام بجٹ سے معلوم ہوا کہ موبائل سستے ہوئے ہیں۔ اب تک جو لوگ موبائل افورڈ نہیں کرسکتے تھے ، وہ اب خرید لیں۔ تاکہ فیک خبروں، اشتعال انگیز مواد، مسلکی تفرقہ پر مبنی لاحاصل بحث و مباحثے، کھانوں کی ریسپی، بچوں کے گیم، آن لائن کلاسیس ، وغیرہ وغیرہ سے استفادہ کرسکیں۔ نیز آن لائن کھانے، کپڑے، جوتے وغیرہ منگوانے کے لئے بھی ہم موبائل کے ہی مرہونِ منت ہیں۔ ویسے بھی ہم ہندوستانیوں کا پیٹ گھر میں پکائے گئے کھانوں سے کب بھرتا ہے۔ حلق تک کھانے کے باوجود پیٹ تو سویگی، زومیٹو سے آرڈر کی گئی چکن بریانی سے ہی بھرے گا۔
بجٹ میں جو چیزیں مہنگی ہوئی ہیں ان میں شراب، سگریٹ ، سونا قابل ذکر ہیں۔ اس کے باوجود سگریٹ ، شراب کے شوقین باز آئیں گے اور نہ ہی سونے کے زیورات جمع کرنے سے خواتین باز آنے والی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ خواتین مزید زیورات بنوانے کے لئے مرد حضرات کے سینوں پر اس دلیل کے ساتھ مونگ دلیں کہ اگلے سال سونے کا دام کہیں سونے پر سہاگا نا ہوجائے۔اس بات کی بھی پوری امید ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں سگریٹ پھونکتے ہوئے لوگ مزید اپنا سینا جلائیں گے اور شراب کے مہنگے ہونے کا غم اضافی پیگ لگا کر منایا جائے گا۔
کہا جارہا ہے کہ اس بار بجٹ سے انتخابات کے پیش نظر مڈل کلاس فیملی کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن یہ طبقہ خوش ہونے کے بجائے الجھن کا شکار نظر آنے لگا ہے۔امیر طبقہ امیر ہوتا جارہا ہے ، غریب بے تحاشہ غریب۔ سارا مسئلہ مڈل کلاس فیملی کا ہے۔ وہ مرتے دم تک اس بات کا ہی فیصلہ نہیں کر پاتے ہیں کہ ان کا تعلق اَپر مڈل کلاس سے ہے یا لوور مڈل کلاس سے۔ جہاں اس طبقہ کو حکومت کے سامنے خود کو غریب ظاہر کرنا ہے وہیں اس بات کی بھی فکر کھائے جاتی ہے کہ سوسائٹی کے سامنے محدود تنخواہوں میں اپنی امارت کیسے جھاڑی جائے۔
امرت کال کا یہ بجٹ ہنڈین برگ رپورٹ، بی بی سی ڈاکیومنٹری نامی ’بحران‘ کے درمیان منظر عام پر آیا۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس سے ہندوستانی معیشت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس بات کے لئے ہم بھی دعاگو ہیں۔
ویسے اگر آپ کو چیزوں کے مہنگی ہونے کا احساس زیادہ ہونے لگے تو اس کا علاج بھی میڈیا والوں کے پاس موجود ہے۔ ٹی وی آن کریں ، وہاں نیوز چینل پر آپ کو بتایا جائے گا کہ پڑوسی ملک میں آٹا، دال ، چاول ، پیٹرول فلاں فلاں داموں میں مل رہے ہیں، ان کے بقول مہنگائی سے وہاں ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ تو میرے پیارے دیش واسیو!! ان خبروں کو دیکھتے ہی آپ اچانک اپنا غم بھول جائیں گے اور اس بات پر سجدہ شکر بجا لائیں گے کہ ہمارے حالات چاہے کتنے ہی دہاڑیں مار مار کر رونے لائق کیوں نا ہوں ، پڑوسیوں سے بہرحال بہتر ہیں۔ اس کے بعد خالی بٹوہ بھرا بھرا محسوس ہونے لگے گا، موسم اچھا لگنے لگے گا یہاں تک کہ آفس اور گھر والوں کی بے رخی پر بھی پیار آئے گا۔ یہ ’مثبت تبدیلی‘ محض نیوز چینل پر پڑوسی ملک کے حالات پر مبنی دو چار خبریں مع تصاویر کے دیکھتے ہی آجائے گی۔
بجٹ کی طرف امید و آس سے ٹکٹکی باندھے اقلیتوں کی بات اگر کی جائے تو اب کی دفعہ انہیں کچھ ایسے نظر انداز کیا گیا ہے جیسے اسرائیل ، عالم اسلام کی مذمتوں کو کردیتا ہے۔ مولانا آزاد فیلوشپ کے بند ہونے کا غم ایک طرف ، اس بار بجٹ سے معلوم ہوا کہ اقلیتوں سے متعلق اسکیموں کا بجٹ کم کرتے ہوئے اچھی خاصی کٹوتی کی گئی ہے۔ سب ملا کر اگر دیکھا جائے تو امرت کال کے اس بجٹ میں اقلیتوں کو جو ملا ہے اسے ’ٹھینگا‘ کہتے ہیں۔
[email protected]