پنکج چترویدی
حکومت ہند کی ارتھ سائنسز وزارت کی رپورٹ کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندر بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ گلوبل وارمنگ کا 93 فیصد حصہ سمندر پہلے تو جذب کرلیتے ہیں اور پھر جب اسے اگلتے ہیں تو بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ بہت سی انتہائی قدرتی آفات جیسے بارش، لو، طوفان، پانی کی سطح میں اضافہ وغیرہ کی بنیادی وجہ سمندر کی قدرتی شکل میں تبدیلی ہے۔ جب ماحولیاتی گرمی کی وجہ سے سمندر کا درجۂ حرارت بڑھتا ہے تو زیادہ بادل بننے سے شدید بارشیں، گرمی کے ارتکاز کی وجہ سے طوفان، سمندر کی گرم بھاپ کی وجہ سے ساحلی علاقوں میں شدید گرمی بڑھنا جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں مغربی گجرات سے نیچے آتے ہوئے کونکن، پھر مالابار اور کنیا کماری سے اوپر کی جانب گھومتے ہوئے کورامنڈل اور آگے بنگال میں سندربن تک تقریباً 5600 کلو میٹر ساحلی پٹی ہے۔ یہاں نیشنل پارک اور سینکچوئری جیسے 33 محفوظ علاقے ہیں۔ ان کے ساحلوں پر رہنے والے کروڑوں لوگوں کی روزی روٹی کا ذریعہ سمندر میں پیدا ہونے والی مچھلیاں اور دیگر مصنوعات ہی ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے سمندری ساحلوں کا ماحولیاتی توازن تیزی سے بگڑ رہا ہے۔ ممبئی میٹرو پولیٹن سٹی کو تقریباً 40 کلومیٹر ساحلی پٹی قدرتی طور پر نصیب ہے لیکن اس کی قدرتی شکل سے چھیڑ چھاڑ کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ نعمت اب شہر کے لیے آفت بن گئی ہے۔ کف پریڈ سے گرگاؤں چوپاٹی تک کبھی صرف سنہری ریت، چمکتی ہوئی چٹانیں اور ناریل کے درخت جھومتے ہوئے نظر آتے تھے۔ تقریباً 80 سال قبل برطانوی حکمرانوں نے وہاں سے پرانے بنگلوں کو ہٹا کر میرین ڈرائیو اور بزنس سینٹر تعمیر کروایا تھا۔ اس کے بعد تو ممبئی کے ساحل گندگی، تجاوزات اور بدبو کا ذخیرہ بن گئے۔ جوہو چوپاٹی کے چھوٹے سے حصے اور فوج کے قبضہ والے نول چوپاٹی (قلابہ) کے علاوہ پورا سمندری ساحل کچرے اور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ تب ہی تھوڑی سی بارش یا جواربھاٹا میں میٹروپولیٹن سٹی پانی پانی ہوکر کراہنے لگتی ہے۔
’’اسسمنٹ آف کلائمیٹ چینج اُووَر دی انڈین ریجن‘‘ عنوان والی رپورٹ ہندوستان کی طرف سے تیار کی گئی اپنی نوعیت کی پہلی دستاویز ہے جو ملک کو موسمیاتی تبدیلی کے ممکنہ خطرات سے متنبہ کرتی ہے اور تجاویز بھی دیتی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر ہم اس سمت میں محتاط نہ ہوئے تو لوکی مار تین سے چار گنا بڑھ جائے گی اور اس کی وجہ سے سطح سمندر میں 30 سینٹی میٹر تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر 2019 میں جاری آئی پی سی سی کی خصوصی رپورٹ اوشن اینڈ کرایوسفیئر اِن اے چینجنگ کلائمیٹ کے مطابق، پوری دنیا کے سمندر 1970 سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے پیدا ہونے والی 90 فیصد اضافی گرمی کو جذب کر چکے ہیں۔ اس کی وجہ سے سمندر گرم ہو رہے ہیں اور اس کی وجہ سے سمندری طوفان جلدی جلدی اور خطرناک شکل میں سامنے آرہے ہیں۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سطح سمندر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور شمالی بحر ہند کے پانی کی سطح جو 1874 سے 2004 کے درمیان 1.06 سے 1.74ملی میٹر تک بڑھی تھی، وہ گزشتہ25 سال (1993-2017) میں3.3 ملی میٹر سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔پانی کی سطح میں اضافے کا براہ راست اثر اس کے کناروں پر واقع شہروں اور قصبوں پر پڑے گا اور کئی کا وجود بھی ختم ہو سکتا ہے۔
یہ رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ صدی کے آخر تک جہاں دنیا بھر میں سطح سمندر میں اوسطاً اضافہ 150 ملی میٹر ہوگا وہیں ہندوستان میں یہ 300 ملی میٹر(تقریباً ایک فٹ) ہو جائے گا۔ واضح ہے کہ اگر اس شرح سے سطح سمندر میں اضافہ ہوتا ہے تو ممبئی، کولکاتا اور تریویندرم جیسے شہروں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، کیونکہ یہاں کی گنجان آبادی سمندر کے قریب آباد ہے۔
سمندر کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے رپورٹ بتاتی ہے کہ بحر ہند کی سطح سمندر کے درجۂ حرارت میں 1951-2015 کے دوران اوسطاً ایک ڈگری سیلسیئس کا اضافہ ہوا ہے، جو کہ اسی عرصے میں عالمی اوسط ایس ایس ٹی وارمنگ سے 0.7 ڈگری سیلسیئس زیادہ ہے۔
وزارت ارتھ کی رپورٹ میں وضاحت پیش کی گئی ہے کہ سمندر میں ہونے والی تبدیلیوں کی باریکی سے نگرانی، ان اعداد و شمار کا جائزہ اور اندازہ، اس کے مطابق ان علاقوں کے لیے منصوبہ بندی کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں موسمیاتی تبدیلی کی مسلسل نگرانی، علاقائی علاقوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا تفصیلی جائزہ، موسمیاتی تبدیلی کے نقصان، اس سے بچنے کے طریقوں کو تعلیمی مواد میں شامل کرنے اور عام لوگوں کو اس کے بارے میں بیدار کرنے کے لیے مزید سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے کہ ملک کے سمندری ساحلوں پر جی پی ایس کی مدد سے لہروں کا مشاہدہ کرنا، مقامی سطح پر سطح سمندر میں ہونے والی تبدیلیوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا وغیرہ۔ اس سے سمندری ساحل میں ممکنہ تبدیلیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور اس سے ساحلی شہروں میں رہنے والی آبادی پر ممکنہ بحران سے نمٹنے کی تیاری کی جاسکتی ہے۔ سمندری سائنس داں اس بات سے فکرمند ہیں کہ سمندر کی صاف گہرائیاں خالی بوتلوں، ڈبوں، اخبارات اور ٹوائلٹ کے سامانوں کے ڈھیر سے بھرتی جا رہی ہے۔ مچھلیوں کے اندھا دھند شکار اور مرجان کی چٹانوں کی ضرورت سے زیادہ کٹائی کی وجہ سے سمندروں کا ماحولیاتی توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ زمین کے باشندے سمندروں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ شہروں کی گندی نالیاں، فیکٹریوں کا کچرا اور فضلہ براہ راست سمندروں میں پھینکا جا رہا ہے۔ آج سمندری آلودگی کا 70 فیصد زمین کے باسیوں کی لاپروائی کی وجہ سے ہے۔
زمین کے بیشتر حصے پر قبضہ جمائے سمندروں کی وسعت اور شفافیت انسانی زندگی کو کافی حد تک متاثر کرتی ہے۔ حالانکہ عام آدمی اس حقیقت سے تقریباً ناواقف ہے۔ سیارہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں، اس کے موسم اور ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کے لیے سمندر بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے خوراک، روزگار اور توانائی فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی اب سمندروں پر ہی آگئی ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ آنے والے دنوں میں زمین پر زندگی کا دارومدار سمندر پرہی ہوگا۔ اس کے باوجود سمندروں کے آلودہ ہونے کے مسئلے کو ندی یا فضائی آلودگی کی طرح سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ہے۔ سمندر میں مسلسل پھینکا جا رہا کچرا اور شہری سیور، بے تحاشہ مشینی کشتیوں اور بحری جہازوں کی نقل و حرکت سے تیل کا رسنا، صنعتی فضلہ وغیرہ سمندری مخلوقات کی زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔ جان لیں کہ سمندر کے ماحولیاتی چکر میں پانی کے ساتھ ساتھ اس کا بہاؤ، گہرائی میںایلگی کا جمع ہونا، درجۂ حرارت، آبی حیات جیسی بہت سی باتیں شامل ہیں اور ایک کے بھی گڑبڑ ہونے پر سمندر کے غضب سے نسل انسانی محفوظ نہیں رہ پائے گی۔ یہی عوامل موسمیاتی تبدیلی جیسے المیہ کو جنم دیتے ہیں، اس لیے ان پر قابو پا کر ہی سمندروں کوتباہ کن شکل اختیار کرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔