نئی دہلی (پریس ریلیز) ہندوستان میںمطلقہ مسلم خواتین کے حق نفقہ کا مسئلہ برسوں پہلے عدالت عظمیٰ کے متعدد فیصلوں سے حتمی طور پر طے ہوگیا تھا اور ملک کا کوئی بھی ہائی کورٹ مذکورہ فیصلوں کے خلاف فیصلہ دینے کا مجاز نہیں ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے ملکی قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور ملک کی تمام عدالتیں ان کی مطلق پابند ہوتی ہیں۔ اس لئے ایسے ہی ایک معاملے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کا جو فیصلہ حال میں آیا ہے اس پر تنقید کرنا صحیح نہیں ہے۔1985میں مقدمہ شاہ بانو
میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد مسلم خواتین (حقوق بعد طلاق) ایکٹ کے نام سے جو قانون بنا تھا اس سے متعلق عدالت عظمیٰ نے 2001کے مقدمہ ’دانیال
لطیفی بنام حکومت ہند‘ میں حتما طے کردیا تھا کہ اس قانون نے شاہ بانو والے فیصلے کو قطعاً منسوخ نہیں کیا تھابلکہ اس کے برعکس مذکورہ ایکٹ کا اطلاق اس فیصلے
کی روشنی ہی میں کیا جائے گا۔ بعد کے سالوں عدالت نے کئی مقدمات میں اس امر کی توثیق اور وضاحت کی ہے۔چنانچہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کوئی اور فیصلہ دے ہی نہیں
سکتا تھا اس لئے اس پرتنقید کرنا غیر مناسب ہے۔ خصوصاً ملک کے موجودہ حالات میں اس فیصلے کوعوامی مسئلہ بنانا انتہائی غیر دانشمندی کی بات ہو گی ۔ موجودہ ناگفتہ
صورت حال کا لحاظ کرتے ہوئے کسی کو بھی اس معاملے کو بالکل طول نہیں دینا چاہئیے کیونکہ اسکاکوئی فائدہ مطلق نہیں ہوگا ، الٹے مخالفین کے ہاتھوں میں ایک شوشہ اور آجائے گا۔
نفقہ مطلقہ سے متعلق الٰہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر اعتراض صحیح نہیں : پروفیسر طاہر محمود
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS