بے جواز نہیں اوباما کی بات!

0

غزہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، خاص کر بچوں کا بھوک کی وجہ سے برا حال ہے۔ اس کے باوجود غزہ جنگ ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ اصل میں غزہ، ایران نہیں ہے کہ اس کے میزائلوںکے خوف سے جنگ بندی کرانے کی کوشش کی جائے گی، جنگ بندی ہوگی۔ اسرائیل کی فضائیہ نے غزہ کو تباہ کر دیا ہے اور مزید تباہی کے لیے اسرائیلی فوجی متحرک ہیں۔ حالت یہ ہے کہ غزہ کے لوگ امداد کے لیے ترس رہے ہیں، امداد کے منتظر لوگوں پر گولیاں چلائی جا رہی ہیں، ان کی جانیں لی جا رہی ہیں اور یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے مگر امریکہ کے صدر غزہ کے حالات ساز گار بنانے اور جنگ ختم کرانے کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آرہے ہیں جبکہ یہ ان کا انتخابی وعدہ تھا کہ جنگ ختم کرائیں گے۔ غزہ کے ضرورتمند لوگوں پر گولیاں چلانے کے واقعات پر سختی دکھانے کے بجائے وہ یہ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ غزہ میں بھکمری حماس کی وجہ سے ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے یہ بیان آیا ہے کہ ’غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے امریکہ ’’بہت ساری رقم دے رہا ہے‘‘ اور حماس نے اس میں سے بہت کچھ چرا لیا ہے۔‘ ان کے اس الزام کی تردید حماس کی طرف سے کر دی گئی ہے۔ اس کی طرف سے تردید اگر نہ بھی کی جاتی تو یہ بات ماننے کے لیے عالمی برادری تیار نہ ہوتی کہ غزہ میں بھکمری اسرائیل کی وجہ سے نہیں ہے یا یہ کہ غزہ کی جو صورتحال بتائی جا رہی ہے، ویسی صورتحال نہیں ہے مگر ٹرمپ یہی بتانا چاہتے ہیں کہ غزہ میں صورتحال بدتر نہیں۔ اگر ایسا نہیں بتانا چاہتے تو پھر ان کے اس بیان کا کیا مطلب ہے کہ ’غزہ میں کوئی خاص بھکمری نہیں ہے۔‘ تو کیا انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دنیا کے تمام لوگ غزہ کی بھکمری کے بارے میں جھوٹ بول رہے ہیں؟ ایک ٹرمپ ہی سچے ہیں؟ مگر ٹرمپ کتنے سچے ہیں، اپنے قول کی صداقت کا انہیں کتنا خیال ہے، اس کا اندازہ تو غزہ جنگ ختم کرانے کے ان کے وعدے اور پھر اس وعدے کو بھلا دینے سے ہی ہو جاتا ہے۔ اگر ٹرمپ نے وعدہ بھلایا نہیں ہے تو غزہ جنگ ختم کرانے کے لیے وہ کیا کر رہے ہیں، فلسطینیوں کو انصاف دلانے کے لیے امریکہ کی طرف سے کیا پیش رفت ہوئی ہے، غزہ کے حالات دگرگوں بنائے رکھنے کے لیے اصل ذمہ دار کون ہے، ان باتوں کے بارے میں انہیں عالمی برادری کو بتانا چاہیے۔ انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ اسرائیل اشیائے خوردنی فراوانی سے اگر غزہ لے جانے دے رہا ہے تو پھر امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے یہ کیوں کہا، ’غزہ میں لوگوں تک کھانا نہیں پہنچنے دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘

اوباما نے بغیر ثبوت کے بے تکا بیان نہیں دیا ہے، انہوں نے ’ایکس‘ پر ’دی نیویارک ٹائمز‘ کی دو رپورٹیں شیئر کی ہیں۔ یہ رپورٹیں غزہ میں بھکمری کی صورتحال پر ہیں۔ اوباما نے لکھا ہے، ’غزہ بحران کے مستقل حل کے لیے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی فوجی مہم کو ختم کرنا ضروری ہے۔ ‘ اوباما کے مطابق، ’غزہ میں لوگوں تک امداد پہنچنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ لوگوں سے کھانا اور پانی دور رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘اوباما کی باتوں سے عدم اتفاق کی گنجائش نہیں ہے۔ ٹرمپ کو یہ بتانا چاہیے کہ جب غزہ میں بھکمری کی صورتحال ہی نہیں ہے تو پھر ان کے پیش رو کو یہ کیوں کہنا پڑا، ’غزہ میں لوگوں تک امداد پہنچنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔‘

مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک غزہ کی صورتحال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کے لیڈروں میں اتنی بھی غیرت باقی نہیں رہی کہ وہ غزہ کی صورتحال پر کچھ بول سکیں۔ اہل غزہ کے حقوق کی لڑائی مشرق وسطیٰ کے باہر کے ممالک لڑ رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے اسرائیلی حکومت پریشان ہے جبکہ مشرق وسطیٰ کے یہ ممالک اس کے لیے باعث اطمینان ہیں۔ ان ممالک کے لیڈران اپنی اور اپنے ملک کی ساکھ بچائے رکھنے کے لیے اسی طرح وقتاً فوقتاً بیانات دیتے رہتے ہیں جیسے ترکیہ کے سربراہ رجب طیب اردگان بیان دیتے ہیں لیکن ان ملکوں اور ان لیڈروں کی حقیقت عالمی برادری کی سمجھ میں آچکی ہے۔ اسی لیے وہ بھوک سے بلک رہے غزہ کے بچوں کے لیے اس تگ و دو میں ہیں کہ ان تک مسلسل اور وافر مقدار میں خوراک پہنچائی جا سکے۔ سچ تو ہے کہ غزہ جنگ نے عالمی لیڈروں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے- مشرق وسطیٰ کے کئی لیڈران اور ٹرمپ جیسے لیڈران اسرائیل کے ساتھ ہیں جبکہ دیگر لیڈران اہل غزہ کے ساتھ۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS