نیلم مہاجن سنگھ
میں جموں و کشمیر کی بیٹی ہوں! فطری طور پر میرا جموں و کشمیر سے جذباتی تعلق ہے! میری والدہ، لجیا دیوی پونچھ کی باشندہ تھیں اور والد جسونت رائے جی، میرپور، آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے کئی بار اپیل کی ہے کہ کشمیر کو امن کی راہ پر لانالازمی ہے۔ ان دنوں وزیر داخلہ امت شاہ جموں کے دورے پر ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی بیشتر کشمیر اسکیموں کی بہت زیادہ تشہیر کی جاتی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں 40 سے زیادہ کشمیری پنڈتوں کی ’ٹارگٹ کلنگ‘ ہوئی ہے۔ کشمیری پنڈتوں نے پھر سے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
کیا مرکزی حکومت کشمیر کے معاملے میں کامیاب ہو رہی ہے؟ اب حد بندی کا عمل بھی مکمل ہو گیا ہے۔ اس لیے کشمیر میں انتخابات کرانا ضروری ہے۔ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد امت شاہ کا جموں و کشمیر کا دورہ اہم ہے۔ حال ہی میں جموں کے پلّی گاؤں کے دورے میںوزیر اعظم نریندر مودی نے 20,000 کروڑ روپے سے زیادہ کے ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح کیا۔ قومی پنچایتی راج دن کے موقع پر ملک بھر میں گرام سبھائوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا، ’اس سال جموں و کشمیر میں منایا جا رہا پنچایتی راج دیوس ایک بڑی تبدیلی ہے۔ یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ جب جموں و کشمیر میں جمہوریت زمینی سطح پر پہنچ گئی ہے تو میں یہاں سے آپ سبھی سے بات کر رہا ہوں۔وزیر داخلہ امت شاہ ، نریندر مودی کے ذریعہ کیے گئے وعدے کتنے کارگر ہوئے ہیں اس کا بھی جائزہ لیں گے۔
متحدہ عرب امارات کے سرکردہ تاجروں اور رہنمائوں نے وزیر اعظم کے ساتھ اپنے دورے پر اسلامی بلاکوں کے سرمایہ کاروں کی حمایت پر زور دیا۔ بی جے پی حکومت جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ایک نئی ونڈو پیش کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کی سرحد سے متصل سامبا سے وزیر اعظم کا خطاب قومی پنچایتی راج کے ساتھ میل کھاتا ہے ۔ متحدہ عرب امارات کی فرموں سے 3,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی تجویز پیش کرنے کی امید ہے۔ جموں و کشمیر کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے۔کیا یہ پہلی بار ہوا ہے؟ ایک مضبوط بنیادی ڈھانچے کو آگے بڑھانے کے حصے کی شکل میں جموں وکشمیر میں منصوبوں کی ایک کڑی کا افتتاحی کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر وادی کے نوجوانوں کو یقین دلایا کہ وہ ’ماضی میں اپنے والدین اور دادا دادی کا تکالیف کا سامنا کبھی نہیں کریں گے۔‘ دریائے چناب پر ریٹل اورکوار پن بجلی اسکیموں کے لیے سنگ بنیاد رکھا گیا اور دہلی، امرتسر، کٹرا ایکسپریس وے میں کام کے کلچر میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے پنچایتی راج دیوس کے موقع پر کی حمایت کی۔ انہوںنے کہا ’ آج مجھے خوشی ہے کہ 500 KV کا سولر پاور پلانٹ تین ہفتوں کے اندر شروع ہوجاتاہے اور بجلی کی پیداوار بھی شروع ہو جاتی ہے۔‘ کشمیر کے امور پر ایک مبصر اور ماہر کے طور پر مجھے لازمی طور سے یہ بتانا چاہیے کہ کشمیر میں شورش، سرحد پر دہشت گردی اور دراندازی جیسے اہم مسائل ہیں جن سے نمٹنا ہوگا۔
آئیے وادی کشمیر کے زخموں پر مرہم رکھیں! جمہوریت کی بات کرتے ہوئے سب سے پہلے کشمیر میں جمہوری طورسے منتخب حکومت کو بحال کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ’جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت‘ کے تصور کو عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ صرف ادراک اور الفاظ ہی فصل کاٹنے والے نہیں ہیں۔ ’گر فردوس بر روئے زمین است، ہمیں استو، ہمیں استو، ہمیں است‘ (’اگر زمین پر جنت ہے تو یہیں ہے، یہیں ہے، یہیں ہے‘) مغل بادشاہ جہانگیر نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب انہوں نے 17ویں صدی میں کشمیر کا دورہ کیا۔ ’او مائی کشمیر، آئی مس یو آل ویز‘! میں نے سینکڑوں آرٹیکلز، ٹیلی ویژن شوز، نیوز رپورٹس، سیاسی رہنماؤں، بیوروکریٹس، انٹیلی جنس بیورو- وزارت داخلی امور کے عہدیداروں، کئی معزز گورنروں، سربراہان کے ساتھ ذاتی بات چیت شائع کی ہے۔ وادی کشمیر کے کبھی نہ ختم ہونے والے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے! ’چارٹر آف انضمام‘ کی تفصیلات دینے کا کوئی معنی نہیں ہے، جس میں مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں و کشمیر کو کئی دفعات کے ساتھ جمہوریہ ہند کو دیا۔
ہندوستان کی آزادی کے 75 سال مکمل ہو گئے ہیں اس کے باوجود سبھی حکومتیں وادی میں سیاسی تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ میں کشمیر کے معاملے کو لے کر حساس اور جذباتی ہوں۔ میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے ایم اے ہسٹری ، ایم فل تک تعلیم حاصل کی اور ایل ایل بی بھی کیا۔ میں ہمیشہ جموں و کشمیر کے رابطے میں رہتی ہوں۔ وادی کشمیر کی نہرو ٹنل کے بعد کے علاقوں کی ایک الگ ثقافت اور جغرافیائی سیاسی ایشوز ہیں۔ وادی کے 90 فیصد میں مسلم آبادی ہے۔ کشمیر اور پاکستان کے خاندان، شادیوں کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں، جو کہ ایک جذباتی بندھن ہے۔ 1990 کی دہائی تک کشمیر کافی پرامن تھا۔
بین الاقوامی سیاحت بھی اپنے عروج پر تھی۔ معیشت خوشحال تھی۔ عام آدمی سے لے کر دنیا کی سب سے مشہور ترین شخصیات تک سری نگر، پہلگام اور گلمرگ میں اترتی تھیں۔ میرا کشمیر ہندوستان کا تاج ہے! بغاوت اور عدم اطمینان کی شروعات 90 کی دہائی میںہوئی تھی۔ گورنر جگموہن نے جموں و کشمیر کے لیے روڈ میپ تیار کیا تھا۔
جواہر لعل نہرو نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ’’خونریزی کسی بھی شکل میں دردناک ہوتی ہے‘‘۔ خواہ دہشت گردوں کا قتل ہو، معصوم شہریوں کی، سیاسی رہنماؤں کی، پاکستان کے سپاہیوںکی یا حملہ آوروں کی، ’’خون کا رنگ تو لال ہی ہے‘‘! وزیر داخلہ امت شاہ کو اس خونریزی کے معاملے کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جموں و کشمیر اور لداخ کے تقسیم کے ڈھائی تین سال بعد وزیر داخلہ کا جموں کا دورہ کافی اہم ہے۔ آئیے کشمیر کے لوگوں کا اعتماد حاصل کریں۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ کشمیر ہمارا ہے تو وہاں کے لوگ بھی ہمارے ہی ہیں۔ کشمیر کی معیشت تباہ ہو گئی ہے اور سب سے نچلی سطح پر ہے۔ حکومت ہند کے ذریعہ سیاحت، ہینڈ لوم، دستکاری، شکارا مالکان اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ معیشت کو پھر سے شروع کرنی ہوگی۔ خود انحصاری سے متعلق اجناس کی مصنوعات کے لیے خصوصی پیکج دیا جائے۔ ’میک ان انڈیا‘ کے لیے نوجوانوں کو تربیت کی ضرورت ہے۔ جموں و کشمیر کی وادی میں اب تک لاکھوں اموات ہو چکی ہیں۔ بیشتر خاندانوں کے پاس بغاوت میں خاندان کے کسی فرد کو کھو نے سے گہرے جذباتی زخم ہیں۔ کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کا وقت آگیا ہے۔ حکومت عوام کے خلاف نہیں ہے، وہ علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں کے خلاف ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو حل تلاش کرنے کے لیے پرامن لوگوں کے گروپوں سے ملنا چاہیے۔ عام آدمی کے خلاف ’افسپا‘ کا بہت کم استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ انتہا پسندوں کے لیے ہے۔افسپا کی جزوی طور سے ہٹا دینے سے عام آدمی مطمئن ہوگا۔ بچوں اور وادی کے لوگوں کو معمول کی زندگی جینے دیں۔ کرفیو ضوابط صرف استثناء ہونا چاہیے۔ ملک کے باقی حصوں کی طرح وادی کشمیر پر بھی COVID-19 کی پابندی اور ضوابط نافذ العمل ہیں۔ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے پاس انتظامیہ اور وادی کے لیے ’دل جیتو‘ پیکیج پر عمل آوری کے لیے دو مشیر کار ہونے چاہئے۔ انٹرنیٹ اور کمیونیکیشن کو بحال ہوں دیں۔ امت شاہ کو بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں، ’گپکار الائنس‘ کو بھی اجلاسوں میں اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ باقاعدہ بات چیت کی ضرورت ہے۔ حضرت بل، عیدگاہ، شنکراچاریہ، سکھی چھتی پادشاہی اور ماتا ویشنو دیوی کی وادی میں امن اور خوشحالی، وقت کی ضرورت ہے۔ آئیے سیاسی اختلاف اور نظریاتی اختلافات کو درکنار کریں! ہمیں جموں و کشمیر کو پر امن بنانے کا موقع دینا ہی ہوگا۔ تمام ہیروز کے گہرے زخموں پر مرحم لگانے کا وقت آگیا ہے۔ او میرے کشمیر!
(مضمو ن نگار سینئر صحافی اور سالیٹسر برائے انسانی حقوق ہیں)
[email protected]
او مائی کشمیر: امن کے پھول دہشت کی زنجیریں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS