ایم اے کنول جعفری
عالمی تناؤ میں زبردست اضافے کے باوجودفوجی طاقت اورجوہری اعتبار سے خود کو امیر،افضل اور ترقی یافتہ سمجھنے والے ممالک کا ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کرنے کے بجائے مزید اضافہ کرنا بے حدتشویش ناک ہے۔ غریبی، بے روزگاری اورکئی دیگر مسائل کا سامنا کرنے والے ملک میں بھلے ہی ہر شخص کو دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو،لیکن وہ بھی نئی تکنیک پر مشتمل جوہری ہتھیاروں کے معاملے میں اپنے حریف سے بازی لے جانے کی عجلت میں ہے۔عسکری اخراجات اور اسلحے کی بین الاقوامی تجارت پر نظر رکھنے والے سویڈش ادارے اسٹاک ہوم انٹر نیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کی سالانہ رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھرمیں 12,512ایٹمی ہتھیار ہیں۔ 2022 میں یہ تعداد 12,426 تھی۔ ایک برس میں اضافی ان 86 جوہری اسلحوں میں اکیلے چین کے پاس 60 ہیں۔ باقی 26ایٹمی ہتھیار 8 ممالک کے پاس ہیں۔ان میں 9,576ہتھیار ملٹری اسلحہ خانوں میں استعمال کے لیے تیار رکھے ہیں۔ چین اپنی جوہری طاقت میںمزید اضافہ کر رہا ہے تو بھارت اور پاکستان بھی پیچھے نہیںرہنا چاہتے۔ ایس آئی پی آر آئی(سپری) کی جانب سے 12جون 2023کو جاری سالانہ رپورٹ کے اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوری2022 میں ہندوستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار تھے۔ جنوری 2023میں4کے اضافہ کے ساتھ ان کی تعداد164ہوگئی۔ دوسری جانب پاکستان کے پاس جنوری 2022میں165ایٹمی اسلحے تھے،جو5کے اضافہ کے ساتھ جنوری 2023 میں170ہوگئے۔
ایٹمی ہتھیار ایک قسم کابے حد طاقتور دھماکہ خیز مادہ ہے۔ یہ مادہ یورینیم یا پلوٹونیم ہوتا ہے۔ اس میں طاقت ایٹم بم کے ذرات کو توڑنے یا جوڑنے کے عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے استعمال سے بڑی تعداد میں ریڈی ایشن کا اخراج ہوتا ہے،جس کا اثر کافی لمبے وقت تک رہتا ہے۔ اب تک جوہری ہتھیاروں کا استعمال صرف دو مرتبہ کیا گیا ہے۔ امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران 6اگست 1945کوجاپان کے شہر ہیروشیما اور 9اگست 1945 کو ناگاساکی پر بمباری کرکے انہیں تباہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں ہیرو شیما میں تقریباً 80ہزار اور ناگا ساکی میں70ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ ایٹم بم کے انسانیت کے لیے تباہ کن ہونے کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں پیدا ہونے والے بچے میں آج بھی کوئی نہ کوئی خلقی نقص پایا جاتا ہے۔ آزاد ادارے سپری کی رپورٹ کے مطابق ایٹمی اسلحوں سے مالامال ممالک امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل کے پاس 2022 میں استعمال کے لائق9490جوہری ہتھیار تھے۔ 2023 میں ان کی تعداد بڑھ کر 9576 ہوگئی۔ کل ذخیرے کی بات کریں تو اس وقت اِن9 ممالک کے پاس 12,512 ایٹمی اسلحے ہیں۔جوہری ہتھیار والے ممالک سے اسلحے میں تخفیف کے لیے کہا جا تارہا ہے،لیکن افسوس کہ کوئی بھی ملک اس جانب سنجیدگی سے غوروخوض کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ ممالک جوہری ہتھیاروں کو کم کرنے کے بجائے انہیں جدید ترین بنانے میں لگے ہیں۔کئی ممالک ایسے ہیں، جنہوں نے گزشتہ برس اپنے اسلحے تعینات کیے۔ ایک اندازے کے مطابق میزائلوں اور طیاروں کے ساتھ 3844 ہتھیار تعینات کیے گئے۔ روس اور امریکہ نے تقریباً 2000 اضافی ہتھیاروں کو اس حالت میں تیار رکھا ہوا ہے کہ ضرورت پڑنے پر انہیں میزائلوں یا ایٹمی بمباروں سے لیس کرکے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سپری کے ڈائریکٹر ڈان اسمتھ کا کہنا ہے کہ جغرافیائی سیاسی صورت حال میں تبدیلی کے پیش نظر تمام ممالک اپنی فوج کو جدید تر بنانے میں مصروف ہیں۔ اسی ترتیب میں ہندوستان اور پاکستان نے نیو کلیئر ڈیلیوری سسٹم کے ساتھ اپنی ایٹمی طاقت میں اضافے کے سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر سیاسی کشیدگی، عدم اعتماد اور آپریشنل وار ہیڈز کی تخفیف کا عمل رکنے کی بنا پر جوہری ہتھیار وںکی تعداد میں پھر سے اضافہ ہو نا تشویش کا باعث ہے۔ عدم اعتماد کی وجہ سے جوہری طاقت رکھنے والے اہم ترین حریف ممالک کے درمیان رابطے اور تعلقات میں کمی بھی اس کا ایک سبب ہے۔ یوکرین میں لڑائی جاری رہنے کی وجہ سے دو عالمی طاقتوں روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات ایک مرتبہ پھرسے اپنی نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ دوسری جانب برطانیہ نے 2021 میں ہی اپنے جوہری اسلحوں کی تعداد225سے بڑھا کر 260 کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ایک دوسرے کے دیرینہ حریف ہندوستان اور پاکستان اپنی جوہری طاقت بڑھانے میں لگے ہیںتو شمالی کوریا بھی اپنی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے مرکزی حصے کے طور پر اپنے فوجی و جوہری پروگرام کو ترجیحی طور پر جاری رکھے ہوئے ہے۔ اتنا ہی نہیں اسرائیل جیسا ملک بھی اپنی جوہری قوت بڑھانے میں لگا ہے۔ ان ممالک کو پھر سے بند مواصلاتی راہیں کھولنے اور آپس میں پیدا ہوئی غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈان اسمتھ نے جوہری سفارت کاری بحال کرنے کے علاوہ فوری طور پرایٹمی ہتھیاروں پر بین الاقوامی تسلط کو مضبوط کرنے پر زور دیا۔
جوہری ہتھیاروں کی فہرست میں پہلا نام روس کا ہے۔ روس کو ایٹمی ہتھیار سوویت یونین سے وراثت میں ملے ہیں۔ فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق روس کے پاس اس وقت سب سے زیادہ5,977 جوہری وار ہیڈس ہیں۔ان میں 1,500 ہتھیاروں کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ 1,588 ایکٹو ہتھیار حکمت عملی کا حصہ ہیں، جبکہ 2,889 ریزرو میں رکھے ہیں۔بلیٹن آف ایٹمک سائنٹسٹس کے مطابق روس کے ایکٹو ہتھیاروں میں 812 زمین سے حملہ کرنے والے بیلاسٹک میزائلوں اور 576 آب دوز سے فائر کیے جانے والے بیلاسٹک میزائلوں پر نصب ہیں، جبکہ 200 ایٹمک وار ہیڈس کوہیوی بامبرس بیس پر تعینات کیا گیا ہے۔امریکہ کے پاس 5,428 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ان میں 1,644 اسلحے جنگ کے دوران دشمن کی فوج اور اس کے ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی حکمت عملی کے تحت ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ روس اور امریکہ کے پاس جتنے جوہری ہتھیار ہیں، اُن سے دنیا کو کئی مرتبہ تباہ و بربادکیا جاسکتا ہے۔یوکرین کے ساتھ جنگ کے باوجود روس کے پاس موجودایٹمی اسلحوں کی تعداد میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔اُس کے پاس اَب بھی 4,489 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ان میں گزشتہ ایک برس کے اندر بڑھائے گئے 12ہتھیار بھی شامل ہیں۔ دوسرے مقام پر امریکہ ہے۔ اُس کے پاس اس وقت 3,708 جوہری ہتھیار ہیں۔وہ بھی اس صورت میں جب گزشتہ برس ایٹمی اسلحے کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ چین کا نمبر تیسرا ہے۔ اُس کے پاس اس وقت410ہتھیار ہیں۔ پاکستان کے پاس 170، بھارت کے پاس 164 ایٹمی اسلحے ہیں۔ دوسری جانب امریکی سائنسدانوں کی تنظیم ’فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس‘ کے مطابق پاکستان انتہائی چھوٹے اورجنگ کے میدان میںبڑی آسانی سے استعمال کیے جانے والے ’ٹیکٹیکل نیو کلیئر ہتھیار‘ بھی تیار کر رہا ہے۔ان کا استعمال جنگی جہازوں اور آب دوزوں کے ذریعہ بھی کیا جا سکتا ہے۔اتنا ہی نہیں پاکستان زمین،فضا اور سمندر سے ایٹمی میزائل لانچ کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے والے ’نیو کلیئر ٹرائی ایڈ‘ بنانے کے قریب بھی پہنچ گیا ہے۔1960 کی دہائی میں اپنا ایٹمی پروگرام شروع کرنے والا ہندوستان 1980کی دہائی میں ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔ بھارت سے ترغیب پاکر پاکستان نے بھی اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا اور آج اس کے ذخیرے میں بھارت سے زیادہ جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اس وقت ہم انسانی تاریخ کے سب سے خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوع انسان کی بہبود کے لیے دنیا بھر کی تمام حکومتیں جغرافیائی سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے، ہتھیاروں کی دوڑکو روکنے،ماحولیاتی انحطاط کو بہتر بنانے اور عالمی سطح پر بے روزگاری و بھکمری جیسی پریشانی سے نمٹنے میں مدد کے طریقے تلاش کرنے میں لگ جائیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]