صبیح احمد
اس ہفتہ سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے سے سیاسی جماعتیں خاص طور پر متاثر ہوں گی۔ سپریم کورٹ نے انتخابی بانڈس اسکیم پر پابندی کا حکم دیا ہے۔ لوک سبھا انتخابات سے عین قبل سپریم کورٹ نے انتخابی عطیات کے اس نظام کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ یہ نظام کیوں بنایا گیا؟ جو سوالات اب اٹھ رہے ہیں، وہ پہلے کیوں نہیں اٹھائے گئے؟ انتخابی سال میں اس کا کیا اثر ہوگا؟
سیاسی جماعتوں کے فنڈنگ کے ذرائع کے بارے میں رائے دہندگان کے معلومات کے حق کو ترجیح دیتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا ڈاکٹر ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں جسٹس سنجیو کھنہ، بی آر گوئی، جے بی پاردی والا اور منوج مشرا پر مشتمل سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے 15 فروری 2024کو الیکٹورل بانڈس اسکیم(ای بی ایس) کو کالعدم قرار دے دیا۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ 2018 میں متعارف کردہ ’ای بی ایس‘ کے توسط سے افراد اور کارپوریشنوں کو اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے انتخابی بانڈس خرید کر گمنام طور پر سیاسی جماعتوں کو فنڈ دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ عدالت نے انتخابی اخراجات سے متعلق کلیدی قوانین میں کی گئی ترامیم کو بھی خارج کر دیا جو انتخابی بانڈس اسکیم کے متعارف ہونے سے قبل متعارف کرائے گئے تھے۔ اس کیس کی سماعت گزشتہ سال 31 اکتوبر سے 2 نومبر تک چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں 5 ججوں پر مشتمل بنچ نے کی تھی۔ آخر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے؟ عرضی گزاروں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ)، کامن کاز اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس نے دلیل دی تھی کہ یہ اسکیم آئین کے آرٹیکل19(1) (a) کے تحت معلومات کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔
بہرحال اس دلیل کو تسلیم کرتے ہوئے عدالت نے متفقہ طور پر کہا کہ ووٹروں کو سیاسی جماعتوں اور ان کے فنڈنگ کے ذرائع کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا حق ہے۔ عدالت نے پیسے اور سیاست کے درمیان ’گہری وابستگی‘ پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ سیاسی جماعتوں اور رقم دینے کی اہلیت رکھنے والوں کے درمیان تال میل کے بارے میں رائے دہندگان کو جاننے کا حق حاصل ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ معلومات ای بی ایس کے تحت چھپائی گئی ہیں۔ عدالت نے درخواست گزاروں کی عرضداشتوں سے اتفاق کیا اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 29C کو ایک قابل عمل اور کم پابندی والے متبادل کے طور پر پیش کیا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ فائنانس ایکٹ 2017 کے ذریعہ ترمیم سے پہلے، اس دفعہ کے تحت تمام سیاسی پارٹیوں کو 20,000 روپے سے زیادہ کے کسی بھی عطیہ کا اعلان کرنا ضروری تھا۔ اس دفعہ میں ترمیم کو، جس میں سیاسی جماعتوں کو انتخابی بانڈس کے ذریعہ وصول کردہ عطیات کے اعلانات کرنے سے استثنیٰ دے دیا گیا تھا، عدالت نے مسترد کر دیا۔ عدالت نے کمپنیوں کی طرف سے کیے جانے والے عطیات اور افراد کی طرف سے دیے جانے والے چندو ں کے درمیان فرق کو بھی واضح کر دیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کمپنیوں کی جانب سے عطیات خالصتاً کاروباری لین دین تھے جو بدلے میں فوائد حاصل کرنے کے ارادے سے کیے گئے تھے۔ عدالت نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا کہ کمپنیاں عطیات کے ذریعہ سیاست پر اثرانداز ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ ’لامحدود کارپوریٹ عطیات کی اجازت دیے جانے سے انتخابی عمل میں کمپنیوں کے بے لگام اثر و رسوخ کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔‘ عدالت کے مطابق یہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے حق کی خلاف ورزی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس طرح کی اسکیم کیوں لائی گئی؟ اس صورتحال کے لیے ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس معاملے میں تمام سیاسی جماعتیں ذمہ دار ہیں؟یا صرف برسراقتدار پارٹی ہی ذمہ دار ہے جس نے قوانین میں ترمیم کرکے انتخابی بانڈس اسکیم کی شروعات کی تھی؟
درحقیقت انتخابی بانڈس کے ذریعہ سبھی سیاسی جماعتوں نے چندہ لیا ہے۔ خواہ کسی کو کم چندہ ملا ہو یا کسی کو زیادہ۔ اگر کسی پارٹی کو اس اسکیم پر اعتراض ہوتا تو وہ اس طریقے سے چندہ لینے سے انکار کر دیتی لیکن کسی نے ایسا نہیں کیا۔ اس لیے تمام پارٹیوں کو اس میں برابر کا شراکت دار سمجھا جانا چاہیے۔ گزشتہ 5-6 سالوں میں الیکٹورل بانڈس کی وجہ سے کچھ پارٹیوں کو نقصان ہوا اور کچھ کو بہت فائدہ ہوا۔ وہ حکمراں جماعتیں جو کچھ دینے کی طاقت رکھتی ہیں، انہوں نے اس سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ ریاستی سطح پر بھی پارٹیوں کو بہت زیادہ عطیات ملے ہیں۔ ہمارے ملک میں انتخابی اخراجات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی اخراجات کی حد بڑھا کر 40 لاکھ روپے تک کر دی ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ بتانا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ چندے کا آئینی طریقہ کار آخر کیا ہو۔ اب ایک بڑا سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ سیاسی پارٹیاں مستقبل میں الیکشن لڑنے کے لیے چندے کس طرح حاصل کریں گی؟ کوئی نہ کوئی راستہ تو نکالنا ہی پڑے گا۔ ہم ایک بدلتے ہوئے اور ترقی پذیر معاشرے میں ہیں۔ کوئی بھی چیز 100 فیصد درست نہیں ہو سکتی۔ جب ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے تو کالے دھن کو روکنے کی کوئی نہ کوئی ترکیب تو ضرور ہوگی۔
رازداری کا مسئلہ صرف انتخابی بانڈس کے حوالے سے نہیں ہے۔ بینکوں کی رازداری اور بینک صارفین کی رازداری کا بھی معاملہ ہے۔ بہرحال جو لوگ کارپوریٹ ہیں، جو کمپنیاں ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ ان کے نام ظاہر ہوں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم نے کانگریس کو زیادہ اور بی جے پی کو کم چندہ دیا اور بی جے پی اقتدار میں آگئی تو میرا نقصان ہوگا۔ لیکن جہاں تک رازداری کا تعلق ہے، جیسے ہی کوئی لین دین ہوتا ہے، وہ حکومت کے نوٹس میں آ جاتا ہے۔ اگر کوئی صنعت کار یہ سمجھتا ہے کہ اس نے کسی مخصوص پارٹی کو زیادہ اور کسی کو کم چندہ دیا ہے اور حکومت کو اس کا علم نہیں ہوگا تو وہ غلط فہمی میں ہوگا۔ جیسے ہی کوئی چندہ دے گا، وہ حکومت کی نظر میں آجائے گا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ عام طور پر انتخابی اخراجات جتنا دکھایا جاتا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ حکمراں پارٹی ہو یا اپوزیشن، وہ اپنی سہولت کے مطابق اس کے نفاذ پر متفق ہوتی ہے یا اس سے اختلاف کرتی ہے۔ اصلاحات ایک مسلسل عمل ہے۔ پہلے نقدی تھی، پھر انتخابی بانڈس آئے۔ اب آگے بھی کوئی نہ کوئی بہتر راستہ نکلے گا۔ انتخابی عطیات پر کافی عرصہ سے بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے۔ یہ ایک عملی مسئلہ ہے۔ اب تو انتخابی اصلاحات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ حکمراں جماعت کو ہمیشہ برتری حاصل ہوتی ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے، اگر وہ جاننا چاہتے ہیں تو وہ معلومات ان کے پاس ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ قانون کی تشریح کرتے ہوئے کسی چیز کو آئینی یا غیر آئینی قرار دے سکتا ہے۔ انتظامات کرنے کی ذمہ داری تو حکومت کی ہی ہے۔
[email protected]