پروفیسر عتیق احمدفاروقی
ایک زمانہ تھا جب پیاز کی قیمت آسمان چھورہی تھی۔ عوام پریشان تھے اور حدتو یہ ہے کہ اُس سے ملک کی سیاست بری طرح متاثرہوئی۔ اب ٹماٹرپرآفت آئی ہے۔ ہندوستانی کیلنڈرمیں اس سال ساون کا مہینہ پورے 58دن کا ہے۔ اس بار ساون میں چار نہیں، ہمارے ہندوبھائیوں کو آٹھ سوموار کے برتھ رکھنے ہوں گے۔ دراصل یہاں ساون کا ذکر اس لئے کیاگیاہے کیونکہ جب ساون ختم ہوگا تو تباہ کن بارش کی مصیبت سے نجات ملے گی۔ تب شاید بازار میں ٹماٹرودوسری سبزیوں کی قیمتوں میں بھی گراوٹ آئے گی۔
گزشتہ کچھ دنوں کی خبریں اورسرخیوں کا اگرجائزہ لیاجائے تو پتہ چلے گا کہ ٹماٹر کی قیمت جانے کب سے آسمان پر ہے ،مگرہمیں یاد رکھناچاہیے کہ جون کے درمیان میںہی ٹماٹر بیس روپئے کلو دستیاب تھا۔ جون کے آخر تک اس کی قیمت سوروپئے ہوگئی اورجولائی میں 120,160اورکب دوسو پار کرگئی پتہ ہی نہیں چلا۔ بارش شروع ہونے کے ساتھ ہی قیمت توسبھی سبزیوں کی بڑھی تھیں۔ ہندی اوراردو کے اخباروں میں توسبزیوں کی قیمت پر خبریں وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں، لیکن انگریزی کے اخباروں میں چٹخارے دار سرخیاں تب بنیں جب ’فاسٹ فوڈ چین میک ڈونلڈس‘ نے اعلان کیاکہ وہ اپنے مینوسے ٹماٹرکچھ مدت کیلئے ہٹارہاہے، تب ٹماٹر پر ایک سے ایک چٹکلے نکلنے لگے۔ ٹماٹرکی قیمت جب دوسوروپئے سے تجاوز کرگئی تب اس کی روزانہ کوریج شروع ہوئی اورملک کے کونے کونے سے خبریں آنے لگیں ۔ پریاگ راج میں ایک حزب اختلاف کے لیڈر نے ٹماٹرپر پہرے کیلئے باؤنسر تعینات کردئے، توریاستی حکومت نے اس پر این ایس اے کے تحت مقدمہ دائر کردیا۔ حکومتوں کو بھی خبریں بہت پریشان کرتی ہیں، شاید اسی لئے جنگی سطح پر کوششیں شروع ہوئیں اورمرکزی حکومت میں دوایجنسیوں نیفڈ اور این سی سی ایف کو ذمہ داری سونپی کہ خسارہ برداشت کر کے بھی بازار میں سستی قیمت پر ٹماٹرفروخت کریں۔ اب کرناٹک ،آندھرا پردیش اورمہاراشٹرا سے ٹماٹرلاکر یہ دونوں ایجنسیاں دہلی، نوئیڈا، لکھنؤ، کانپور، وارانسی، پٹنہ، مظفرپور، جے پور اورآرا سمیت شمالی ہندوستان کے چندشہروںمیں فروخت کررہی ہیں۔ ٹماٹرکی لاگت ان ایجنسیوں کو ایک سوپچیس سے ایک سوتیس روپئے فی کلو آرہی ہے۔ ظاہر ہے ، باقی پیسہ سرکار بھرے گی۔
امیدہے کہ اگست کے تیسرے ہفتے تک ٹماٹرکی قیمت واپس تیس روپے کلو کے نیچے پہنچ جائے گی، لیکن اس کے بعد کیاہوگا؟ہرسال کم سے کم دوبار ٹماٹرپیازیاآلو جیسی کسی سبزی پر ایسی ہائے توبہ مچتی ہے ۔ تمام قسم کے وعدے کئے جاتے ہیں اورپھر قیمتیں گھٹتے ہی سب بھول جاتے ہیں۔ دوسری خبرتب آتی ہے جب کسان اپنی فصل سڑک پر پھینک رہے ہوتے ہیں۔ ابھی سب نے یہ خبر پڑھی ہوگی کہ کیسے پنے کے ایک کسان کو ٹماٹرکی ایک ہی فصل میں تقریباً ڈھائی کروڑ روپئے کا منافع ہوا۔ نہ جانے کتنے لوگ للچانے لگے ہوں گے کہ اگلی بار ہم بھی ٹماٹرہی بوڈالیں گے، لیکن اس سے ٹھیک پہلے کا منظرخوفناک ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ٹماٹرکس قیمت میں مل رہاتھا ۔
گزشتہ سال ہریانہ،پنجاب اوردہلی کے قرب وجوار میں جن کسانوں نے ٹماٹر بوئے تھے ان کی سانسیں اٹکی ہوئی تھیں۔ ان گرمیوں سے پہلے قریب آٹھ مہینے تک کسانوں کو اپنے کھیت سے ٹماٹر دوسے پانچ روپئے کلو تک فروخت کرنا پڑرہاتھا۔ اس کی لاگت انہیں آٹھ روپئے کلو پڑتی ہے۔ قیمت اتنی کم تھی کہ نہ جانے کتنے کسانوں نے اپنی کھڑی فصل پر ٹریکٹر چلادئے تب انہیں کیاخبرتھی کہ اگردوماہ انتظار کرلیتے تو ان کی قسمت پلٹ جاتی ۔
ہندوستان میں ٹماٹرکو روایتی طور پر سردیوں کی فصل ماناجاتاتھا ہمارے بچپن میں توٹماٹرگرمیوں میں نہ ہوتاتھا اورنہ ملتاتھا۔ ظاہر ہے کہ کھانا بھی اسی حساب سے پکتاتھا، کھٹے کیلئے امچور یا املی جیسی چیزیں یاملک کے کچھ حصوں میں سوکھے ٹماٹر یا اس کا پہلے سے اکٹھاکر کے رکھا رس استعمال ہوتاتھا۔ زراعت میں سائنس داخل ہوئی اورہائی بریڈ بیچوں کے آنے سے اب کسی بھی موسم میں ٹماٹرکی پیداوار ہوسکتی ہے۔سب سے زیادہ فائدہ مند کھیتی گرمیوں اوربرسات میں ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ ٹماٹرمہنگابکتاہے ویسے تب کھیتی بہت مشکل اورزیادہ لاگت والی ہوتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اس موسم میں کسان ٹماٹر کی جگہ دھان یا مکہ جیسی دوسری فصلوں پر زور دیتے ہیں، جن میں خرچ اورنقصان کم ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹماٹرکی پیداوار کم ہوجاتی ہے اوراس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اگرموسم بگڑا توحالت اورخراب ہوجاتی ہے۔ ملک میں ہرسال تقریباً دوکروڑ ٹن ٹماٹرکی پیداوار ہوتی ہے، لیکن اس بار اس میں تیس فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔ نتیجتاً بازارمیں ہاہاکار ہے۔ تقریباً بیس سال پرانہ ایک قصہ یادآتاہے۔ جنرل پرویز مشرف تب پاکستان کے صدرتھے اوربی بی سی کے ایک ریڈیو پروگرام میں عوام کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے ۔ کسی نے پوچھا ٹماٹر 35 روپے کلو مل رہاہے ، کھانامشکل ہوگیاہے…. بات پوری ہونے سے قبل ہی مشرف بھڑک اٹھے ۔ بولے یہ کیابات ہوئی ۔
ٹماٹرمہنگا مل رہاہے۔ضروری ہے ٹماٹرکھانا؟بازارمیں کوئی اورسبزی نہیں ملتی؟ ڈاکٹرنے کہاہے کہ ٹماٹرکھاؤ؟ یہ کوئی سوال ہوا مجھ سے پوچھنے کیلئے ؟ بات چٹکلے جیسی لگتی ہے، لیکن بہت سے لوگ یہ پوچھنے لگے ہیں کہ آخربے موسم سبزی کھانے کی ایسی کیا ضرورت ہے کہ اس کے بناکام نہیں چلتا؟دوسرا سو ال یہ ہے کہ اگرسال میں دوتین مہینے کسی فصل پر کسانوں کو نفع ہوتادکھتاہے توکیا آپ کچھ مہنگائی برداشت نہیں کرسکتے؟جن کسانوںنے کچھ ہی وقت پہلے اپنی کھڑی فصل توڑنے کے بجائے اُسے برباد کرنا بہترسمجھا ان کاکہناہے کہ اگرحکومت ٹماٹرکا بارہ روپے کم سے کم قیمت ملنے کا التزام کردیتی تو شاید انہیں اپنی فصل ایسے برباد نہ کرنی پڑتی۔ابھی جو حکومت سستے ٹماٹرفروخت کرنے کیلئے ایک کلو پر پچاس سے ساٹھ روپئے کا نقصان اٹھانے کیلئے تیار ہے وہ کسانوں کو ایسی مددکا انتظام کیوں نہیں کرسکتی ،یہ ایک اہم سوال ہے۔
[email protected]
اب ٹماٹر ایک اہم ایشو: پروفیسر عتیق احمدفاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS