اب سکھ بنام مسلم فرقہ وارانہ سیاست

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

کشمیر کی تاریخ میں مسلم اکثریتی قوم اور سکھ اقلیت ہمیشہ پیار محبت سے ایک ساتھ رہی ہے، سخت حالات میں بھی دونوں قومیں اتحاد و اتفاق کے ساتھ ایک دوسرے سے اعتماد و بھروسے کے رشتوں سے جڑی رہی ہیں۔اگر ایک طرف کشمیر خانہ جنگیوں کا شکار رہا، وہیں دوسری طرف مختلف مذاہب و قوموں کے باہمی تعلقات اور ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد و یکجہتی کی مثال بھی رہا ہے، لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے دونوں قوموں کے درمیان نفرت کی سیاست کے بیج بونے کی خبریں نہ صرف کشمیر میں بے چینی پیدا کررہی ہیں، بلکہ پورے ہندوستان میں ایک نفرت کی فضا ہموار کرنے میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے تنازع کا سبب ایک شادی ہے جو ایک19سالہ سکھ لڑکی اور ایک29سالہ مسلم کشمیری کی باہمی رضامندی سے ہوئی۔ شادی کے بعد تنازع کھڑا ہوگیا۔ کشمیر میں یا دیگر کسی بھی جگہ دو مذہبی فرقوں کے درمیان شادی یا تبدیلی مذہب کا واقعہ ہمارے سماج کے لیے کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، لیکن موجودہ حالات میں ایک مخصوص سیاسی نظریے کے حامل افراد ایسے واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی تاک میں رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بین المذاہب شادی یا محبت کو نہ تو دونوں فریقین کے خاندان کی تائید حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی سماج کی، لیکن ایک ہی سماج یا معاشرے میں اس قسم کے واقعات ہوتے رہے ہیں نیز ان پر مکمل پابندی نافذ کرنا کسی بھی ملک یا سماج میں ممکن نہیں ہوسکا ہے، البتہ ایسے واقعات میڈیا یا عوام کے لیے عموماً موضوع بحث بھی نہیں ہوتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بین المذاہب شادی کو سماج کے کسی طبقے کی تائید حاصل نہیں ہے لیکن کسی ایک مسلم لڑکے کی کسی ایک سکھ یا ہندو لڑکی سے شادی کو ایک دوسری قوم کے خلاف صف آرا کرنے کی سیاسی کوششیں ایک ایسا سماج بنادیں گی جہاں حکومت تو فرقہ پرست طاقتوں کو مل سکتی ہے لیکن سماج نفرت کی آگ میں جھلس جائے گا۔

کشمیر میں ہونے والے واقعہ پر اگر نظر ڈالیں تو سری نگر کی منمیت کور جس کی عمر عدالتی ریکارڈ کے مطابق19سال ہے، جس نے ایک کشمیری مسلم کے ساتھ شادی کی، شادی کے بعد لڑکی کے گھر والوں نے جبریہ تبدیلی مذہب کا الزام لڑکے پر عائد کیا، وہیں ایک دوسری لڑکی28سالہ دنمیت کور جس نے 2014 میں اپنے کلاس میٹ مسلم لڑکے سے شادی کی تھی، اس کے اوپر بھی جبریہ مذہب تبدیلی اور زبردستی شادی کا الزام لگاتے ہوئے کشمیر کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر مقامات پر بھی احتجاجات ہونے لگے۔ دنمیت کور نے بندوق کی نوک پر شادی و تبدیلی مذہب کے الزامات کو سراسر خارج کردیا ہے، جب کہ منمیت کا عدالت میں دیا گیا بیان ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا ہے لیکن اس کو اس کے اہل خانہ کے حوالے کردیا گیا جس کی بعد میں ایک سکھ لڑکے سے شادی کرادی گئی، جب کہ شاہد نظیر بھٹ کو پولیس تحویل میں بھیج دیا گیا، منمیت کور کی فیملی کا الزام ہے کہ کورٹ میں بیان درج ہونے کے درمیان ان کو کورٹ روم میں نہیں جانے دیا گیا جبکہ سیکڑوں سکھ عدالت کے باہر نعرے بازی کررہے تھے۔تنازع اس وقت فرقہ وارانہ سیاست کا شکار ہوگیا جب دہلی سے دہلی سکھ گرودوارہ مینجمنٹ کمیٹی کے صدر منجندر سنگھ سرسا ایک وفد کے ساتھ27جون کو سری نگر پہنچے اور وہاں ایک احتجاجی پروگرام منعقد کیا جس میں مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت آمیز اشتعال انگیز بیانات دیے گئے، ساتھ ہی بی جے پی اتحاد میں شامل شرومنی اکالی دل کے صدر سکھبیر سنگھ بادل اور نیشنل سکھ فرنٹ کے چیئرمین وریندرجیت سنگھ جیت نے بھی سخت بیانات جاری کیے، اکال تخت جتھیدار نے بھی مرکزی حکومت کو خط بھیج کر اترپردیش و مدھیہ پردیش کی طرز پر تبدیلی مذہب مخالف قانون بنانے کی گزارش کی۔ باہری دباؤ اور واقعہ کو فرقہ وارانہ سیاست کا رنگ دینے کی ناپاک کوششوں کو دیکھ کر آل پارٹیز سکھ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے چیئرمین جگموہن سنگھ رائنا نے پریس کانفرنس کرکے صفائی پیش کی کہ کشمیر میں جبریہ تبدیلی مذہب کا کوئی بھی حادثہ پیش نہیں آیا ہے اور دہلی کے لیڈران بھڑکانے والے بیانات دے کر ایک معمولی واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں، کشمیر میں مسلم اور سکھ قومیں ہمیشہ میل محبت سے رہی ہیں جن کے درمیان نفرت کے بیج بونے کی ناپاک کوشش ہورہی ہے اور ایسے تمام ہی سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔
بین المذاہب شادی کے واقعات میں عموماً لڑکی کے گھر والے پولیس تھانے میں رپورٹ درج کروانے اور لڑکی کو واپس حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لڑکی کے اہل خانہ اپنی لڑکی کو بہلا پھسلا کر یا زبردستی اغوا کرنے کی دفعات میں مقدمہ درج کرواتے ہیں، اگر لڑکی اور لڑکا دونوں بالغ ہوں تو پولیس اپنی تفتیش میں باہمی رضامندی کے پہلو پر اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے، لڑکی کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، لڑکی کے بیان کے بعد مجسٹریٹ کو اگر لڑکی کی رضامندی سے شادی یا مذہب کی تبدیلی ہونا ثابت ہوتا ہے تو معاملہ وہیں ختم ہوجاتا ہے، لڑکی اپنی مرضی سے لڑکے کے ساتھ چلی جاتی ہے، عدالت ایسی صورت میں دونوں کو تحفظ فراہم کرنے کی درخواست پر پولیس و انتظامیہ کو احکامات دیتی ہے تاکہ ان کو کسی بھی قسم کے خطرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔
اگر پولیس تفتیش یا مجسٹریٹ کو دیے گئے بیان کے دوران کسی بھی قسم کے دباؤ یا طاقت کے استعمال کی بات سامنے آتی ہے، یا لڑکی کا نابالغ ہونا ثابت ہوتا ہے تو لڑکی کو اس کے اہل خانہ کے حوالے کرتے ہوئے لڑکے کو پولیس کے حوالے کردیا جاتا ہے، زور زبردستی یا طاقت کے استعمال کے ذریعے کسی لڑکی کو اغوا کرنے اور اس کے مذہب کو غیرقانونی طریقے سے تبدیل کرانے کے الزام میں انڈین پینل کوڈ کی دفعات کے ساتھ ہی دیگر مروجہ قوانین کے تحت پولیس اپنی تفتیش مکمل کر کے عدالت میں چارج شیٹ داخل کرتی ہے اور ملزم لڑکے کو قانون کے مطابق عدالت میں اپنا دفاع کرنے کا دستوری موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے ہونے والے بیانات اس پورے مقدمہ میں سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں، مجسٹریٹ کی قانونی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جب وہ کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ164کے تحت کسی کے بھی بیان درج کرے تو کورٹ روم میں بیان دینے والے کے علاوہ صرف مجسٹریٹ اور اس کا اسٹینو(تحریر کرنے والا) ہی موجود ہو تاکہ بیان دینے والا کسی بھی قسم کے دباؤ یا ڈر سے پوری طرح آزاد ہو نیز کسی کی موجودگی کا اس کے ذہن و دماغ پر کوئی اثر یا دباؤ نہ ہو، مجسٹریٹ پورا بیان درج کرنے کے بعد وہ بیان پڑھ کر سنائے گا اور اس پر توثیق کے لیے بیان دینے والے کے دستخط کے بعد اپنے دستخط اور مہر تصدیق کے لیے ثبت کرے گا۔
ہمارے ملک کو کثیرالمذاہب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیکولر ملک ہونے کی انفرادیت حاصل رہی ہے، لیکن ایک خاص ذہنیت کی سماجی و سیاسی طاقتیں سماج میں نفرت کی سیاست کرکے اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کررہی ہیں، کچھ دنوں پہلے کیرالہ میں الیکشن ہونے والے تھے اور کیرالہ میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی غرض سے لو جہاد کی سیاست کو ہوا دی گئی، ہادیہ کا مقدمہ ہمارے سامنے ہے، کس طرح این آئی اے کو ہادیہ کے معاملے میں تفتیش دی گئی اور ایک عام واقعہ کو ملک کی سلامتی کا مسئلہ بنانے کے لیے حکومت و میڈیا دونوں نے پوری تگ و دو کی، اب پنجاب اور اترپردیش میں الیکشن ہونے والے ہیں، ملک کے وزیراعظم نے جموں وکشمیر کی تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ حالیہ دنوں میں ہی میٹنگ کرکے جموں و کشمیر میں بھی سیاسی ڈھانچے میں دوبارہ روح پھونکنے کی امید جتائی ہے لیکن اب دوبارہ ہندو-مسلم نفرت کے پرندے کے ساتھ مسلم بنام سکھ پرندے کو بھی پنجرے سے باہر نکال دیا گیا ہے، آخر یہ نفرت کی سیاست ہمارے سماج کو کتنا کھوکھلا کرنا چاہتی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بین المذاہب شادی کو سماج کے کسی طبقے کی تائید حاصل نہیں ہے لیکن کسی ایک مسلم لڑکے کی کسی ایک سکھ یا ہندو لڑکی سے شادی کو ایک دوسری قوم کے خلاف صف آرا کرنے کی سیاسی کوششیں ایک ایسا سماج بنادیں گی جہاں حکومت تو فرقہ پرست طاقتوں کو مل سکتی ہے لیکن سماج نفرت کی آگ میں جھلس جائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS