اب بچے پڑھیں گے بلبل اور ساورکر کی کہانی

0

محمد فاروق اعظمی

ملک کا آئین ہمیں سائنسی مزاج کی ترویج وتوسیع کا پابند کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 51 (ایچ ) کے مطابق ہر شہری کا یہ فرض قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے اندر سائنسی مزاج، انسانیت اور نقد و اصلاح کا جذبہ پیدا کرے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے سائنسی مزاج کو فروغ دینا تودور کی بات ہے شہریوں کے رہے سہے سائنسی مزاج کو بھی تیزی سے بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مرکزی سطح پر جو کوششیں اورتبدیلیاں ہورہی ہیں وہ تو جگ ظاہر ہیں لیکن ریاستی سطح پر خاص کر ان ریاستوں میں جہاں بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکمرانی ہے وہاںیہ کوششیں ملک کو عالمی سطح پر سبک سر کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔
حالیہ دنوں کرناٹک کی حکومت نے آٹھویںجماعت کے ترمیم شدہ نصاب میں کچھ ایسا ہی ایک سبق داخل کیاہے جس نے مروجہ سائنس و حکمت کی تمام چولیں ہلاڈالی ہیں۔ درجہ ہشتم کے کنڑ2-کی نصابی کتاب کے مصنف کے ٹی گٹی نے ’کالوانو گیداوارو‘ (Kalavannu Geddavaru) کا ایک سفر نامہ شامل کیا ہے۔ اس سفر نامہ میں ہندوتوکے نظریہ سازدامودر ساورکر کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے مصنف نے ان کی قید کے احوال کا ذکر کیا ہے۔اس سبق کے ایک پیراگراف میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ انڈمان کی جس سیل میں ساورکر کو قید کیاگیاتھا وہ چاروں جانب سے بند تھی اس میںایک چابی داخل کرنے کا بھی سوراخ نہیںتھا لیکن اس قید خانہ میں ایک بلبل آتی تھی اوراس کے پروں پر بیٹھ کر ساورکرمادر وطن کی سیر پر جاتے تھے اور پھر رات کو واپس بھی لوٹ آتے تھے۔
متنازع سے زیادہ یہ احمقانہ متن روہت چکرتیرتھ کی سربراہی میں بنی کرناٹک ٹیکسٹ بک ریویژن کمیٹی نے آٹھویں جماعت کے ترمیم شدہ نصاب کیلئے منظور کیا ہے۔جہاں تک دامودرساورکرکی تعریف و توصیف کامعاملہ ہے، ان کے سلسلے میں دستیاب حقائق کی موجودگی میں اس پر بھی اعتراض کیا جانا چاہیے لیکن مصنف نے اس سے بھی آگے بڑھ کر ساورکر کی محبت میں انہیں بلبل کے پرپر بٹھاکر ہندوستان کی سیربھی کرادی ہے۔تخیل اور حقیقت کی آمیزش سے بیان کی جانے والی یہ کہانی ساورکر کو ہیرو کے بجائے جادوگر ثابت کررہی ہے۔ کسی نصاب کی کتاب میں ایسے قصہ کہانی کوحقیقت بناکر پیش کرنا طلبا و طالبات اور نئی نسل کے ذہن کو کہاں لے جائے گا، ان کی سوچ پر اس کے کیااثرات ہوں گے، اس کا تصور ہی ہولناک ہے۔
نصاب کی کتابوں میں اس طرح کی تخیلاتی کہانیاں بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ ہیں۔ یہ بچے کل بڑے ہوکر تاریخ کو حقائق کی بنیاد پرپرکھنے کے بجائے ایسی ہی کہانیوں کی تلاش میں رہیںگے اوراس کانتیجہ بالآخر ملک کے مستقبل کیلئے انتہائی خراب ہو گا۔
اس پر ستم یہ ہے کہ کرناٹک کے وزرااسے حقیقت، سچ اور درست تسلیم کرتے ہوئے اس پر اڑے بھی ہوئے ہیں۔ کرناٹک میںمحکمہ اسکولی تعلیم اورخواندگی کے وزیر بی سی ناگیش کا کہنا ہے کہ ساورکر ایک عظیم حریت پسند رہنما تھے۔مصنف نے اس سبق میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ درست ہے، اسے ہٹایا نہیںجائے گا۔
ہندوستان کے مین لینڈسے 1400کلومیٹر دور خلیج بنگال میں واقع انڈمان نیکوبار مجموعہ الجزائرکے قید خانہ سے بلبل کے پر پر بیٹھ کر پورے ملک کی سیر کرنے اور رات تک واپس لوٹ جانے کایہ دعویٰ دراصل ہندوستان کو ’ہندوراشٹر‘ بنانے کی سمت اختیار کی جانے والی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔نصاب بنانے والے، لکھنے والے اور اس پر اصرار کرنے والے بھی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ یہ ایک گڑھی ہوئی کہانی ہے۔ لیکن ان کی کوشش ایسی تمام کہانیوں کو جن میں ہندوتو کے نظریہ سازوں کی تعریف و توصیف کا پہلو نکلتا ہو حقیقت کے درجہ تک لانا ہے۔کرناٹک میں یہ کام تیزی سے کیاجارہاہے اوراس کیلئے مضحکہ خیز طریقہ سے بھی گریز نہیں ہے۔ دامودر ساورکر پر انگریزوں سے وفاداری نبھانے اور ان سے معافی مانگنے کا سنگین الزام ہے پھر بھی ان کی جھوٹی عظمت کے ترانے گائے جارہے ہیں۔اسی کرناٹک میں شہیدوطن ٹیپوسلطان کے مجسمہ کو توڑا جارہا ہے اور ان کے پوسٹر پر ساورکر کا پوسٹر چسپاں کرکے ساورکر کو عظیم بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اب بلبل اور ساورکرکی کہانی کو نصاب کا حصہ بنا کر آنے والے 30، 40 برسوں بعد اسے ایک معمول کاواقعہ سمجھنے کی راہ ہموار کی گئی ہے اورمزید ایسی ہی بے پر کی کہانیوں سے تاریخ کو بھرکر ہندو توکے نظریہ سازوں کی عظمت ثابت کی جائے گی۔
تاریخ سے چھیڑچھاڑ اور اسے بدلنے کاسلسلہ نیا نہیں ہے۔ تعلیم کے بھگواکرن کی کوششیںتسلسل کے ساتھ کی جارہی ہیں جب سے مرکز میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے یہ کوششیں باقاعدہ ایک مہم کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ مادری زبان میںتعلیم کیلئے سنسکرت کو آگے لانا، متروک اور غیر سائنسی مضامین، وید اور بھگوت گیتا کو شامل نصاب کیاجانا اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ چند ماہ قبل اس وقت کے نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو نے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ تعلیم کے بھگواکرن کی مذموم کوشش کو انڈیانائزیشن اور ہندوستان میں لارڈ میکالے کی جاری کردہ تعلیمی پالیسی کے خلاف احتجاج قرار دیاتھا۔وہ قدیم نظام جس میں عورتوں اور سماج کے پس ماندہ طبقے کیلئے علم کی بات سننابھی جرم تھا،اس کو واپس لانے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے اور اس کیلئے کئی محاذ پر کام کیاجارہاہے۔بلبل اورساورکر کی کہانی بھی اسی مہم کا ایک حصہ ہے۔ ایک طرف تعلیم کے شعبہ کی مارکیٹنگ کی جارہی ہے تو دوسری طرف سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں دیو مالائی کہانیاں شامل کی جارہی ہیں۔ امیراور اعلیٰ ذات جن کے پاس دولت ہے وہ تو اپنے بچوںکو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بھیج کرا ن کیلئے اچھی تعلیم کا بندوبست کریں دوسری جانب سماج کے پس ماندہ افراد جن کے پاس دولت نہیں ہے، ان کے بچے سرکاری اسکولوںمیں بلبل اورساورکرکی کہانی کوحقیقت سمجھ کر پڑھیں اور ہندوتو کے نظریہ کو آگے بڑھانے کیلئے سنگھ کے اشاروں پر چلیں۔
تعلیم اور نظام تعلیم کے تئیں یہ غیرسائنسی اپروچ جہاں آئین کی روح کے خلاف ہے، وہیں یہ ملک کے استحکام اورسالمیت کیلئے بھی بہت بڑاخطرہ بن سکتی ہے۔ تاریخ بدلنے کی کوشش اور نصاب میں بلبل و ساورکر کی کہانی ملک کو وشو گرو تو نہیں بناسکتی ہے۔ ہاں! ہندوستان کو عالمی سطح پررسوا کرنے کا سامان ضرور کرسکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS