پنکج چترویدی
6جنوری 2023کو جب اتراکھنڈ ریاستی سرکار کے ڈیزاسٹر سکریٹری رنجیت سنہا کی سربراہی میں سائنسداں، انجینئر وغیرہ کی ٹیم جوشی مٹھ کا معائنہ کرنے پہنچی تب تک کافی تاخیر ہو چکی تھی۔ جن پہاڑوں، پیڑوں، ندیوں نے 5 ہزار سال سے زیادہ وقت تک انسانی تہذیب، روحانیت، مذہب، ماحولیات کو ڈیولپ ہوتے دیکھا تھا، وہ بکھر چکے تھے۔ نہ سڑک بچ رہی ہے، نہ مکان۔ نہ ہی ندی کے کنارے۔ سرکار نے بھی کہہ دیا کہ جوشی مٹھ کو خالی کرنا ہوگا، جز وقتی آسرے اور 4 ہزار روپے مہینے کے معاوضے کا اعلان ہوا ہے لیکن ان ہزاروں لوگوں کے گزر بسر کا کیا ہوگا؟ آدی شنکراچاریہ کے ذریعہ قائم مقام، قدروں اور سنسکار کا کیا ہوگا؟ آنسوئوں سے بھرے چہرے اور خدشات سے بھرے دل غیر یقینی صورت حال اور اندیشوں کے درمیان آویزاں ہیں۔ جب دنیا پر ماحولیاتی تبدیلی کا قہر سامنے نظر آ رہا ہے، ہمالیہ پہاڑ پر ترقی کی نئی تاریخ لکھنے کی فوری ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ جان لیں یہ صرف جوشی مٹھ کی بات نہیں ہے، پہاڑ پر جہاں جہاں سانپ جیسی سڑک پہنچ رہی ہے، سیاحوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے، پہاڑوں کے درکنے، سرکنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اتراکھنڈ سرکار کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ اور ورلڈ بینک نے 2018 میں ایک ریسرچ کروائی تھی جس کے مطابق چھوٹے سے اتراکھنڈ میں 6300 سے زیادہ مقام لینڈ سلائیڈ زون کی شکل میں نشان زد کیے گئے تھے۔ ریکارڈ کہتا ہے کہ ریاست میں چل رہے ہزاروں کروڑ کے ترقیاتی پروجیکٹ پہاڑوں کو کاٹ کر یا جنگل اجاڑ کر بن رہے ہیں اور اسی سے لینڈ سلائیڈ زون کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
جوشی مٹھ جنگ کے نقطۂ نظر سے حساس ہے۔ ہند، چین، تبت سرحد کے آخری گائوں کے لیے مشہور سمندری سطح سے تقریباً 1800 میٹر کی اونچائی پر واقع جیوتر مٹھ (جوشی مٹھ) کے، جسے بدری ناتھ دھام کا صدر دروازہ کہا جاتا ہے، یہاں نرسنگھ مندر کے درشنوں کے بعد تیرتھ یاتری اپنی بدری ناتھ دھام کی تیرتھ یاترا شروع کرتے ہیں۔ تبت (چین) سرحدی علاقے کا یہ آخری شہر ہے۔ شہر کے زیادہ تر علاقو ںمیں فوج اور آئی ٹی بی پی کے کیمپ ہیں اور اب زمین کی دراڑ فوج کے ٹھکانوں تک پہنچ رہی ہے۔
مسوری میں سڑک جام سے بچنے کے لیے 2.74 کلومیٹر کے لیے لمبی سرنگ کے لیے 700کروڑ روپے منظور کرلیے گئے جبکہ 2010 میں مسوری کی آئی اے ایس اکادمی نے ایک ریسرچ میں بتایا تھا کہ مسوری کے وسائل پر دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہوچکی ہے۔ مسوری کی آبادی صرف تیس ہزار ہے اور ان میں بھی آٹھ ہزار لوگ ایسے مکانوں میں رہتے ہیں جہاں لینڈ سلائیڈ کا خطرہ ہے، اتنے چھوٹے سے مقام پر ہر سال کوئی پچاس لاکھ لوگوں کا پہنچ پانا پانی، بجلی، سیور سبھی پر بے حد بوجھ کی وجہ ہے، ایسے میں سرنگ بناکر زیادہ سیاحوں کو بھیجنے کا تصور اصل میں مسوری کی بربادی کا دستاویز ہوگا۔ ویسے مسوری کے لیے سرنگ بنانے کی کوشش پہلے بھی ہوئی جب انگریز کے دور حکومت میں وہاں ٹرین لانے کے لیے سرنگ کی بات آئی تو عوامی احتجاج کی وجہ سے اس کام کو روکنا پڑا تھا اور آدھی ادھوری پٹریاں پڑی رہ گئی تھیں۔ اتراکھنڈ کے سب سے مشہور سیاحتی مقام نینی تال کا وجود ہی لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ یہاں بالیہ نالہ، چائنا پیک، مال روڈ، کیلا کھان، ٹھنڈی سڑک، ٹفن ٹاپ، سات نمبر سیکٹر میں زبردست لینڈ سلائیڈ ہے۔ 1880 میں نینی تال کی آبادی بمشکل 10 ہزار تھی اور یہاں بھیانک لینڈ سلائیڈ ہوئی تھی، کوئی ڈیڑھ سو لوگ مارے گئے تھے، ان دنوں تب کی برطانوی حکومت نے پہاڑ گرنے سے بیدار ہوکر نئی تعمیرات پر تو روک لگائی ہی تھی، شیر کا ڈانڈا پہاڑی پر تو گھاس کاٹنے، چرا گاہ کی شکل میں استعمال کرنے اور باغبانی پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ کماؤں یونیورسٹی کے جیوسائنٹسٹ پروفیسر بی ایس کوٹلیا بتاتے ہیں کہ نینی تال اور نینی جھیل کے درمیان سے گزرنے والے فالٹ کے ایکٹو ہونے سے لینڈ سلائیڈ اور زمین دھنسنے کے واقعات ہو رہے ہیں۔ شہر میں مسلسل بڑھتی تعمیرات کا دبائو اور زمین کے اندر ہلچل اس کی وجہ سے ہوسکتی ہیں۔
دنیا کا سب سے نوجوان اور زندہ پہاڑ کہلانے والے ہمالیہ میں ہریالی اجاڑنے کے نئے پروجیکٹ خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ نومبر 2019 میں ریاست کی کابینہ سے پاس ہوئے ضابطے کے مطابق کم سے کم دس ہیکٹیئر میں پھیلی ہریالی کو ہی جنگل کہا جائے گا۔ یہی نہیں وہاں کم سے کم پہاڑوں کا گھنا پن 60 فیصد سے کم نہ ہو اور جس میں 75 فیصد مقامی پیڑ پودوں کی اقسام ہوں۔ ظاہر ہے کہ جنگل کی تاریخ میں تبدیلی کا اصل ارادہ ایسے کئی علاقوں کو جنگل کے زمرے سے ہٹانا ہے جو مبینہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اتراکھنڈ میں بن رہی پکی سڑکوں کے لیے 356 کلومیٹر کے جنگل کے علاقوں میں مبینہ طور پر 25 ہزار پیڑ کاٹ ڈالے گئے۔ معاملہ این جی ٹی میں بھی گیا لیکن تب تک پیڑ کاٹے جاچکے تھے۔ یہی نہیں سڑکوں کا جنجال ماحولیاتی لحاظ سے حساس اترکاشی بھاگیرتی وادی سے بھی گزر رہا ہے۔ اتراکھنڈ کے 4 اہم دھاموں کو جوڑنے والی سڑک پروجیکٹ میں 15 بڑے پل، 101 چھوٹے پل، 3596 پلیا، 12 بائی پاس سڑکیں بنانے کا التزام ہے۔ ادھر رشی کیس سے کرن پریاگ اور وہاں سے جوشی مٹھ تک ریل پروجیکٹ، جوکہ 90 فیصد پہاڑ میں چھید کرکے سرنگ سے ہوکر جائے گا، نے پہاڑ کو تھراکر رکھ دیا ہے۔ خیال رہے کہ ہمالیہ پہاڑ نہ صرف ہر سال بڑھ رہا ہے بلکہ اس میں زمین کے اندر اٹھا پٹخ چلتی رہتی ہے۔ یہاں پیڑ زمین کو باندھ کر رکھنے میں بڑا رول ادا کرتے ہیں جو کہ کٹائو اور پہاڑ گرنے سے روکنے کا واحد طریقہ ہے۔ ہمالیائی زلزلے کے علاقے میں ہندوستانی پلیٹ کا یوریشین پلیٹ کے ساتھ ٹکرائو ہوتا ہے اور اسی پلیٹ بائونڈری پر تنائو سے بھرپور توانائی جمع ہو جاتی ہے جس سے کرسٹل چھوٹا ہو جاتا ہے اور چٹانوں کی شکل بدل جاتی ہے۔ یہ توانائی زلزلے کی شکل میں کمزور زونوں اور فالٹوںکے ذریعے سامنے آتی ہے۔ جب پہاڑ پر توڑ پھوڑ یا دھماکے ہوتے ہیں، جب اس کی قدرتی شکل سے چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے تو زلزلے کے خطرے بڑھتے ہیں۔
پہاڑ کے اجڑنے کی وجوہات کو باریکی سے دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی مار، اندھا دھند بجلی پروجیکٹ، سڑکوں کی بے ترتیب تعمیرات کے ساتھ ساتھ ان حالات کے لیے مقامی لوگ بھی کم قصوروار نہیں ہیں۔ چار دھام کی سیاحت سے زندگی بسر کرنے والوں کو جب زیادہ پیسہ کمانے کا چسکا لگا اور انہوںنے اپنا انداز زندگی بدل ڈالا تو دھیرے دھیرے یہ حالات بنے۔ انتظامیہ نے گھر گھر نل پہنچا دیے۔ پہلے جسے جتنی ضرورت ہوتی تھی، ندی کے پاس جاتا تھا اور پانی کا استعمال کرلیتا تھا، اب جو گھر میں ٹوٹی لگی تو ایک گلاس کے لیے ایک بالٹی پھیلانے کی لالچ لگ گئی۔ خیال رہے کہ اس علاقے میں ٹھنڈ کے دنوں میں اوسطاً فی کس 10 لیٹر اور گرمی میں زیادہ سے زیادہ 21 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی تھی۔ کنکریٹ بڑھنے کے ساتھ یہ مطالبہ اوسطاً 75 لیٹر تک ہوگیا۔ جب اتنا پانی استعمال ہوگا تو ظاہر ہے کہ بیکار گئے پانی کو بہنے کے لیے راستہ بھی چاہیے۔ اب پہاڑوں کی ڈھلانوں پر بسے مکانوں کے نیچے نالیوں کی جگہ زمین کاٹ کر پانی تیزی سے آنے لگا، اس سے نہ صرف جدید کنکریٹ والے بلکہ روایتی مکان بھی ڈھنے لگے۔ یہی نہیں زیادہ پیسہ کمانے کی لالچ نے زمینوں پر قبضے، ندی کے کنارے سیاحوں کے لیے رہائش گاہ کی لالچ میں بھی اضافہ کیا۔
یہاں سڑک کا استعمال جنگ سے زیادہ مذہبی سیاحت کے لیے ہے اور اس کے پیچھے ایک سیاست بھی ہے۔ اتنے سیاح آنے سے مقامی تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے، آج کئی ہزار لوگ ریاست کے مختلف پروجیکٹوں میں روزگار پارہے ہیں تو یقینا مقامی لوگوں کو اس میں خوشحالی نظر آتی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ مذہب اب ملک کی سیاست کا ذریعہ بن گیا ہے اور اس طرح سہولتوں سے مزین سڑکیں اور چکا چوند کرنے والی عوامی سہولتیں ملک میں پیغام دیتی ہیں کہ فلاں سرکار نے ہندو تیرتھوں میں کام کیا۔ یہ تو کوئی جانتا نہیں کہ ان سہولتوں کو مہیا کرانے کے لیے کس طرح ماحولیات کو نقصان ہوا لیکن یہ کچھ دن کے لیے آئے تیرتھ یاتری کے ووٹ بینک بنانے کا چارہ ضرور ہوتا ہے۔
[email protected]