خواجہ عبدالمنتقم
جب وادیٔ کشمیر میں دہشت گرد ہمار ے ان بے گناہ شہریوں کو جو اس خطۂ جنت نظیر میں اپنی چھٹیاں منانے اور تفریح طبع کے لیے آئے ہوں، اس بے دردی سے جان لے لیں اور پاکستان کے ساتھ جنگ کے بادل منڈلا رہے ہوں تو پوری قوم کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کے تئیں اپنی بنیادی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کوئی بھی ایسی حرکت نہ کرے جس سے ملک میں انتشاری کیفیت پیدا ہو اور ہم دشمن سے دست و گریباں ہونے کے بجائے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے لگیں۔ کشمیر میں دہشت گردوں کے ذریعے ہمار ے بے گناہ شہریوں کی جان لینے کے بعد ہمارے ملک کے عوام نے (ماسوائے ان چند عوامل کے جنہوں نے ایسے موقع پر اپنی تخریبی سوچ کا مظاہرہ کرنااپنا وطیرہ بنا لیا ہے )جس یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے ،اس کی تعریف کرنی ہوگی۔یہ ہم سب کے لیے آزادی کے بعد لکھنؤ میں منعقدہ ایک اجلاس میں مردآہن سردار پٹیل کے اس قول کو عملی جامہ پہنانے کا ایک بہترین موقع ہے: ’ہندوستان ہم سب کا ملک ہے۔ ہم اس میں ایک ساتھ تیریںگے اور ایک ساتھ ڈوبیںگے یعنی ساتھ جئیںگے اور ساتھ مریںگے‘۔
اس وقت ایک جانب کچھ لوگ حسب عادت اس دردناک واقعہ کو اسلام اورمسلمانوں سے منسوب کرنے کی کوشش کرہے ہیں تو دوسری جانب ہمارے ملک کا ایک بڑا برد بارطبقہ سب کو بار بار یہ باور کرا رہا ہے کہ یہ وقت مل جل کر رہنے کا ہے نہ کہ طعنہ زنی اور کسی بھی کمیونٹی کو برا بھلا کہنے کا یا کسی کو جسمانی یانفسیاتی اذیت پہنچانے یا کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کا۔جب بھی ملک میں اتحاد اور یکجہتی کی بات ہوتی ہے تو اس سے عام طور پر ہندو-مسلم اتحاد ہی مراد ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو؟ مسلمانان ہند اس ملک کا سب سے بڑا اقلیتی فرقہ ہیں اور نہ صرف ملک کے قوانین کے تحت بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18دسمبر، 1992 کو تجویز تعدادی 47/135 کے ذریعہ جو قومی یا نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے حقوق سے متعلق اعلامیہ منظور کیا تھا، اس کی رو سے بھی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ثقافتی، مذہبی، معاشرتی، معاشی اور عوامی زندگی میں مؤثر طور پر حصہ لینے کا حق حاصل ہے ۔
جب جب بھی ملک کو ضرورت پڑی ہے تو ہم سب نے اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھائی ہے۔آج کشمیر میں جس طرح عوام نے اپنے ہندو بھائیوں کی درد ناک موت کی سامنے آکر مذمت کی ہے اور سیاحوں کو درپیش مشکلات کے دوران ان کی ہر طرح مدد کی ہے، وہ ایک انقلابی تبدیلی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں 1984میں وزارت قانون کے ایک افسر کی حیثیت سے سرکاری دورے پر کشمیر گیا تھا تو قارئین کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ میں نے اس وقت دکانوں میں پاکستانی حکمرانوں کی تصویریں لگی ہوئی دیکھی تھیں اور جب ہم نے کچھ بچوں سے پوچھا تو انہوں نے ہم سے کہا کہ وہ پاکستانی ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ ان کے والدین نے یہ سوچ کر کہ ہمیں یہ بات یقینا بری لگی ہوگی، انہیں فوراًسمجھایا اور کہا کہ ہم تو ہندوستانی ہیں۔ اس وقت اس نوعیت کی دہشت گردی نہیں تھی لیکن روزانہ لال چوک پر کچھ لوگ قابل اعتراض نعرے لگاتے تھے اور پولیس ان کو بس میں بھر کر لے جاتی تھی اور بعدمیںچھوڑ دیتی تھی۔ آج ہر کشمیری اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر محسوس کر رہا ہے۔ اپنی جان دے کر اپنے ہندو بھائیوں کی جان بچا رہا ہے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم سب ان کے اس جذبہ کی قدر کریں اور انہیں جہاں بھی وہ جائیں اور کسی بھی سلسلہ میں وہ کہیں پر بھی موجود ہوں،ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا امتیازی سلوک نہ کریں۔
جہاں تک ہندو-مسلم اتحاد کی بات ہے ہمیں اس وقت UNESCOکے سابق سفیر خیرسگالی(Goodwill ambassador) آنجہانی مدنجیت سنگھ کا ان کے اٹھانویں جنم دن پرساؤتھ ایشیا فاؤنڈیشن انڈیا کی جانب سے اخبارات میں خراج عقیدت کے طور پرشائع ہونے والا درج ذیل پیغام یاد آرہا ہے اور وہ ہم سب کو دعوت فکر بھی دے رہا ہے: ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ تاریخ محض عہد رفتہ سے متعلق حوادث کو رقم کرنے کا نام نہیں، یہ تو رجعت پسند و تفرقہ آمیز عوامل اور ان لوگوںکے مابین اس تگ و دو کا نام ہے جو اپنے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں کہ انہیں ایک ایسا معاشرہ نصیب ہو جس میں سب لوگ مل جل کر رہیں، سمجھداری سے کام لیں اور باہمی نفرت اور تشدد کو قابل نفرت سمجھیں‘۔
بھارت ایک ایسا وسیع اور عریض ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور الگ الگ زبانیں بولنے والے صدیوں سے مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ بانگ اذان اور صدائے ناقوس دونوں ہی سے اس کی رونق میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ فدائے حرم اور شیدائے صنم پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں۔ انسان دوستی، رواداری اور آپسی بھائی چارہ اس کی وراثت ہے۔ قوم کی تشکیل میں ملک کے ہر باشندے کا اپنا مقام ہوتا ہے ۔ جب ہم قوم کی بات کرتے ہیں تو اس میں ہم ملک کے ہر باشندے کی بات کرتے ہیں خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ اس اصطلاح میں تمام مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں۔ مگر چونکہ ہمارا آئین مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرتا ہے تو ہمیں لفظ ’قوم‘ کا استعمال کرتے وقت ہمیشہ یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم اس لفظ کا استعمال صرف کسی خاص فرقے کے لیے ہی نہ کریں بلکہ سب کے لیے کریں۔
ویسے تو تمام فرقوں میں ہی مکمل اتحاد کی ضرورت ہے مگر ہم یہاں صرف دوفرقوں کی بات اس لیے کررہے ہیں کہ ہندو یہاں کاسب بڑا اکثریتی فرقہ ہے تو مسلمان سب سے بڑا اقلیتی فرقہ ۔ آج کی اس مہذب دنیا میں ہرہندوستانی، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو،کی واحد سوچ یہ ہونی چاہیے کہ یہ ملک سب کا ہے، سب کو یہاں مل جل کر ایک ساتھ رہنا ہے اور اس ملک کے لیے ہی جینا اور مرنا ہے۔ حقیقی حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ یہ نعرہ صرف زبان تک ہی محدود نہ ہو بلکہ یہ دل سے زبان تک آئے۔ہندو اور مسلمانوں کے بیچ اٹوٹ رشتہ ہے چونکہ کبھی ایک آجر ہے تو دوسرااجیر، کبھی ایک معالج ہے تو دوسرا مریض، ایک افسر ہے تو دوسرا ماتحت، کبھی ایک استاد ہے تو دوسرا شاگرد ، کبھی کوئی گاڑی کا مالک ہے تو کوئی پنکچر لگا رہا ہے۔ اگر یہ دونوں ایک دن کے لیے بھی ایک دوسرے سے دوری اختیار کرلیں تو اس سے ملک کا پورا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔۔ اگر ان دونوں نے باہمی یگانگت اور اتحاد کی اہمیت کو بروقت سمجھ لیا ہوتا اور ان میں سے کچھ نے تعصبانہ روش اختیار نہ کی ہوتی اور تنگ نظری سے کام نہ لیا ہوتا تو ملک ہی تقسیم نہ ہوتا۔نہ اس کا جغرافیائی قتل (geographical slaughter) ہوتا اور نہ یہ دہشت گردی اور قتل و غارت ۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]