عبدالسلام عاصم
دو قومی نظریے کی سیاست میںبظاہر اختلاف اور بباطن تقریباً یکساں نظریہ رکھنے والی بر صغیر کی اقوام کے سامنے اگر یہ سوال رکھ دیا جائے کہ اُنہیں فوری طور پر کن سلگتے مسائل کا سامنا ہے! تو اُن کی موجودہ حالت کے با عمل ذمہ دار اور بے عمل متاثرین دونوں بیک یک زبان بین فرقہ و بین سرحدی سیاسی نفرت، دہشت گردی، ماب لنچنگ، رنگ اور نسل، ذات اور مذاہب کے نام پر تشدد وغیرہ کے نام گنوا دیں گے۔ اسی اندھیرے میں کچھ اربابِ جنوں جو روشنی کی بات کرتے نہیں تھکتے، اُن کا جواب یکسر مختلف ہوگا۔ وہ ماحولیاتی آلودگی، آب و ہوا میں تبدیلی، قدرتی وسائل کے بے ہنگم استعمال اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کا ذکر کریں گے ۔ اسی کے ساتھ وہ اس بات پر افسوس بھی ظاہر کریں گے کہ نظریاتی تعلیم نے ایک بڑے حلقے کو اُن مسائل سے رجوع کرنے کی تحریک دینے کے بجائے ایسے مسائل میں اُلجھا دیا ہے جن کا تعلق انسانی بہبود سے ہرگز نہیں، البتہ ایک ایسے محدود کاروبار سے ہے جس میں گاہک کا خسارہ ہی تاجروںکی اصل آمدنی ہے۔
اس تمہید کے ساتھ آئیے چلتے ہیں وہاں جہاں ردِّ تشکیل کا جذبہ تو سبھی رکھتے ہیں لیکن متبادل کسی کے پاس نہیں۔ فلم ’’سماج کو بدل ڈالو ‘‘ سے ’’کشمیر فائلز‘‘ تک ہم نے تہذیبی سفر میںسنگِ میل کم قائم کیے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے خندقیں زیادہ کھودی ہیں۔ اگر ہم ایک فکری انتہا کے سنگین نتائج کا ازالہ دوسری فکری انتہا سے کرنے کے بجائے دائیں اور بائیں دونوں پیروں پر یکساں وزن ڈال کر قدم بڑھاتے تو اب تک ترقی کی منزل دیگر ترقی یافتہ اقوام کی طرح ہمارے قدم بھی چوم رہی ہوتی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یمینی اور یساری انتہاپسندی صرف ہمارے حصے میں آئی ہے اور ترقی یافتہ دنیا اس سے پاک رہی۔ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں علم اور عقیدے دونوں کا خود غرضانہ استحصال نہیں کیا گیا۔ فرد پر ہجوم کو ترجیح دینے کے ذمہ دار صرف اوہام کے کاروباری نہیں، دانشوروں کی کھال پہننے والوں نے بھی آگہی کے کارواں خوب ہائی جیک کیے ہیں ۔
ناچیز نے جب سے پڑھنا لکھنا شروع کیا تب سے اس بات کا مسلسل شاہد چلا آرہا ہے کہ روایتی تحریر و تقریر کے ہر اگلے موڑ پر ایک جملہ سامنے آ جاتا ہے کہ ’’دنیا خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے‘‘۔ آگے چل کر شعور کے ایک موڑ پر یہ محسوس ہونے لگا کہ ریکارڈنگ کی سوئی ایک ہی جگہ اٹک کر رہ گئی ہے۔ اس کامقصد بھی سمجھ میں آ گیا کہ یہ ذہنوں کی کنڈیشننگ کا کاروبار ہے۔ یعنی تقریر و تحریر کے ذریعہ سننے، دیکھنے اور پڑھنے والوں کے دماغوں میں بس وہی باتیں ٹھونسی جاتی ہیں جو سننے والوں کیلئے کسی تصدیق کی محتاج نہ ہوں۔
ایسے میں آزادانہ طور پر دیکھنے اور سمجھنے والوں کو جب عملاً نظارے بالکل برعکس نظر آتے ہیں، یعنی دنیا خوب سے خوب تر ہوتی نظر آتی ہے تووہ اختلاف رائے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وہ موڑ ہے جس سے آگے کی گزرگاہ تبدیلی چاہنے والوں اور اُن سے اشتراک کرنے والوں کیلئے آزمائشوں سے بھری ہوتی ہے۔ واقعاتی طور پر اسے سمجھنے کیلئے پاکستان میں آنے والے انتہائی تباہ کُن سیلاب کے راست اور بالواسطہ نتائج پر غور کر کے کسی لائقِ تفہیم نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔اس سیلاب نے ایک طرف جہاں جان و مال کی انتہائی تباہی مچائی ہے، وہیں دوسری جانب اس کی لہروں نے سرحدی، علاقائی اور عالمی اختلافات کی دیواروں کو اس قدر بابرکت انداز سے منہدم کیا ہے کہ دور اور قریب کے دونوں برگشتہ احباب اور رشتے داروں(ہند-بنگلہ دیش) نے تمام گلے شکوے بھول کر مُردوں سے بری حالت میں بچ جانے والے زندوں کی زندگی کی بحالی کیلئے امداد و اعانت کی حسبِ استطاعت کوششیں کی ہیں اور مسلسل رابطے میں ہیں۔ سرحدی ہندوستان اور غیر سرحدی بنگلہ دیش نے پاکستانی حکمرانوں کی تمام شرارتوں کو اٹھا رکھا ہے اور ’انسان کا انسان سے ہو بھائی چارہ۔۔۔‘ کے پیغام کو پردہ سیمیں سے سیدھا زمین پر اتار دیا ہے۔ پاکستان کی بے پایاں مدد میں وہ ممالک بھی پیش پیش ہیں جو پاکستان کی خارجہ پالیسی سے سخت نالاں ہیں۔
پاکستان کو درپیش موجودہ آزمائش کوئی نئی مصیبت نہیں۔ دنیا کے بعض خطے زلزلے کی زمیں کہلاتے ہیں جن میں جاپان سے میکسیکو تک کئی ممالک شامل ہیں۔ ان ملکوں میں مسائل کی دھار کُند کرنے کی سائنسی کوششیں کتنی کارگر ہیں، اس کا اندازہ تقریباً روزانہ آنے والے زلزلوں کی خبروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ واقعتا جن مسائل نے انسان کو صدیوں سے پریشان کر رکھا تھا ، انسانوں نے ان کا حل بڑی حد تک تلاش کر لیا ہے۔ سو برس پہلے جو لوگ انسانی وسائل کے بہتر استعمال کے بارے میں خواب بنتے رہتے تھے اگر وہ کسی معجزے کے نتیجے میں آج کی دنیا میں چلے آئیں تو وہ موجودہ ترقی کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ بہرحال ایسے کسی معجزے کے بغیر انسانی فکر کائنات کی تسخیر کے مقصدِ ایزدی کی طرف کل بھی گامزن رہے گی۔آج ہماری زندگی کا معیار اگر پہلے سے بہتر ہے تو ان شاء اللہ کل اس سے بہتر زندگیاں اس دنیا کا حصہ بنیں گی۔ اس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا جو عمل دخل ہے وہ بلاشبہ اُس عطائی علم کی ہی فتح ہے جس کی وجہ سے ہم اشرف المخلوقات ہیں۔
جو لوگ سائنسی ترقی کو خطرناک ہتھیاروں کی ایجادات سے آگے دیکھنے سے معذور ہیں، اُن سے معذرت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ایجادات اخلاقی طور پر اچھی یا بُری نہیں ہوتیں۔ ہمارا استعمال انہیں اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔ سائنسی ترقی کے عہد کو بھی جب یمینی اور یساری بدنظری نے اپنی گرفت میں لیا تو خوش حال اور بدحال دنیا ایٹمی طور پر بھی تقسیم ہو کر رہ گئی تھی۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد اس غیرانسانی محاذ آرائی کا طوفان کچھ وقفے کیلئے تھم جانے سے کمپیوٹر سائنس نے گزرتی دہائیوں کے ساتھ دنیا کو گلوبل ویلیج میں بدل دیا جس میں آج ہم پوری دنیا اور کائنات کے کچھ حصے کو بھی بڑی حد تک ایک الیکٹرانک اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کمپیوٹر کی نئی دریافتوں کی وجہ سے دنیا کے تعلق سے ہمارا سابقہ تصور تیزی سے بدلتا جا رہا ہے۔ بگ بینگ تھیوری نے کائنات کی تشکیل کے جو پردے اٹھائے ہیں، اُن تک اس سے پہلے ہماری کوئی رسائی نہیں تھی۔ا س حوالے سے بس مذاہب کا بیانیہ ہی سب کچھ تھا۔
توگویا دنیا روزافزوں انسانی زندگی کے حق میں بہتر ہورہی ہے جس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔ انسانی بدنظمی سے آنے والی کسی مصیبت میں بچ جانے والوں کو نیکُوکار، دیندار اور خوش اطوار قرار دینے اور زد میں آ کر جان و مال گنوانے والوں کو گنہگار قرار دے کر غور و فکر سے نجات پا لینے والوں سے اُلجھنے میں توانائی ضائع کرنے کے بجائے ہمیں نئی نسل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کے سیلاب برد علاقوں کی تفصیلات انتہائی صدمہ انگیز ہیںجہاں کے سیاسی، سماجی اور مذہبی ذمہ داروں نے اپنی اپنی طاقتیں جس رُخ پر جھونک رکھی ہیں، اُدھر نہ جھونک کر اگر وہ طاقتیں زمین کے فطری استعمال کے نظم میں لگائی گئی ہوتیں تو ندیوں کی سیلابی گزرگاہوں کو وقتی دنیاوی نفع کمانے کے لیے تعمیرات کے نام پر تجاوزات سے ہر گز نہ پاٹا گیا ہوتا۔ نیوکلیائی طاقت کے نشے میں لڑکھڑاتی پاکستانی حکومت سیلاب میں گھرے لوگوں کو ایئر لفٹنگ کے ذریعہ بچانے میں جس بری طرح ناکام رہی، اس کے عکسی نظارے کم سے کم سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں جو انسانی وسائل کی بہبود پر یقین رکھتے ہیں اور ان وسائل کو گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے میں لگا دینے کو علم کا بے جا استعمال سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم کے برقی اور اشاعتی اخبارات پاکستان میں آئے انتہائی ہلاکت خیز اور تباہ کن سیلاب پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کا کاروبار کرنے والوں کے دلچسپ اور عبرتناک ردعمل سے اٹے پڑے ہیں۔
اس پس منظر میں نئی نسل کو منظم طریقے سے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ادیان کی کتابوں میںزمین کی گنجائش سے زیادہ اس پر آبادی کا بوجھ ڈالنے سے گریز کرنے کی اگر واضح لفظوں میں کہیں ہدایت موجود نہیں، تو کہیں یہ بھی نہیں کہا گیا ہے کہ قدرت کی زمین انسانوں کی دسترس میں اس لیے دی ہے کہ وہ فطرت سے کھلواڑ کریں اور اُس کے بُرے نتائج کو آفات سماوی کا نام دے کر اپنا پلّہ جھاڑ لیں۔ قدرت نے اپنے بعض تخلیقی اختیارات میں انسان کو ساجھے دار ضرور بنایا ہے لیکن اسی کے ساتھ اسے عقل بھی دی ہے کہ وہ عطائی اختیارات کو کیسے معتدل طور پر بروئے کار لائے۔ سائنس خدا کی قدرت سے متصادم ہرگز نہیں بلکہ یہ تو کائنات کی تسخیر کے خدائی منصوبے کو عمل میں لانے کا سب سے اہم وسیلہ ہے۔ بدقسمتی سے ایک حلقے نے نہ صرف علم کو خدا کا حریف بنادیا ہے بلکہ ہر آفت اور مصیبت کا بالواسطہ خدا پر الزام رکھ کر بری الذمہ ہوجانے کی ایسی کامیاب چالیں چلی جاتی ہیں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی جھانسے میں آ جاتے ہیں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]