ہندوستان میں جب بھی کوئی الیکشن ہوتا ہے، چاہے وہ ضمنی الیکشن ہی کیوں نہ ہو برسراقتدار پارٹیوں کی طرف سے ایسا ماحول بنایا جاتا ہے کہ یہ الیکشن آئندہ انتخابات کا آئینہ ہے۔ اگر الیکشن کے نتائج برسراقتدار پارٹی کی امیدوں کے مطابق ہوں تو پھر اس کے سہارے پورے ملک میں اپنے حق میں فضا ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر نتائج امید کے مطابق نہ ہوں تو پھر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس الیکشن سے آئندہ کے انتخابات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ کام ہر حکومت کرتی ہے۔ چاہے وہ کانگریس رہی ہو یا اب مرکز میں برسراقتدار بی جے پی۔
حال ہی میں شمال مشرق کی تین ریاستوں ناگالینڈ، تریپورہ اور میگھالیہ میں ہوئے انتخابات سے قبل بھی یہی ماحول بنایا گیا۔ لیکن یہاں معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ مختلف اس طور پر کہ نتائج حکومت کی امیدوں کے مطابق نہ آنے کے باوجود یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شمال مشرق کی ریاستوں نے مودی حکومت کی پالیسیوں سے متاثر ہوکر ایک مرتبہ پھر بی جے پی اور اس کے اتحاد پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ناگالینڈ اور تریپورہ میں بی جے پی اتحاد کی ایک مرتبہ پھر واپسی ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی اس الیکشن میں بس کسی بھی طرح اقتدار میں واپس آجانے کی امید کر رہی تھی یا اس کو اس سے کچھ زیادہ کی امیدیں تھی۔ تشہیر کے تمام وسائل کے استعمال، وزیراعظم اور وزیر داخلہ سمیت تمام وزراء کے دوروں کے باوجود 2018 کے عام اسمبلی الیکشن کے مقابلے موجودہ الیکشن 2023 میں وہ کتنے قدم آگے بڑھ سکی؟ جب ہم اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس الیکشن کے نتائج حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران چاہے جتنی اپنی پیٹھ تھپتھپالیں، وزیراعظم کو جیت کی چاہے جتنی بھی مبارکبادے دیں اور چاہے جتنا جشن منالیں، اس جشن و مبارکباد کے ذریعہ وہ باشندگان ملک کی ایک بڑی تعداد کو جنہیں شمال مشرق کی ریاستوں کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے، یہ پیغام ضرور دے سکتے ہیں کہ انہوں نے مذکورہ ریاستوں میں جہاں ہندو- مسلم کا بھی جھگڑا نہیں ہے فتح حاصل کرلی ہے مگر پارٹی کے لیے یہ طفلی تسلی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ سچائی یہ ہے کہ ان ریاستوں میں 2018 کے الیکشن میں بی جے پی جہاں کھڑی تھی، اس سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکی ہے بلکہ تریپورہ میں سابقہ الیکشن کے مقابلے نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نتائج کے مطابق تریپورہ میں بی جے پی کو 32 سیٹیں ملی ہیں جبکہ سابقہ الیکشن-2018 میں اسے 35 سیٹیں ملی تھیں۔ دوسری جانب کانگریس کو یہاں تین سیٹیں ملی ہیں جبکہ 2018 کے الیکشن میں کانگریس کو اس ریاست میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔ دیگر پارٹیوں میں مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کو 11، آئی پی ایف ٹی کو ایک، ٹپرا موتھا کو 13 سیٹیں ملیں۔ ناگالینڈ میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر این ڈی پی پی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اسے 25 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے جبکہ 2018 کے الیکشن میں وہ 18سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ بی جے پی کو 12سیٹیں ملی ہیں، 2018 میں بھی بی جے پی کو یہاں 12 ہی سیٹیں ملی تھیں۔ کانگریس یہاں صفر ہے۔ دیگر پارٹیوں میں کمیونسٹ پارٹی کو 7، این پی پی کو 5، این پی ایف کو 2، لوک جن شکتی پارٹی (آر) کو 2، جنتا دل یو کو 1، آر پی آئی کو 2 اور آزاد امیدواروں کو چار سیٹیں ملیں۔
میگھالیہ میں این پی پی نے سب سے زیادہ 26 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 2018 میں اسے 19 سیٹیں ملی تھیں۔ بی جے پی کو 2 سیٹیں ملی ہیں، 2018 کے الیکشن میں بھی بی جے پی کو یہاں 2 ہی سیٹیں ملی تھیں۔ اس کے علاوہ ترنمول کانگریس کو 5، پی ڈی پی کو 2، کانگریس کو 5، پی ڈی ایف کو 2، یو ڈی پی کو 11، وی پی پی کو 4 اور آزاد امیدواروں کو 2 سیٹیں ملیں۔ تینوں ریاستوں میں پارٹیوں کی سیٹوں کی تعداد اور سابقہ الیکشن میں حاصل سیٹوں کے موازنہ سے آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس الیکشن کے نتائج بی جے پی اور کانگریس دونوں قومی پارٹیوں کے لیے مایوس کن ہیں۔ بی جے پی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود سابقہ الیکشن کے مقابلے ایک سیٹ بھی زیادہ نہیں حاصل کرسکی، بلکہ ایک جگہ اس کی تین سیٹیں کم ہوگئیں۔ جہاں تک کانگریس کی بات ہے تو اس نے تو الیکشن سنجیدگی سے لڑا ہی نہیں۔ تریپورہ جہاں بی جے پی بمشکل اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہوئی ہے، اس کے لیے ایک نئے چیلنج کے طور پر ٹپرا موتھا نامی ایک مقامی پارٹی ابھری ہے جس نے پہلے ہی الیکشن میں 13 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے ایک پیغام دے دیا ہے کہ ان ریاستوں کے لیے مقامی ایشوز سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
[email protected]
شمال مشرقی ریاستوں کے نتائج: بی جے پی و کانگریس دونوں کیلئے مایوس کن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS