شمال مشرق کا بحران اور انتخابی سیاست

0

شمالی مشرقی ہندوستان کی 7ریاستیں جن کو ہم 7بہنیں کہہ کر پکارتے ہیں۔ بنیادی طور پر قبائلی اور علاقائی نسلی گروپوں پر مشتمل آبادی ہے۔ شمال مشرق کی 7ریاستوں میں منی پور، میزورم، آسام ، ارونا چل پردیش ، میگھالیہ، ناگالینڈ اور تری پورہ شامل ہیں۔ شمال مشرقی کی ان ریاستوں میں ایک اور ریاست سکم کو بھی شامل کرکے ایک بھائی بھی شامل ہوگیا ہے۔ سکم کو اب لوگ 7بہنوں کا بھائی بھی کہنے لگے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ساتوں ریاست ایک راہزاری سے جڑی ہوئی ہیں جس کو سلی گوڑی راہزاری کہا جاتا ہے۔
کچھ قبائل ہندو ہیں، مگر زیادہ تر قبائل اور نسلی گروپ عیسائی عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں، مگر بی جے پی نے ان علاقوں میں گزشتہ 9سال میں اپنی گرفت بنائی ہے۔ یہاں کے منفرد سیاسی ماحول نسلی وابستگیوں اور موسم کے باوجود بی جے پی نے یہاں اپنی ووٹ شیئر میں کافی اضافہ کیا ہے اور ہندوستان کے دیگر علاقوں سے الگ تھلگ ہونے کے باوجود بی جے پی نے ایک نیا سیاسی محاذ بنا یا ہے جس کا نام نیشنل ڈیموکریٹک الائنس ہے۔ پچھلے دنوں منی پور میں بی جے پی نے حکومت بنا کر اپنے تمام سیاسی حریفوں کو انگشت بدنداں کردیا ہے۔ بی جے پی نے ملک کے دوسرے حصوں کی طرح اس خطے میں بھی کانگریس کو ختم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی اور کانگریس کے سابق لیڈر ہمانتا بسوا سرما جو بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوگئے تھے اور آج کل آسام کے وزیراعلیٰ ہیںاور نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس (این ای ڈی اے)کے کنوینر بھی ہیں۔ بسوا سرما اپنی شعلہ بیانی کے لیے مشہور ہیں اور کانگریس کا ساتھ چھوڑنے کے بعد انہوںنے راہل گاندھی کو اپنے بیانات کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ وزیراعلیٰ آسام کے طور پر انہوںنے اقلیتی کے بارے میں کئی قابل اعتراضات بیانات دیے ہیں جس کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ ان کا تازہ ترین بیان اور ٹماٹر اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے پر تھا جس میںا نہوںنے کہا تھا کہ ٹماٹر کی قیمت میں اضافہ کے پس پشت مسلمان ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ بیان آسام کے سیاسی اور فرقہ وارانہ سطح پر تقسیم اور اختلاف رائے کو بڑھانے والا ہے اور اس بیان میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کے بیان میں پروپیگنڈہ زیادہ اور حقیقت کم ہے۔ بہر کیف شمالی مشرقی کی ریاستوں میں بی جے پی کی عروج کے پس پشت جو شخصیت کھڑی ہے وہ ہمانتا بسوا سرما کی ہے۔ وہ ایک تجربہ کار سیاست داںہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ منی پور میں ہوئے حالیہ فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں انہوںنے کئی ایسے بیان دیے جس سے یہ لگتا تھا کہ منی پور کے وزیراعلیٰ بیرن سنگھ نہ ہو کر وہ خود ہوں۔
مئی 2016میں بنائے گئے نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس(این ای ڈی اے)میں آسام گن پریشد بوڈو کے پیپلز فرنٹ آسام حکومت میں شامل ہیں، جبکہ ناگا لینڈ میں مذکورہ بالا فرنٹ کے ممبران نے ناگاپیپلز فرنٹ ، سکم ڈیموکریٹک فرنٹ، پیپلز پارٹی آف ارونا چل پردیش شامل ہیں۔ آسام میں حکمراں بی جے پی کے ساتھ آسام گن پریشد بوڈو لینڈ پیپلز فرنٹ شامل ہیں۔ ہمانتا بسوا شرما آسام میں اسی محاذ کی حکومت کی سربراہی کررہے ہیں۔
شمال مشرقی ریاستوں کے سکم میں پون کمار چملنگ ، ارونا چل پردیش میں کالی کھوپل اورناگا لینڈ میں ٹی آر زیلیانگ اس محاذ کے اثاثی ممبران ہیں۔ ان تمام ریاستوں میں اگرچہ بی جے پی کا دبدبہ ہے اور 7میں سے تین ریاستوں میں بی جے پی کی قیادت میں حکومت قائم ہے۔ بقیہ چار ریاستو ںمیں بھی بی جے پی حکمراں محاذ میں شریک ہے۔ فی الحال منی پور میں جو موجودہ سیاست ہے اس کا اثر پورے ملک میں دکھائی دے رہا ہے اور گزشتہ تین ماہ سے جاری بدترین قسم کی سیاسی اور نسلی کشمکش کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی مالی نقصان ہوا ہے۔ ملک کی موجودہ پارلیمانی اجلاس اسی ریاست میں نسلی کشی اور سیاسی چپقلش کا نذر ہونا نظرآرہا ہے۔ پچھلے دنوں تری پورہ میں اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے نارتھ ایسٹ کی تین ریاستو ںمیں اپنا غلبہ قائم کیا تھا۔ اس میں تری پورہ میں اس کے خود کے وزیراعلیٰ بریندر سنگھ اپوزیشن کی نقطہ چینی کا خاص نشانہ ہیں۔ کئی حلقو ںمیں یہ بھی الزامات لگ رہے ہیں کہ بریندر سنگھ کی حکومت ان فسادات میں ملوث ہے اور سیاسی مشینری مکمل طور پر ایک خاص فرقے اور مکتب فکر کی مرکز بن گئی ہے۔
اگر ہم لوک سبھا کا انتخابات کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ لوک سبھا 2014اور 2019کے انتخابات میں بی جے پی نے غیر معمولی بڑھت بنائی۔ بی جے پی نے 17سیٹوں پر اپنے امیدوار کامیاب کرکے 40.2فیصد ووٹ صرف نارتھ ایسٹ کی 7ریاستوں میں حاصل کیا ہے ، جبکہ 2014میں بی جے پی کے پاس نارتھ ایسٹ صرف دو لوک سبھا کی سیٹیں تھیں اس کا ووٹ فیصد محض 18فیصد تھا۔ بی جے پی نے کانگریس اور بایاں محاذ کی آپسی لڑائی پر اپنی سیٹوں میں اضافہ کیا ہے اور ووٹ شیئر بڑھایا ہے۔ 2014میں بایاں محاذ کے پاس لوک سبھا کی دو سیٹیں تھیں جبکہ 2019میں اس کو ایک بھی سیٹ پر اپنا امید وار کامیاب کرنے میں کامیابی نہیں ملی۔ اسی طرح 2014میں کانگریس کے پاس چار ممبران پارلیمنٹ تھے اور اس کا ووٹ فیصد 9.6تھا جو 2019میں گھٹ کر 5.5رہ گیا ۔ جبکہ 2019میں کانگریس پارٹی دو سیٹوں پر اپنے امیدوار جیتوانے میں کامیاب رہی۔
مغربی بنگال کی اہم ریاست میں بی جے پی نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ اگرچہ اس مطالعہ کا مقصد صرف نارتھ ایسٹ کا جائزہ لینا ہے، مگر قریبی ریاست ہونے کی وجہ سے مغربی بنگال کی کافی اہمیت ہے۔ ترنمول کانگریس نے جو کہ مغربی بنگال کی حکمراں جماعت ہے۔ 2014میں 34سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 2019کے لوک الیکشن میں ترنمول کانگریس کو محض 22سیٹوں پر ہی کامیابی ملی۔ ظاہر ہے کہ 2014کے مقابلے میں 2019میں ترنمول کانگریس کو 12اہم سیٹوں کا نقصان ہوا۔ 2019میں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ترنمول کانگریس کے ووٹ شیئر میں نمایاں اضافہ ہونے کے باوجود اسی یہ نقصان اٹھانا پڑا۔ ترنمول کانگریس کو 2014میں 48.7فیصد جبکہ 2019میں 43.3فیصد ووٹ شیئر بڑھانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
2018میں منی پور میں بی جے پی، سی پی آئی(ایم)کی قیادت والی بیلب دیو کی حکومت کو بے دخل کرانے میں کامیاب تھی۔ موجودہ وزیراعلیٰ بیرن سنگھ 2017سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ مارچ 2022کی الیکشن میں وہ دوبارہ اس عہدے پر منتخب ہوئے ہیں۔ انہوںنے 2016میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ 2016میں انہوںنے اپنی خود کی پارٹی ڈیموکریٹک ریوڈیویشری پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی اور وزیراعلیٰ کے طور پر انہوںنے ایک اتحاد کے ساتھ حکومت بنائی تھی۔ ان کی قیادت میں بی جے پی نے اپنی طاقت بڑھائی ہے۔ 2017کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے 21ممبران اسمبلی تھے۔ پارٹی کے ممبران کی تعداد 2022کے لیکشن میں بڑھ کر 32ہوگئی ہے۔ منی پور کے حکمراں محاذ کی حلیف پارٹی Indiagenous Peoples Front of Tripuraہے ۔ جس نے منی پور کے اسمبلی کی 2018کے الیکشن کی 60سیٹوں میں سے 9سٹوں میں سے 8پر قبضہ کیا تھا، مگر اس مرتبہ 60میں سے 37سیٹیں بی جے پی کے پاس ہیں اور باقی 7سیٹیں نیشنل پیوپلز پارٹی(این پی ای این )کے پاس ہیں یہ پی اے سنگما کی بنائی ہوئی پارٹی ہے۔ 5ناگا پیوپلز فرنٹ(این پی ایف)دو کوکی پیوپلز ایلالائنس(کے پی اے)اور تین سیٹوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ منی پور میں اپوزیشن کے پاس صرف 6 ممبران اسمبلی میں سے صرف ایک ایم ایل اے ہیں۔ (جاری)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS