فضول مباحثہ سنجیدہ سماج کیلئے مفید نہیں

0

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

یقینا یہ ایک ناقابل انکار صداقت ہے کہ انہی تہذیبوں اور ثقافتوں کی تاریخ بام عروج و ارتفاع کو پہنچتی ہے جن کے اندر انسانیت کی خدمت اور وسعت فکر ونظر کا غلبہ پایا جاتا ہو۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ جن تہذیبوں اور ثقافتوں میں فطرت سے مخالفت یا اجتماعی مفادات سے عدم وابستگی کا شائبہ تک ہوتا ہے، وہ اپنی موت خود مر جاتی ہیں۔ اس فلسفہ کو اس طرح بھی ذہن نشیں کیا جاسکتا ہے کہ آ ج کائنات میں جو تہذیبیں اور افکار و ثقافتیں موجود ہیں ان میں ترقی پذیر، فتح و ظفراور دوام و استمرار سے وہی ہمکنار ہوئی ہیں، جن کے اندر قومی یکجہتی اور امن و سلامتی کے تابندہ نقوش و اشارات پائے جاتے ہیں۔ اس بات کی توثیق ہمیں تاریخ کے ان گوشوں سے بھی ملتی ہے جن میں ایسی بہت سی تہذیبوں کا ذکر تو موجود ہے مگر ان کا اب نام و نشان تک باقی نہیں ہے۔ کیوںکہ کائنات میں لگاتار انہی نظریات کی ترویج و اشاعت ہوپاتی ہے، وہی عملی طور پر مستحکم ہوتی ہیں جو عوامی فلاح وبہبود اور انسانیت نوازی کے اصولوں سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود مفادات کے حصول اور خود ساختہ مصلحتوں کو مدنظر رکھ کر لوگ فطرت سے مقابلہ کرنے اور حقائق کو پس پشت ڈالنے کی ناکام سعی کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی تناظر میں اب ذرا اپنے اردگرد نظر ڈالیے تو پتہ چلتا ہے کہ تقریباً ہر معاشرے اور تہذیب میں ایسے افراد موجود ہیں جو انسانی اقدار اور اس کے ساتھ کھلواڑ کرتے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان ناقص اور ادھوری روایتوں کے نام نہاد علمبرداروں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک بات ہے مسلم کمیونٹی اور اس کی موجودہ صورت حال کی تو صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں اپنی تہذیب اور روشن روایات کو فروغ دینے اور برقرار رکھنے کے لیے ان بنیادی خطوط کی اتباع کرنی ہوگی جن کی بدولت ہم ماضی میں سرخرو تھے۔ افسوس یہی ہے کہ آ ج ہم نے صرف ماضی سے رشتہ منقطع نہیں کیا ہے بلکہ ان روایات کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے جن کو ہمارے اکابر اور رہنماؤں نے اپنی ہی نہیں، بلکہ ملکوں اور قوموں کی نجات کے لیے ضروری گردانا تھا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ آج ملت کے شیرازہ کو منتشر کرکے لوگ اپنی اپنی دکانیں چلارہے ہیں اور تو اور لوگ اسی کج راہ کو ملت کی نجات کا ذریعہ بتاکر کسی حد تک اسلامی تعلیمات کی روح اور تہذیب و ثقافت سے عوام الناس کو دور رکھ رہے ہیں۔ اس طرح کی کشمکش میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آ خر ہم کب اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی اور بہتر کارکردگی کے لیے اجتماعی طور پر عملی کوشش کریں گے؟ ہم اس وقت عالمی سطح پر جن حالات سے دوچار ہیں وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہیں۔ ان حالات میں یہ تجزیہ کیا جانا مناسب ہے کہ ہماری قوم کے اندر سنجیدگی اور متانت بہت کم بلکہ جذباتیت کے عنصر زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مذہبی طبقہ سے لے کر سیاسی جماعتوں میں بھی ایسے قائدین موجود ہیں جو جذبات کو مشتعل کرتے ہیں اور پھر انہیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ قوم کا یہ طبقہ اس طرح کی غیراصولی اور غیر فطری باتوں پر رقص کرنے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ ملت کی عظمت رفتہ اور مستقبل کی تعمیر و ترقی کے لیے اجتماعی طور پر جذباتیت سے خود بھی باز رہنا ہوگا اور اپنے اپنے حلقہ ارادت سے وابستہ افراد کی ترتیب بھی پاکیزہ ڈگر پر کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اشتعال انگیزی سے بھی پوری طرح محفوظ و مامون رکھنا ہوگا۔ جذباتیت ایک ایسی سنگین راہ ہے جو کسی بھی قوم ، معاشرہ اور سماج کی تہذیب و ثقافت کو ہی خاکستر نہیں کرتی ہے بلکہ اس سے حساس اور زندہ معاشروں تک کا روشن مستقبل غارت ہوجاتا ہے۔ یہ سیاسی فہم و بصیرت کو بھی بری طرح مجروح کر ڈالتی ہے۔ اس پر خطر وادی میں کودنے والے ہر طرح کے افراد موجود ہیں۔ اب لازمی طور پر ہمیں سماج کی کشیدگی کو رفع کرنے کے لیے غیر سنجیدہ باتوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔

ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے اندر سے ان خرابیوں اور غیرمفید باتوں کو دور کریں جو ہماری تہذیب پر حرف گیری کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اکثر ہماری غیر سنجیدگی کی وجہ سے یا غیر ضروری چیزوں پربحث و مباحثہ میں پڑنے کی وجہ سے اغیار کو شرانگیزی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اسے روکنے کے لیے ہمیں خود ان باتوں سے اجتناب کرنا ہوگا جو بلا شبہ فضول ہیں، مگر ہمارے کچھ نام نہاد مذہبی حلقوں نے انہیں ضروری سمجھ رکھا ہے۔

آ ج اگر ہم مسلم کمیونٹی کی بات کریں تو یہ حقیقت طشت ازبام ہوتی ہے کہ یہاں ہر روز بڑی بڑی تنظیموں اور جماعتوں کے سربراہان امت کو تمام طرح کی پستی و تنزلی اور ادبار سے نکالنے کے لیے جدید منصوبے اور پلاننگ ترتیب تو دیتے نظر آتے ہیں اور اس کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح کی میڈیا میں خوب سرخیاں بھی بٹورتے ہیں مگر زمینی سطح پر تمام طرح کے منصوبے معدوم نظر آ تے ہیں۔ اخباری سرخیاں بٹورنے سے ہی کام نہیں چلے گا بلکہ ایسے منصوبے بھی مرتب کرنے ہوں گے جن کا مثبت اثر زمینی سطح پر بھی نظر آ نا چاہیے۔اس کے لیے از سر نو ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اور ان منصوبوں کو زمینی سطح پر نافذ بھی کرنا ہوگا تاکہ ہماری پر وقار تہذیب و تمدن کی حفاظت ہوسکے اور باطل کی تیز رفتار یلغار کو بھی روکا جاسکے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن تحریکوں اور جماعتوں نے ابتداء سے ہی خاموشی سے کام کیا، آج ان کی گھن گرج سے پورا ملک متاثر ہوچکا ہے۔ وجہ صاف ہے کہ ہمارے اندر نظریاتی اور فکری بالیدگی کی کوئی کمی نہ ہونے کے باوجود مستقبل کی منصوبہ بندی اور اپنی نسلوں کی حفاظت کے لیے کوئی منظم لائحہ عمل نہیں ہے۔ تہذیبوں کی بقاء اور نظریات کی ترویج کے لیے بنیادی طور پر ہمیں اخبارات میں اعلانات کرنے کے بجائے خاموشی سے کام کرنا ہوگا تبھی جاکر ہم اپنے معاشرے کو ہر اعتبار سے پر افتخار بنانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
موجودہ منظر نامہ اس بات کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے کہ اب بھی وقت ہے اور ہماری ضرورت بھی ہے کہ ایک اچھے معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں ہم اپنا بنیادی کردار ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہوں۔ نیز چیزوں اور احوال کا جائزہ لینا ہوگا۔ اسی طرح موجودہ وقت کے سماجی و عصری تقاضوں کو بھی سمجھنا ہوگا۔ عام طور پر کچھ لوگ سماجی اور عصری تقاضوں کو سمجھے بغیر یا پھر دینی مسائل اور سماجی مسائل میں امتیاز کیے بغیر ہی باہم دست و گریباں ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بسا اوقات سماجی نقطہ نظر سے کیے جانے والے امور کو کچھ لوگ دین سے جوڑ دیتے ہیں اور پھر لعن طعن کرنے لگتے ہیں۔ یہ بات صرف یہیں تک نہیں رکتی ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں مسلکی اور جماعتی ہمنواؤں کا ٹولہ نکل کر سامنے آ جاتاہے اور پھر اس کے سماج میں جو نتائج برآمد ہوتے ہیں، یقینا وہ مایوس کن ہی نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے یہ افراد ایک نفع رساں سماج بنانے کے بجائے اس کو ضرر رساں بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس نوعیت کی سطحی سمجھ رکھنے والوں نے سماج ومعاشرے کو جو نقصان پہنچایا ہے یا پہنچا رہے ہیں وہ شاید ہی کسی کی نظروں سے اوجھل ہو۔
آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے ذرائع ابلاغ سے لے کر دیگر تمام مؤثر طریقوں کے ذریعے اسلامی تہذیب و ثقافت اور اس کے ہر دور میں مثبت کردار کو داغدار کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے اندر سے ان خرابیوں اور غیرمفید باتوں کو دور کریں جو ہماری تہذیب پر حرف گیری کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اکثر ہماری غیر سنجیدگی کی وجہ سے یا غیر ضروری چیزوں پربحث و مباحثہ میں پڑنے کی وجہ سے اغیار کو شرانگیزی کرنے کا موقع مل جاتاہے۔ اسے روکنے کے لیے ہمیں خود ان باتوں سے اجتناب کرنا ہوگا جو بلا شبہ فضول ہیں، مگر ہمارے کچھ نام نہاد مذہبی حلقوں نے انہیں ضروری سمجھ رکھا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS