کچھ نہ ’دوا‘ نے کام کیا: صبیح احمد

0

صبیح احمد

راہل گاندھی کی ’محبت کی دکان‘ پر لگنے والی ’خریداروں‘ کی بھیڑ میں دھیرے دھیرے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف جہاں صارفین کی بھیڑ بڑھتی جا رہی ہے، وہیں دوسری طرف اسی حساب سے راہل اپنی ’دکان‘ کی توسیع بھی کرتے جا رہے ہیں۔ اب تو انہوں نے بیرون ملک بھی ’محبت کی دکان‘ لگانی شروع کر دی ہے۔ امریکہ میں ایک پروگرام کے دوران جب کچھ شر پسند عناصر خالصتان کے حق میں نعرے لگانے لگے تو کسی قسم کی گھبراہٹ کے بغیر راہل کافی پر اطمینان انداز اور لہجے میں ’محبت کی دکان‘ کے نعرے لگاتے نظر آئے۔ بہرحال لندن کے بعد اب امریکہ میں بھی وہ ’خریداروں‘ کو اپنے ’پروڈکٹس‘ کی جانب متوجہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اس دوران وہ اپنے حریف ’دکاندار‘ پر بھی خوب جم کر نشانہ سادھ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ’نفرت کے بازار‘ کو بند کرانے کے لیے انہوں نے کوئی بھی قیمت چکانے کی ٹھان لی ہے۔ راہل کا وار چوکے بغیر صحیح نشانے پر لگ رہا ہے۔ مخالف خیمے کی تلملاہٹ سے یہ ثابت ہو رہا ہے۔
راہل گاندھی آج کل امریکہ کے دورے پر ہیں اور اس دوران وہ بی جے پی، آر ایس ایس اور وزیراعظم پر جم کر حملے بول رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ دورہ وہ ایسے وقت پر کر رہے ہیں جب وزیراعظم نریندر مودی کچھ دنوں بعد خود امریکہ کے سرکاری دورے پر جانے والے ہیں اور توقع ہے کہ وہ بھی اپنے مخصو ص انداز میں امریکی حکومت و حکام اور بالخصوص وہاں مقیم ہند نژاد امریکیوں کو خاص پیغام دینے کی کوشش کریں گے۔ بہرحال راہل گاندھی اس سے پہلے ہی وہاں کے دانشوروں اور تارکین وطن ہندوستانیوں کو ’کچھ‘ سمجھانے کی کوششوں میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔ وہ تیز و تند نشتر چلاتے ہوئے وزیراعظم مودی پر ’بھگوان سے زیادہ علم رکھنے والے‘ کہہ کر طنز کرتے ہیں اور ملک کے آئینی اداروں میں غیر ضروری مداخلت کرنے کا الزام بھی لگا رہے ہیں۔ بی جے پی ان کے بیانات کا جواب دینے پر مجبور ہو رہی ہے اور ملک کی شبیہ کو خراب کرنے کا الزام لگا کر مسلسل ان پر حملے کر رہی ہے۔ بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈر اور یہاں تک کہ مرکزی وزرا بھی راہل کے بیانات کا جواب دینے کے لیے مامور کر دیے گئے ہیں۔ اس طرح کے جارحانہ ردعمل سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی راہل کے بیانات کو کافی سنجیدگی سے لے رہی ہے اور وہ ان سوالوں کے مکمل جواب دینے کی کوشش کر رہی ہے جنہیں راہل اپنے پروگراموں میں اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بڑا سوال یہ ہے کہ بی جے پی جو کل تک راہل گاندھی کو ’پپو‘ کہتی تھی، آج ان کے بیانات کے حوالے سے اتنی سنجیدہ کیوں ہو گئی ہے؟ آخر راہل کے بیانات پر بی جے پی کی جارحیت کی کیا وجہ ہے؟
’محبت کی دکان‘ کا نعرہ پہلی بار ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران سنا گیا تھا۔ ہماچل پردیش اور پھر کرناٹک میں کانگریس کی شاندار جیت کو اسی کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کی آوازوں کے درمیان راہل گاندھی ایک بار پھر محبت کی دکان لگانے نکل پڑے ہیں۔ وہ ہندوستان کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کے مرکزی نظریہ ساز ہیں۔ اور ان کے نظریات جسے ہم گاندھی گیری 2.0 کہہ سکتے ہیں، ’محبت‘ کے ارد گرد مرکوز ہیں۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس کی زبردست جیت کے بعد راہل کا پہلا ردعمل تھا کہ ریاست میں ’نفرت کا بازار‘ اب سمٹ گیا ہے اور اس کی جگہ ’محبت کی دکانیں‘ کھل گئی ہیں۔ یقینا۔۔۔ لیکن راہل گاندھی کا محبت کا نظریہ کیا ہے، اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کیا ہندوستان کے عوام یہ ’محبت کا شربت‘ پینے کو تیار ہیں؟ انتخابی نتائج کا انحصار متعدد عوامل پر ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود سبھی کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کرناٹک انتخابات میں راہل اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان نظریاتی ٹکراؤ دیکھنے میں آیا اور وہاں فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے کی مؤخر الذکر کی کوششیں کامیاب نہیں ہوپائیں۔ اپنی آخری کوشش میں وزیراعظم مودی نے انتخابی ریلیوں کے دوران ’بجرنگ دل‘ کو ’بھگوان ہنومان‘ سے ملایا اور کہا کہ ’براہ کرم اپنا ووٹ ڈالیں اور جب آپ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں تو جے بجرنگ بلی کا نعرہ لگانا نہ بھولیں۔‘ یہ کانگریس کے منشور کے وعدے کے جواب میں تھا جس میں بجرنگ دل اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا جیسی تنظیموں پر ’اکثریتی یا اقلیتی برادریوں کے درمیان دشمنی یا نفرت کو فروغ دینے‘ کے لیے پابندی عائد کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ لیکن کچھ نہ ’دوا‘ نے کام کیا۔
کرناٹک میں انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم سازشی تھیوری فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کو بھی سامنے لائے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’کانگریس دہشت گردی پر بنائی گئی فلم کی مخالفت کر رہی ہے اور دہشت گردی کے رجحانات کے ساتھ کھڑی ہے۔ کانگریس نے ووٹ بینک کے لیے دہشت گردی کو ڈھال بنایا ہے۔‘درحقیقت ریاست میں بی جے پی نے حلال، حجاب، نماز، اذان اور ٹیپو سلطان جیسی آزمودہ ’ثقافتی جنگ‘ کے نان ایشوز کو ایشو بنانے کی کوشش کی۔ لیکن کرناٹک کے انتخابی نتائج ایسے ہتھکنڈوں کی ناکامی کا ایک اچھا بیرومیٹر ثابت ہوا۔ وزیراعظم مودی بار بار یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس صرف بی جے پی کا نعرہ نہیں ہے، یہ ہمارا عزم ہے‘، لیکن کرناٹک کا فیصلہ بتاتا ہے کہ لوگ اس دعوے پر شک کرنے لگے ہیں۔ ملک کی دولت کی تقسیم میں بڑھتی عدم یکسانیت، مہنگائی اور بے روزگاری، پریس کی آزادی پر قدغنوں کے ساتھ ساتھ دیگر شہری آزادیوں میں رکاوٹ پیدا ہونے سے بی جے پی کی ’وکاس‘ کی پارٹی کے طور پر شبیہ داغدار ہوئی ہے۔ راہل گاندھی نے ناقابل تصور کام کر دکھایا ہے اور اپنے آپ کو ہندوستان میں نفرت کی سیاست کے ماحول کیلئے ’جن نیتا‘ کے تریاق میں تبدیل کر دیاہے۔ راہل کو عام لوگوں سے ملنے اور بات چیت کرنے سے کوئی پرہیز نہیںہے، بارش ہو یا تپتے سورج کی گرمی یا برفیلی شدید سرد ہوا یا دھول یا مٹی۔ پیغام واضح ہے: راہل گاندھی کسی سیاسی اشرافیہ خاندان کا بچہ نہیں ہے، جیسا کہ بی جے پی نے ان کی شبیہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔ انہیں اپنے جوتے گندے کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وزیراعظم مودی کے برعکس راہل گاندھی ایک عوامی لیڈر ثابت ہو رہے ہیں جو رپورٹر کے مائیک سے نہیں ڈرتے۔
کانگریس پارٹی کی حالیہ جارحانہ سیاست یونہی نہیں ہے، اس کا راز اعداد و شمار میں بھی پوشیدہ ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے 37.36 فیصد ووٹوں کے ساتھ 303 سیٹیں جیتی تھیں، جبکہ اسی الیکشن میں کانگریس نے 19.49 فیصد ووٹوں کے ساتھ 52 سیٹیں جیتی تھیں۔ بی جے پی اور کانگریس کے ووٹوں میں فرق تقریباً 18 فیصد تھا۔ فرق اس وقت تھا جب کانگریس اپنی کمزور ترین پچ پر تھی، جبکہ بی جے پی پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کر کے اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی۔ لیکن ابھی کچھ دنوں سے کانگریس اپنے پائوں پر پھر سے کھڑی ہونے کی کامیاب کوشش کر رہی ہے۔ اس لیے 2024 کے انتخابی نتائج کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا جلد بازی ہوگی۔ بہرحال بی جے پی اب بھی مضبوط پچ پر دکھائی دے رہی ہے۔ مودی فیکٹر اب بھی مقبول ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کرناٹک اور ہماچل پردیش جیسے نتائج لوک سبھا انتخابات میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے ان ریاستوں میں بھی جارحانہ مہم چلائی، لیکن یہ انتخابات قانون ساز اسمبلیوں کے لیے تھے۔ عوام کو معلوم تھا کہ وہ وزیراعلیٰ کا انتخاب کر رہے ہیں نہ کہ وزیر اعظم کا۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے بھی وزیراعظم مودی کی زور دارمہم کے باوجود بی جے پی کو راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن جب لوک سبھا انتخابات ہوئے تو بی جے پی نے تقریباً کلین سویپ کیا تھا۔ خواہ انتخابی نتائج جو بھی ہوں، اتنا تو طے ہے کہ راہل کی ’محبت کی دکان‘ نے ’نفرت کے بازار‘کو بہت حد تک سمٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS