نوبل امن نہیں جنگ کا انعام ہے: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

فلسطین اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی پر گزشتہ کچھ دنوں سے گفتگو ہو رہی ہے لیکن ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے، دوسری طرف اسرائیل اپنی پوری حیوانیت کے ساتھ فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔عالمی ادارے پوری طرح سے اسے نسل کشی مان رہے ہیں لیکن امریکہ و اسرائیل پوری ہٹ دھرمی کے ساتھ اسے دفاع کا نام دے رہے ہیں، جس میں پوری دنیا کی طاقتیں شامل ہیں۔ برطانیہ گزشتہ کئی ہفتوں سے اپنی فلسطین پالیسی کی وجہ سے داخلی سطح پر تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔اوین جونس نے اپنے ایک مضمونThis column does not express support for Palestine Action – here’s why میں برطانوی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اس کی پالیسی کو یہودی لابی کا نتیجہ قرار دیاہے۔اسی طرح فلسطین ایکشن پر پابندی کو برطانوی جمہوریت اور شہری آزادیوں کے لیے خطرہ بتایا ہے۔ وہ اس پابندی کو لیبر حکومت کی آمرانہ پالیسیوں اور سیاسی دباؤ کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ تاریخی موازنہ اور گرفتاریوں کے واقعات کے ذریعے وہ اپنے دلائل کو مضبوط کرتے ہیں۔وہ اس پابندی کو ’’لغت کے معنی کو ختم کرنے‘‘ (emptying words of their meaning) سے تعبیر کرتے ہیں، کیونکہ فلسطین ایکشن کے اقدامات(جیسے فوجی طیاروں پر سرخ پینٹ پھینکنا) کو القاعدہ یا داعش جیسے گروہوں کے مساوی قرار دیا گیا ہے، جو کہ بے معنی اور غیر منصفانہ ہے۔یہ وہ تنظیم ہے جس نے طیاروں پر پینٹ پھینک کر فلسطین میں قتل عام کے خلاف احتجاج کیا تھا، اس پابندی کے بعد اس کی رکنیت یا حمایت پر چودہ برس کی قید ہوسکتی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ قیام امن کے معاملے میں دنیا کہاں پہنچ چکی ہے اور اس کے معیار کس طرح دوہرے ہیں۔

دنیا اب اس موڑ پر پہنچ چکی ہے، جہاں امن اور انسانیت اپنے حقیقی معنی کھوچکے ہیں، یہ دونوں لفظ ’’دہشت گردی‘‘ کی طرح سیاست میں ایسے لپٹے ہوئے ہیں کہ ان کی اصل اب کسی کو نظر نہیں آرہی ہے۔امن اور انسانیت دنیائے انسانی کی پیشانی پر بدنما داغ بن چکے ہیں، انسانی حسیات اس قدر بے حس ہوچکی ہے کہ اب ہمیں کسی کے دکھ پر دکھ ہوتا ہی نہیں ہے، یہ اب ایک طرح سے عالمی مزاج بن چکا ہے۔
گزشتہ تین برس سے دنیا دیکھ رہی ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں فلسطینیوں میں نسل کشی ہو رہی ہے، پورے ایک ملک کو تاراج کردیا گیا، جو شخص اس تباہی کا ذمہ دار ہے، اسی کو نوبل کا امن انعام دیے جانے کے لیے نامزد کیا جا رہا ہے، وہ خود بھی اس بات کا خواہشمند ہے کہ اسے یہ انعام بہرصورت دیا جانا چاہیے۔اس نامزدگی پر بی بی سی ہندی نے ایک کارٹون شائع کیا ہے جس میں پرندہ امن سے رپورٹر کہتی ہے کہ جھوٹ مت بولیے، ابھی آپ ہنسے ہیں۔ یہ طنزیہ کارٹون دراصل اس دنیائے انسانیت پر طنز ہے جو امن کی تو خواہاں ہے مگر خاموش ہے۔یہ طنز اس انعام پر ہے جو امن کے نام پر دنیا کا سب سے بڑا اور اہم انعام تصور کیاجاتاہے۔یہ انعام خود ہماری حساسیت اور ہماری انسانیت پر ہنس رہا ہے۔

امریکہ و اسرائیل اور ان کے حلیف بستیوں کو صحرا میں تبدیل کرکے اسے امن کا نام دیتے ہیں،فلسطین جو قدیم ملک ہے جس کی جڑیں ماقبل تاریخ میں پیوست ہیں آج وہ کھنڈرات میں تبدیل ہوچکاہے، اسے تاراج کرنے والے امن کے نوبل کے نہ صرف خواہاں ہیں بلکہ وہی نامزدگی بھی کر رہے ہیں۔بنیامین نیتن یاہو نے امریکہ پہنچ کر نہ صرف نامزدگی کے کاغذات امریکی حکومت کو سونپے بلکہ یہ بھی کہا کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن میں ڈونالڈ ٹرمپ کا اہم کردار ہے، یہ اس لیے کہا کیونکہ امریکہ اس کی جنگ لڑ رہا ہے، خواہ وہ ایران و شام ہو یا پھر فلسطین، ہر جگہ اسی کے مفاد کے لیے امریکہ بساط بچھا رہا ہے، معاہدہ ابراہیم بھی اسی کا ایک حصہ ہے جس کے ذریعہ مسلم ممالک کو اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے تیار کیاجارہاہے۔

تنہا نیتن یاہو نہیں ہے جس نے ٹرمپ کو نوبل کے لیے نامزد کیا ہو، اس سے قبل پاکستانی حکومت بھی انہیں نامزد کرچکی ہے۔جو ایک جوہری طاقت ہے، اس نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہی یہ قدم اٹھایا ہے۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حمام میں سب ننگے ہیں۔عربوں کو ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں، ان کی حالت اور اصلیت سے بھی اب دنیا ناواقف نہیں ہے۔
امن کا نوبل انعام ہمیشہ سے متنازع رہا ہے کیونکہ یہ انعام امن کے لیے کم جنگ کے لیے زیادہ دیا جاتا رہا ہے جس کی ایک متنازع فیہ طویل تاریخ ہے۔اس انعام کا سیاسی تناظر اسے لایعنی بنا دیتا ہے، اس سے قبل جب براک حسین اوباما کو یہ انعام دیا گیا تھا تب بھی سوالات اٹھے تھے، یہاں تک کہ خود اوباما نے اپنی خود نوشت میں اس پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ میرا سب سے پہلا رد عمل یہی تھا کہ یہ انعام کس لیے مجھے دیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

امریکی صدر کو نوبل انعام کے لیے نامزدگی کے ساتھ ہی اسرائیل نے اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ رفح میں ترجیحی بنیاد پر کیمپ بنائے اور فلسطینیوں کو ان کیمپوں میں جانے پر مجبور کرے یعنی امن کا لبادہ اوڑھ کر پورے ایک ملک پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز جیسا متشدد صہیونی یہ اعلان کرتا ہے کہ فلسطین میں بہت جلد امن قائم ہوجائے گا، اس کا اشارہ اس جانب ہے کہ تمام فلسطینیوں کو رفح کے کیمپ میں پہنچا کر اسرائیل فلسطین پر جب قبضہ کرلے گا اور ان کیمپوں سے جب فلسطینیوں کو نکلنے ہی نہیں دیا جائے گا تو وہاں امن قائم ہوجائے گا۔اسرائیل نے یہی منصوبہ بنایا ہے، وہ فلاڈلفیا کوری ڈور پر قبضہ کرکے اس کی نگرانی کریں گے۔

برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ نے اپنے اداریہ”they make a desert and call it peace” میں اسرائیل امریکہ، برطانیہ اور یوروپی یونین کو نشانہ بنایاہے۔یہ عنوان رومن مورخ ٹیکیٹس کے مشہور اقتباس”they make a desert and call it peace” سے لیاگیاہے، جس کے ذریعہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں اور بیانات پر تنقید کی ہے، اداریے میں نسل کشی اور قتل عام کو چھپانے کی کوششوں کو طشت از بام کیاگیاہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت کی بیان بازی(rhetoric) غزہ میں ہونے والی تباہی کو دھندلا کر پیش کرتی ہے۔مغربی رہنما، بشمول برطانیہ اس میں شریک ہیں۔ اداریے میں ڈونالڈ ٹرمپ کے امن کے دعوؤں پر بھی تنقید کرتے ہوئے اسے حقیقت سے دور بتایا گیا اوریہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ یوروپی یونین اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی معاہدہ پر نظرثانی کرے اور ٹرمپ کو ایک حقیقی امن کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے، نہ کہ غزہ کے کھنڈرات پر ’’ریویئرا‘‘ کے خواب دیکھنے چاہئیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل اور امریکہ غزہ کو تباہ و برباد کرکے ایک ایسا خواب دیکھ رہے ہیں، جو حقیقت سے بہت دور ہے، غزہ اور اس کا ساحل سمندر اسی وقت خوبصورت اور خوشنما بن سکتا ہے جب یہاں حقیقی امن قائم ہو۔اب سوال پیدا ہوتاہے کہ حقیقی امن کیا ہے اور کیسے قائم ہوسکتاہے؟ تو اس کا ایک ہی جواب ہے، اسرائیل کو کلی طور پر فلسطین کو چھوڑنا ہوگا، اپنی غاصبانہ پالیسیوں سے پیچھے ہٹنا ہوگا، اپنی نوآبادیاتی بستیوں کو ختم کرنا ہوگا جبکہ وہ اس کے برعکس کر رہاہے، فلسطین کی نئی زمینوں پر اس نے نئی بستیوں کا منصوبہ بنایا ہے، اس کے آباد کار ایک بار پھر فلسطینیوں سے جھڑپوں میں ملوث ہیں، کھیتیاں اور بستیاں تو تباہ ہی ہوچکی ہیں، وہ ان کے مویشیوں کی چوری کر رہے ہیں، اس زمین کے اصل مالکوں اور یہودی غاصبوں کے درمیان عوامی سطح پر جھڑپ کی بھی ویڈیو سامنے آئی ہیں، جن سے اندازہ ہوتاہے کہ اسرائیل اب نئے سرے سے انہیں یہاں آباد کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں حقیقی قیام امن ایک خواب ہے۔یہ خواب اسی وقت پورا ہوسکتاہے جب دنیا کی حکومتیں یہودی اثرات سے باہر ہوکر انسانی حقوق پر گفتگو کے بجائے عملی اقدام کریں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS