حمنہ کبیر (وارانسی)
ایک شخص کی ملاقات جب کسی دوسرے شخص سے ہوتی ہے تب بات چیت کی شروعات عموماً دو موضوعات سے ہوتی ہے، موسم اور سیاست سے۔ چاہے ملاقاتیوں کے باہمی تعلقات نہ ہوں ، جان پہچان نہ ہو لیکن سفر میں، عوامی مقامات پر یا چائے کے ڈھابوں پر دو اجنبیوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کی شروعات اکثر ان ہی دو موضوعات سے ہوتی ہے۔ موسم پر ذرا دیر کے اظہارِ خیال کے بعد موضوع تبدیل ہو جاتا ہے، لیکن سیاست اکثر لوگوں کے لئے وہ دلچسپ موضوع ہے کہ راستے جدا ہو جاتے ہیں، سفر تمام ہوجاتاہے، لیکن سیاست و حالات حاضرہ پر گفتگو ادھوری ہی رہ جاتی ہے۔ اب یہ دلچسپ موضوع کچھ خطرناک رخ اختیار کر چکا ہے اتنا کہ سامنے والا سیاسی بحث ومباحثہ کرتے کرتے کب آپ کا گریبان پکڑ لے ، گالیوں پر اتر آئے یہاں تک کہ آپ کی جان بھی لے لے اس کا اندازہ آپ نہیں کرسکتے ہیں۔ ٹی وی پر خبر دکھانے کے نام پر زہر اگلتے اینکرز سماج میں ذہنی مریضوں کی افزائش میں لگے ہوئے ہیں۔ ٹی آر پی اور ’’ پہلے میں، پہلے میں‘‘ کی ایسی ہوڑ لگی ہوئی ہے کہ اشتعال انگیزی پر مبنی نئے پرانے وڈیوز بغیر کسی تصدیق کے خبروں میں دکھائے جاتے ہیں اور منفی سوچ رکھنے والے عوام کے ذریعہ خوب شیئر کئے جاتے ہیں۔ بعد میں جب کہیں سے ایسی خبروں کی تردید ہوتی ہے تو اس پر معذرت کرتے ہوئے وڈیو تو ہٹا دیا جاتا ہے، لیکن اتنی دیر میں یہ وڈیو سماج کے سنکی اور جذباتی لوگوں پر اپنے منفی اثرات قائم کرچکا ہوتا ہے۔ اس طرح کی خبروں اور وڈیوز کو دیکھ کر ایک جذباتی شخص کے اندر جو نفرت اور غصہ اٹھتا ہے اسے بظاہر تو کچھ دیر بعد دبا لیا جاتا ہے، لیکن یہ منفی جذبات اس کے ذہن کے کسی گوشے میں چپک کر رہ جاتے ہیں اور اندر ہی اندر پروان چڑھتے رہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ خبروں کے نام پر تماشہ کرنے والے معذرت کے بعد کسی اور اشتعال انگیز خبر پر ’’تجزیہ و تبصرہ‘‘ کرنے میں جٹ جاتے ہیں۔ ایک نارمل انسان دن و رات اسی طرح کی منفی خبریں دیکھتے دیکھتے خود کب منفی شخصیت کا حامل بن جاتا ہے اسے احساس تک نہیں ہوتا۔ دھیرے دھیرے اس کا ذہن مثبت پہلوؤں کو تلاش کرنے سے عاری ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی نفرت آر پی ایف کے کانسٹیبل چیتن کمار کے بھی دل و دماغ میں عرصے سے اپنا زہر گھول رہی تھی۔ چلتی ٹرین میں بحث و مباحثہ کے بعد اس نے پہلے اپنے سینئر اسسٹنٹ سب انسپکٹر ٹیکا رام کو قتل کیا، اس کے بعد ٹرین میں گھوم کر تین مسلمانوں کو بھون ڈالا۔ لاش کے قریب کھڑا ہو کر یہ کانسٹیبل کچھ ایسا ہی ڈائیلاگ بولتا ہے جس کا لب لباب وہی تھا ،جو سیاستدانوں اور میڈیا پر زہر اگلتے اینکرز کا ہوتا ہے۔ مودی ، یوگی، پاکستان۔ واقعہ کے بعد ریلوے انتظامیہ نے چیتن کمار کی دماغی حالت درست نہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس طرح کا وحشیانہ قتل کرنے والا دماغی طور پر کسی طرح بھی ’’صحتیاب‘‘ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک دن کی نفرت نہیں ظاہر کی گئی ہے بلکہ سیاستدانوں اور میڈیا کے ذریعہ تسلسل سے سماج میں زہر گھولنے کا نتیجہ ہے۔میڈیا کے ذریعہ پروسی جارہی نفرت ایسے کسی جذباتی شخص کے اندر پروان چڑھتی رہتی ہے اور کچھ عرصہ کے بعد ہی چیتن جیسا وحشی تیار ہوتا ہے۔
فی الحال حالات کو دیکھتے ہوئے مناسب یہی ہے کہ سیاسی بحث سے پرہیز کیا جائے ، خاص طور پر اجنبیوں سے۔ چاہے آپ راستے میں ہوں، سفر کررہے ہوں، ڈھابوں اور ریستورانوں میں ہوں ، سیاسی بحث سے حتی الامکان گریز کریں۔ سیاسی بحث و مباحثہ میں اب شائستگی رہ ہی نہیں گئی ہے۔ نہ ہی لوگوں میں دلائل اور منطقی باتوں سے سامنے والے کو قائل کرنے کی قابلیت رہ گئی ہے۔ اکثر لوگ محض اپنی رائے تھوپنا جانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی ہاں میں ہاں ملائی جائے۔ جے پور ممبئی ایکسپریس میں سفر کررہے سب انسپکٹر ٹیکا رام ، عبد القادر ، اصغر علی اور سیف الدین کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کے ساتھ اس طرح کا حادثہ پیش آئے گا۔ کانسٹبل چیتن کمار نے بھی باقاعدہ پلان کرکے یہ قتل نہیں کیا تھا بلکہ اس نفرت نے یہ گھناؤنا کام انجام دیا تھا، جو مختلف ذرائع سے اس کے ذہن کے گوشوں میں جگہ بنارہی تھی۔
یو پی الیکشن کے دوران بھی کچھ ایسی ہی خبر سامنے آئی تھی، جس کے مطابق الیکشن کے نتائج پر قیاس آرائیاں کرتے ہوئے دو دکانداروں کے درمیان سیاسی بحث اس قدر شدت اختیار کر گئی تھی کہ پہلے تو دونوں افراد کے بیچ مار پیٹ ہوئی اور پھر ان میں سے ایک نے غصے میں آکر دوسرے پر طمنچہ سے گولی چلادی اور نتیجتاً وہ شخص جاں بحق ہوگیا۔ ان میں سے ایک شخص بھاجپا کے جیتنے کا دعویٰ کر رہا تھا، جبکہ دوسرا سپا کی حکومت بننے کا۔ دونوں کے درمیان اسی بات کو لے کر کہا سنی ہوگئی اور ان کے درمیان ہونے والی سیاسی بحث میں شدت آتی گئی۔ یہاں تک کہ یہ بحث ایک قتل کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔
یہ اچھی بات ہے کہ آپ باخبر ہیں اور لوگوں کو بھی کررہے ہیں ، سیاسی چال اور داؤ پیچ بھی سمجھنے لگے ہیں، لیکن اگر سامنے والا اس موڈ میں ہے ہی نہیں کہ وہ آپ کی سنے اور سمجھے تو بات ختم کرنے میں ہی بھلائی ہے۔ لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ کس طرح ان کے ذہن میں نفرتی مواد انجیکٹ کرکے ان کی مثبت سوچ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کرکے انہیں ذہنی مریض بنایا جارہا ہے۔ تاکہ ان کا دھیان روٹی کپڑا مکان اور بنیادی ضروریات سے ہٹایا جاسکے۔ نفرت انگیز مواد دیکھنے اور شیئر کرنے سے خود کو باز رکھیں۔ ٹی وی پر تفرقہ پھیلانے والے چینلز دیکھنا بند کردیں۔ اپنا وقت اور انرجی لاحاصل بحث کے بجائے تعمیری کاموں میں صرف کرنا بہتر ہوگا۔ آپ اچھی کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں، فیملی اور مثبت سوچ رکھنے والے دوستوں کے ساتھ بہترین وقت گزارا جا سکتا ہے، تعلیمی و تعمیری کاموں میں خود کو مصروف رکھ کر ایک بہترین شہری ہونے کی ذمہ داری ادا کریں۔
سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ایسے کئی پیج، گروپ، چینل آپ کو ملیں گے جہاں صرف سماج کو بانٹنے والے مواد پوسٹ کئے جاتے ہیں، ان سے دوری بہتر ہے ورنہ دھیرے دھیرے ان کے پھیلائے گئے زہر آپ کے اندر سرایت کرتے جائیں گے اور آپ کو خبر تک نا ہوگی۔
[email protected]
اب اور سیاسی بحث نہیں: حمنہ کبیر (وارانسی)
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS