اگلے 5 سال ماننے منانے میں نہ گزر جائیں: صبیح احمد

0

صبیح احمد

ہزاروں سال کی تاریخ رہی ہے کہ ہندوستان حسب ضرورت اپنا راستہ خود تلاش کر لیتا ہے۔ اسے بھٹکانے کی بار ہا کوشش کی جاتی رہی ہے، لیکن بھٹکانے والی ان طاقتوں کوکبھی کامیابی نہیں ملی، ہمیشہ ناکامی ہی ان کے حصے میں آئی ہے۔ وقتی طور پر انہیں فائدہ ضرور ملتا ہے لیکن اپنے نصب العین اور ارادوں میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں۔ یہاں کے عوام نے سب کو موقع دیا ہے،باری باری سب کو جانچا ہے، سب کو پرکھا ہے لیکن انہیں ہندوستان کو اپنی راہ سے بھٹکانے کا موقع کبھی نہیں دیا اور نہ کبھی دے گا۔ حالانکہ موجودہ جمہوری ڈھانچہ ملک کی آزادی کے بعد وجود میں آیا لیکن یہاں کی مٹی میں جو نمی ہے، اس کی آبیاری ہزاروں سال سے دراصل جمہوریت ہی مختلف شکلوں میںکرتی آئی ہے۔ جمہوریت کے اصول اور جمہوری اقدار ہندوستان اور اس کے عوام کی رگ رگ میں رچے بسے ہیں۔ یہی ہندوستان کی اصلی طاقت ہے، یہاں کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی، امن و محبت اور بھائی چارے کی محافظ ہے۔ ان اقدار پر جب بھی خطرات کے بادل منڈلانے لگتے ہیں، یہاں کے عوام بلا تفریق متحد ہو کر تخریبی قوتوں کو ان کی راہ دکھا دیتے ہیں۔ ہر الیکشن میں حکمراں طبقہ کو ایک پیغام دیتے ہیں کہ بالآخر حکمرانی ہماری مرضی کے مطابق ہی چلے گی۔ یعنی عوام کی، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعہ۔
حالانکہ مسلسل 2 بار بڑی طاقت کے ساتھ بی جے پی کو اقتدار سونپنے کے بعد عوام نے اسے تیسری بار حکومت چلانے کی اجازت دے دی ہے، لیکن اس کی ’منمانیوں‘ پر ’لگام‘ بھی لگا دی ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ عوام بی جے پی کو حکومت چلانے کے قابل تو سمجھتے ہیں، لیکن اسے ’منمانیاں‘ کرنے کی کی قطعی اجازت نہیں دیں گے۔ ساتھ ہی وہ اس کی پالیسیوں اور کام کاج میں کچھ تبدیلیاں بھی چاہتے ہیں۔ بی جے پی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے اکثریت کا ہندسہ عبور کر لیا ہے۔ حالانکہ اس بار تبدیلی یہ ہوگی کہ مودی 3.0 حکومت اپنے اتحادیوں کی بیساکھیوں کی مدد سے چلے گی۔ ’سہارے‘ پر حکومت چلانا بی جے پی اور مودی کے لیے ایک مشکل کام ثابت ہونے والا ہے۔ کیونکہ جن ایشوز پر بی جے پی نے مودی 2.0 میں الیکشن لڑا تھا، انہیں مودی 3.0 میں حلیفوں کی مدد سے زمین پر لانا مشکل ہوگا۔ ان میں ’ون الیکشن ون نیشن‘اور ’یکساں سول کوڈ‘ جیسے ایشوز شامل ہیں۔ یہ بی جے پی کے ’سنکلپ پتر‘ اور ’مودی کی گارنٹی‘ میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے انتخابات کے بعد حدبندی کا کام شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان معاملات کے حوالے سے اب کہا جا رہا ہے کہ مستقبل میں بی جے پی کی حلیف جماعتوں کے ساتھ ان کے نفاذ کو لے کر ٹکرائو کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
اس بار بی جے پی کو 272 کے جادوئی اعداد و شمار کو چھونے کے لیے نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کے کندھوں کا سہارا لینا پڑا ہے، لیکن بی جے پی کے لیے ان دونوں کا ساتھ نبھانا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ضرورت کے وقت اگر وہ کسی بھی معاملے پر بی جے پی سے اختلاف کرتے ہیں تو وہ ان کی حمایت کا جائزہ لینے میں نہیں ہچکچائیں گے۔

اس کا ٹریلر بی جے پی 2018 میں دیکھ چکی ہے۔ جب آندھرا پردیش کو خصوصی ریاست کا درجہ نہیں ملا تو ٹی ڈی پی نے مودی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ دونوں کے درمیان تعلقات اس قدر بگڑ گئے تھے کہ نائیڈو نے مودی کو ’کٹر دہشت گرد‘ تک کہہ دیا تھا۔ 2018 میں ٹی ڈی پی کی تحریک عدم اعتماد پر وزیر اعظم نریندر مودی نے چندرابابو نائیڈو کا موازنہ ایک ’کرپٹ سیاست دان‘ سے کیا تھا۔ بعد میں جب ٹی ڈی پی نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد دوبارہ بی جے پی کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تھی تو بی جے پی نے این ڈی اے میں واپسی کے حوالے سے سخت موقف اختیار کیا تھا۔ بعد میں جب نائیڈو نے امت شاہ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا کے ساتھ اس سال فروری میں جیل سے رہائی کے بعد ملاقات کی تو تعلقات معمول پر آگئے۔ جہاں تک نتیش کمار کی بات ہے تو انہوں نے سب سے پہلے 2014 میں مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار قرار دینے کے بعد بی جے پی سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ حالانکہ بعد میں وہ این ڈی اے میں واپس آگئے تھے۔ لیکن 2022 میں آر جے ڈی اور کانگریس کے ساتھ بہار میں حکومت بنانے کے بعد انہوں نے دوبارہ بی جے پی چھوڑ دی اور ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا دائو کھیل کر بی جے پی کی سانس پھلا دی تھی۔ حالانکہ بعد میں انہوں نے آر جے ڈی پر اقربا پروری کا الزام لگا کر این ڈی اے میں واپسی کرلی۔ اہم بات یہ ہے کہ نتیش کمار ہر بار بی جے پی پر بھاری پڑے ہیں۔ وہ بہار میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنی قدر و قیمت خوب جانتے ہیں۔ خواہ لوگ انہیں ’پلٹو کمار‘ کہیں، لیکن وہ سیاسی حساب کتاب میں کنگ میکر کے کردار میں پھر سے آگئے ہیں۔

بی جے پی کے سینئر لیڈروں کو بہرحال اس بات کا احساس ہے کہ مخلوط حکومت میں نظریاتی محاذ پر کچھ نہ کچھ قربانی دینی ہی پڑے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی کے لیے اگلے 5 سال اتحادیوں کو راضی کرنے میں صرف ہو جائیں۔ بی جے پی حکومت اپنی اولوالعزم ’ون نیشن ون الیکشن‘ اسکیم کے حوالے سے کئی رپورٹیں جاری کر چکی ہے۔ ’ون نیشن ون الیکشن‘ کے حوالے سے سابق صدر رام ناتھ کووند کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مودی جی خود اس منصوبہ پر نظر رکھ رہے ہیں۔ لیکن خدشہ ہے کہ ٹی ڈی پی مودی حکومت کے تیسرے دور میں اس اسکیم کو ویٹو کر سکتی ہے۔ نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو نے ’ون نیشن ون الیکشن‘ کی حمایت کرتے ہوئے رام ناتھ کووند کی قیادت والی کمیٹی کو ایک میمورنڈم پیش کیا تھا، لیکن اس بار دیکھنا یہ ہے کہ اس پر نتیش کا کیا موقف ہوگا۔ ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ کے نفاذ کے لیے ہی امت شاہ نے 20 ستمبر 2023 کو کہا تھا کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے فوراً بعد حد بندی کا کام شروع ہو جائے گا۔ بی جے پی کو یکساں سول کوڈ کے حوالے سے بھی اپنے پاؤں پیچھے کھینچنے پڑسکتے ہیں۔ اتراکھنڈ پہلی ریاست ہے جہاں یکساں سول کوڈ نافذ کیا گیا ہے۔ بی جے پی کی تیاری اسے پورے ملک میں نافذ کرنے کی تھی۔ لا کمیشن اس پر کام کر رہا تھا۔ کمیشن نے اس پر عام لوگوں سے تجاویز بھی مانگی تھیں، جس پر 7.5 لاکھ لوگوں نے اپنی رائے دی تھی۔ وزیر داخلہ امت شاہ کہہ چکے ہیں کہ اگر بی جے پی اقتدار میں واپس آتی ہے تو اگلے 5 سالوں میں حکومت پورے ملک میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) نافذ کرے گی۔ لیکن نئی لوک سبھا میں ممکنہ تال میل کو دیکھتے ہوئے بی جے پی اس اسکیم کو اپنی قومی ترجیحات کی فہرست سے نکال بھی سکتی ہے۔
اس کے علاوہ حلقہ بندی اور مردم شماری کا کام بھی زیر التوا ہے۔ ’ناری شکتی وندن ایکٹ – آئین(ایک سو اٹھائیسویں ترمیم) بل 2023‘ جو لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن فراہم کرتا ہے – کو پارلیمنٹ سے منظوری مل گئی ہے۔ لیکن اس پر عمل درآمد اسی وقت ہو گا جب حلقہ بندی کا عمل مکمل ہوجائے گا۔ بی جے پی نے 2029 تک خواتین کے ریزرویشن کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن ٹی ڈی پی کے رخ کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کو 2026 میں ہونے والی حلقہ بندی کے عمل پر اپنا موقف تبدیل کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑسکتا ہے۔بہرحال ابھی تک وزیراعظم مودی چیزوں کو لے کر جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں، اس سے نہیں لگتا کہ سیاست کے دونوں پرانے اور ’چالاک‘ کھلاڑیوں (نتیش اور نائیڈو) میں اب وہ پرانی ’دھار‘ باقی رہ گئی ہے جس سے خود مودی بھی کبھی گھائل ہو چکے ہیں۔

مجموعی طور پر 2024 کے انتخابات میں سماجی انصاف کی حمایت کرنے والی ’ہندوتو‘ اور سماجی انصاف کی طاقتوں کے درمیان سخت اور قریب ترین مقابلہ ہوا۔ ’انڈیا‘ بلاک اپنی مہم میں ’رام‘ اور فرقہ وارانہ ایشوز کے بیانیہ کو لوگوں کی روزی روٹی، اقتصادی مسائل، آئین اور جمہوریت کو بچانے جیسے ایشوز سے بدلنے میں کامیاب رہا۔ 2014 کے بعد پہلی بار بی جے پی سماجی اور اقتصادی مسائل پر عدم اطمینان کو بے اثر کرنے کے لیے فرقہ وارانہ صف بندی کا استعمال نہیں کر سکی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS