علیزے نجف
انسانی زندگی میں تبدیلی کا عمل ہر آن ہر لمحے جاری رہتا ہے اس تبدیلی کا دائرہ وسیع و عریض ہوتا ہے، اسی طرح دن رات کی تبدیلی ہفتے اور مہینے کی وجہ بنتے ہیں اور یہ سب کو یکجا ہو کے سال، دہائی اور صدی بنتے ہیں۔ تبدیلی اس کائنات کی سب سے خوبصورت چیز ہے کیوں کہ انسان فطرتا تغیر پسند ہے اسے یکسانیت سے وحشت ہوتی ہے یہ تغیر ہی ہے جو ہمیں غم اور خوشی میں تفریق کرنا سکھاتا ہے مثلا اگر ہماری زندگی میں کبھی غم ہی نہ آئے تو ہمیں خوشی کی اصل لذت کبھی نہیں مل سکتی اسی طرح اگر انسان کام اور جدوجہد ہی نہ کرے تو اسے آرام اور سکون ایک اجنبی شئے معلوم ہونے لگے گی، میرا اس وقت تبدیلی کے تحت اس تمہید بیانی کا مقصد سال کی تبدیلی یعنی نئے سال کی آمد پہ انسانی ردعمل کا جائزہ لینا ہے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے۔آج نئے سال کا پہلا دن ہے اس دن تمام لوگ الگ الگ طریقے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو نئے سال کے موقع پہ خوشی منانے کو قطعی پسند نہیں کرتا ان کا خیال ہے کہ ہمیں ایک سال گذر جانے پہ افسوس ظاہر کرنا چاہئے، عمر کی دیوار سے ایک اور اینٹ گر گئی زندگی موت کے اور قریب تر آگئی یہ موقع خوشی منانے کا نہیں بلکہ رنج و غم کا اظہار اور محاسبہ کرنے کا ہے۔دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اس موقع پہ لہو و لعب اور جشن منانے کے قائل ہے ان کے خیال کے مطابق نئے سال میں قدم رکھنا ایک خوشی کا موقع ہے ہمیں اس سے جڑی خوشیوں کو انجوائے کرنا چاہئے۔ ان کی زندگی کا مقصد ہر لمحہ عیش و طرب کی محفلیں سجانا ہوتا ہے اسی لئے وہ اپنی بساط بھر اس کے لئے باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں۔
ان دونوں طبقے کے خیالات انتہا پسندانہ ہیں اس بات سے قطع نظر کہ ان کا یہ رویہ صحیح ہے یا غلط معاشرے میں اختلاف رائے کو ہمیں تحمل و رواداری کے ساتھ قبول کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہمارے مخالفت آمیز اختلاف کرنے سے ضروری نہیں کہ وہ اپنی رائے بدل دے لیکن ہم معاشرتی سکون کو ضرور درہم برہم کر دیتے ہیں۔
ان دو خیالات و نظریات کے ساتھ ایک تیسرا نظریہ بھی ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے جس کو ہم معتدل نظریہ بھی کہہ سکتے ہیں ان کے خیال کے مطابق ہمیں اس نئے سال کے موقع کو تعمیری نظر کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے مثلا یہ کہ گذرے ہوئے سال کا جائزہ لیں کہ اس میں ہم نے کیا کیا خاص سرگرمیاں انجام دیں اور ان کے نتائج کیسے رہے، کیا ہم اس گذرے ہوئے سال میں اپنی زندگی کو اس سے پہلے گذرے ہوئے سال سے کچھ بہتر طریقے سے گذارنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ اس محاسباتی عمل کے ساتھ ساتھ آنے والے سال کے لئے نئی حکمت عملی بنانے پہ بھی زور دیتے ہیں ماہرین کے مطابق انسانی ذہن پہلے سے تیاری کی گئی حکمت عملی کو پورا کرنے کے لئے زیادہ ایکٹو اور پر اعتماد ہوتا ہے کیوں کہ اس کا مائنڈ میپ بالکل واضح ہوتا ہے بمقابلے اس کے کہ عین وقت پہ کی جانے والی کوششیں مبہم ہونے کی وجہ سے اکثر نتیجہ خیز نہیں ہو پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آنے والے سال کے لئے اپنے مقاصد کو واضح طور پہ طئے کرنے پہ زور دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ نئے سال کی خوشیوں میں معتدل انداز میں شامل ہونے پہ یقین رکھتے ہیں۔اس وقت ہم سب نئے سال کے دروازے سے داخل ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم سب انسان ہیں انسانی فطرت خوشیوں کی ازل سے متلاشی رہی ہے ہر کسی کے لئے خوشی الگ الگ چیزوں میں ہوتی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ خوش رہنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، کسی بھی معاملے میں ضرورت سے زیادہ جبر یا بیمہار آزادی کبھی بھی مثبت نتائج نہیں پیدا کر سکی ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے دائرہ کار میں رہتے ہیں تعمیر و تفریح کو اپنائیں بیشک ہر گذرتا ہوا دن آپ کی زندگی کے دورانیہ کم کر رہا ہے وقت کے تئیں حساسیت کو ہمیں ہر لمحے اپنے اندر رکھنا چاہئے نا کہ کسی خاص وقت میں اس کا ماتم کر کے باقی دنوں میں وہی بیحسی کا رویہ اپنائے رہیں یہ وقت ہی ہے جو ہمارے لئے زندگی کا سب سے بنیادی سامان ہے اس کے ختم ہوتے ہی سب کچھ آپ ہی آپ ختم ہو جاتا ہے اس لئے وقت کی بربادی ہمارے لئے ہمیشہ ناقابل قبول ہونی چاہئے۔
وقت کی اہمیت کے ہی تئیں ماہرین باقاعدہ ٹائم مینجمنٹ اسکلز پیدا کرنے کے لئے ٹریننگ دیتے ہیں کیوں کہ محض وقت کی اہمیت کا شعور کا ہونا کافی نہیں بلکہ اس کے خرچ میں توازن کا ہونا بھی لازمی ہے۔کبھی کبھی ہم سارا وقت مصروف رہتے ہیں پھر بھی ہمارے زندگی میں پیچیدگی ، کشیدگی اور بیربطی اور اس سے بڑھ کر کام کی ہوڑ ختم نہیں ہوتی اور اکثر اہم کام پیچھے ہی رہ جاتے ہیں ٹائم مینیجمینٹ اسکلز انھیں سارے مسائل کو حل کرتی ہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ وقت کے تئیں اپنی حساسیت کو نئے سال سے جوڑنے کے بجائے ہمہ وقت اس کے لئے فکر مند ہونا چاہئے ہاں یہ ضرور ہے کہ اس موقع پہ ہم اس کے لئے خصوصی اہتمام کر سکتے ہیں۔
دوسرے نئے سال کے موقع پہ نئے عزائم کی بھی بات کی جاتی ہے جو کہ ایک مثبت فکر ہے اس کے ذریعے ہمیں یہ ترغیب ملتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مقاصد کے تئیں سنجیدگی کے ساتھ سوچیں اگر لوگ اس کے لئے نئے سال کے دن کو مختص کرتے ہیں تو یہ کوئی برا بھی نہیں ہے اس کی سب سے بڑی خوبی مجھے یہ لگتی ہے کہ اس میں لوگ دوسروں کے لئے بھی تحریک کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایسے میں وہ لوگ بھی باقاعدہ اپنا لائف شیڈول بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو اس کے قائل نہیں بھی ہوتے ہیں یا جو لوگ زندگی کو ایک مخصوص ڈھب میں گذارنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ نئے سال کے موقع پہ آنے والے سال کے لئے حکمت عملی تو بنا لیتے ہیں لیکن جلد ہی وہ اس سے بینیاز ہو کر اپنی سابقہ سرگرمیوں میں مگن ہو جاتے ہیں انھیں چاہئے کہ اپنے اندر استقامت پیدا کرنے کی کوشش کریں محض ایک بار کرنے سے مہارت نہیں پیدا ہوتی اسے بار بار عمل میں لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اپنی زندگی میں ایسے اعزہ اقارب کو شامل کر لیں جو اس کے لئے آپ کو ریمائنڈ کراتے رہیں اگر ان کے اندر وہ صلاحیت ہو جو آپ کی نفسیات کو سمجھ سکتی ہو تو یہ آپ کے لئے ایک اضافی مثبت پہلو ہو گا۔
ہم نئے سال کے موقع پہ احتساب حکمت عملی اور پلاننگ، رنج و تاسف کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن اکثر یہ محض وقتی جوش و خروش کے تحت ہی ہوتا ہے جنوری کا مہینہ گذرتے ہی ہم واپس سے اپنی سابقہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں ہم وہی کچھ کرنے لگتے ہیں جس سے ہم نے بچنے کا ارادہ کیا ہوتا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے بھی اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیاوی زندگی ہو یا آخرت کی دونوں کی کامیابی کبھی اچانک سے ہونے والے حادثے کی طرح نہیں ہے جو کبھی بھی آپ کی زندگی میں آ جائے گی اس کے لئے سوچنا غور و فکر کرنا ہماری ذمے داری ہے، ہر کسی کے نزدیک کامیابی کا اپنا اپنا نظریہ ہوتا ہے اس نظریے کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ ہم حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کے ساتھ عملی سطح پہ اس کو برتنے کی بھی کوشش کریں، ہمیں یہ حق بالکل بھی حاصل نہیں کہ ہم کسی کے نظریے کو بیجا تنقید کے ذریعے ٹھیس پہنچائیں ہمیں اختلاف رائے کو فراخدلی کے ساتھ قبول کرنے کی ضرورت ہے۔
اب ہم آتے ہیں تیسرے پہلو کی طرف یعنی نئے سال کا جشن منانے کے لئے حد سے تجاوز کر جانا اس سے احتراز کرنا چاہئے۔ ایک دائرے میں رہتے ہوئے خوشی منانا قطعی برا نہیں ہے۔ویسے خوش ہونے کے لئے کسی دن کو مخصوص کرنا مناسب نہیں ہمیں ہر روز اس احساس کے لئے اپنی سرگرمیوں میں ان عناصر کو شامل رکھنا چاہئے جو ہمیں خوشی دیتی ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم زندگی کو لگی بندھی روٹین کے تحت مخصوص فکر کے ساتھ گذارتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں خوش ہونے کے لئے ایک بڑے کام کی طرح وقت نکالنا پڑتا ہے ایسے میں جب کوئی موقع آتا ہے تو ہم اس میں ہر حد کو پھلانگ کر غلو کی راہ پہ چل نکلتے ہیں اس کی وجہ سے معاشرتی اقدار بھی متاثر ہوتے ہیں نئے سال کے موقع پہ ہمیں یہی چیز نظر آتی ہے۔ بیشک خوش رہنا ہمارا حق ہے لیکن اس کے لئے غلو کا راستہ کسی بھی طرح مناسب نہیں اس کے ذریعے انسانی زندگی عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔اس موقع پہ ہم اپنے اقارب کے ساتھ وقت گزار کر کے بھی انجوائے کر سکتے ہیں کھانے میں کچھ نیا بنا کر بھی اس نئے سال کی خوشی کو سب کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں دوستوں اور اعزہ و اقارب سے ملاقات کر کے یا ان کو فون کر کے بھی اس دن کو خاص بنایا جا سکتا ہے۔ میرے اس خیال سے بعض لوگوں کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے جو کہ فطری ہے۔ میری رائے کے مطابق ہمیں جذبات میں بہہ جانے یا اس پہ بند باندھنے کے بجائے اسے فطری رفتار کے ساتھ بہنے دیا جائے۔ ہر چیز کو ایک مخصوص نظر سے دیکھنے کے بجائے وسیع النظری کا مظاہرہ کیا جائے اور اپنے شدت پسند نظریات کو دوسروں کے اوپر مسلط کرنے سے گریز کیا جائے باہمی رواداری کو فروغ دینے کے لئے ہمیں دوسروں کے خیالات کا احترام کرنا چاہئے جو چیز ہم دوسروں کو نہیں دے سکتے اس کا مطالبہ ہم خود کیسے کر سکتے ہیں اس نئے سال کا استقبال اعتدال پسند نظریات کے ساتھ محبت اور خوشیوں کو فروغ دیتے ہوئے کریں، باقی ہر انسان کی ذاتی زندگی اور اس میں درپیش صورت حال ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوتی ہے اس کے تحت نظریات کا بننا و بگڑنا فطری ہے۔