اُپیندررائے
امریکی پارلیمنٹ کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے تائیوان دورہ کے سائڈافیکٹ آنے شروع ہوگئے ہیں۔ ہفتہ کی شروعات میں ہوئے اس دورہ کے بعد اب تائیوان کا آسمان چین کے جنگجو طیاروں کے کان پھوڑنے والے شور سے گونج رہا ہے۔ ملٹری ڈرل کے نام پر چین کے فائٹر جیٹس تائیوانی ایئراسپیس میں بغیر روک ٹوک دراندازی کررہے ہیں، وہیں اس کے بحری جنگی جہاز تائیوان کی آبی سرحد کو پار کرگئے ہیں۔ اس بار امریکہ سے راست ٹکر لینے کے موڈ میں نظر آرہے چین نے دونوں ممالک کے مابین سمندری فوجی تعاون پر پابندی عائد کرتے ہوئے سیکورٹی کورآڈی نیشن پالیسی پر بات چیت کو رد کردیا ہے۔ شور تو نینسی پیلوسی پر بھی پابندی کا ہے لیکن یہ پابندی کس طرح کی ہے یہ چین نے واضح نہیں کیا ہے۔ پیلوسی کے تائیوان دورہ سے مشتعل چین اب تک 8مختلف طرح کی جوابی کارروائی کرچکا ہے۔ ون چائنا پالیسی کی خلاف ورزی کا حوالہ دے کر چین اس دورہ کو اس کے اندرونی معاملات میں دخل بتا رہا ہے، جب کہ امریکہ نے اس دورہ کو ایک ذاتی معاملہ بتاتے ہوئے ون چائنا پالیسی پر اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
جوابی کارروائی میں نظر آرہی چین کی بوکھلاہٹ دراصل اس کے تذبذب کا اظہار بھی ہے۔ چین کو یہ ڈر ستا رہا ہے کہ اگر اس کا ردعمل کمزور رہتا ہے تو عالمی سطح پر اس کا رتبہ بھی کمزور ہوگا اور اگر وہ تائیوان پر کوئی بڑی کارروائی کردیتا ہے تو دنیا بھر میں چین مخالف جذبہ شدت اختیار کرسکتا ہے۔ یوکرین جنگ کے تعلق سے امریکہ ٹھیک اسی طرح کی الجھن کا شکار ہوچکا ہے۔ لیکن اس مرتبہ امریکہ کو سبقت حاصل ہے۔ چین کی لاکھ مخالفت کے باوجود وہ ایشیا میں اپنی پکڑ مضبوط کرنے والا داؤ چلنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ چین کے لیے اس محاذ پر بھی سانپ-چھچھوندر والے حالات ہیں۔ اگر وہ چپ بیٹھتا ہے، تو دوسرے مغربی ممالک کو بھی امریکہ کی راہ پر چلنے کا حوصلہ ملے گا۔ اس سے تائیوان ایشو کے عالمی مسئلہ بننے کا خطرہ ہے جو چین کے خلاف صف بندی کو ہوا دے سکتا ہے۔ اس سے چین کی سامراجی توسیع کی خواہش کو بری چوٹ پہنچے گی۔ دوسری طرف اگر چین اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مابین کوئی جھڑپ بھی ہوتی ہے تو امریکہ کو ’ناٹو کے ایشیائی ورژن‘ کو رسمی شکل دینے کا سنہرا موقع مل جائے گا۔ یہ بھی دیکھنے والی بات ہوگی کہ اگر رسہ کشی میں اضافہ ہوتا ہے تو کیا امریکہ اپنی بحریہ کو تائیوان آبنائے کے پار لے جائے گا۔ یوکرین کے برعکس، تائیوان کے آس پاس کا سمندر امریکی بحریہ اور فضائیہ افواج کے لیے اتنا ناقابل رسائی نہیں ہے۔ عام اور باقاعدہ تعیناتی کے نام پر تائیوان کے مشرقی کنارے پر امریکہ کے چار بحری جنگی جہاز پہلے سے ہی گشت لگارہے ہیں۔
یکدم پڑوس میں کشیدہ ہورہے حالات پر ہندوستان کی سوچ کیا ہے؟ خاص طور پر اگر چین حقیقت میں تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو ہمارے پاس کیا اس کے تعلق سے کوئی منصوبہ یا متبادل ہے؟ اتنا تو طے ہے کہ اگر ایسا ہوا تو آنچ ہندوستان تک بھی آئے گی۔ تائیوان میں کوئی بھی رسہ کشی سب سے پہلے بحیرئہ جنوبی چین اور ملکّا آبنائے کو اپنی زد میں لے گی۔ یہ وہ سمندری علاقہ ہے جہاں سے ہندوستان کی 55فیصد تجارت ہوتی ہے۔ یہ غیریقینی صورتحال ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہے- بھلے ہی بحران بنیادی طور پر چین کے آس پاس مرکوز ہو۔ پھر کواڈ ممبر کے طور پر بھی ہندوستان فطری طور پر چین کے خلاف مہم میں پھنس سکتا ہے۔ حالاں کہ یوکرین میں ہم ہندوستان کا بدلا ہوا کردار دیکھ چکے ہیں جس میں وقتاً فوقتاً ہندوستان نے روس اور امریکہ کے بغیر دباؤ میں آئے اپنی شرائط پر حمایت کی ہے۔
جس ’ون چائنا پالیسی‘ کے سلسلہ میں چین امریکہ پر اپنی بھڑاس نکال رہا ہے، وہ ہندوستان اور چین کے رشتوں میں بھی گانٹھ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ حالاں کہ ہندوستان نے سال 1949سے بیسویں صدی کی شروعات تک اس پالیسی پر عمل کیا جس میں تائیوان کو چین کا ہی حصہ ماننے اور اس سے صرف تجارت اور ثقافتی تعلقات رکھنے تک کا اتفاق تھا۔ لیکن پھر سال 2008کے بعد سے ہندوستان نے اپنے سرکاری بیانات اور مشترکہ اعلانات میں اس سے دوری اختیار کرلی۔ اروناچل پردیش میں دراندازی کی چین کی کوششیں اور جموں و کشمیر کے ساتھ ہی اروناچل پردیش کے ہندوستانی شہریوں کو اس کا ’اسٹیپل ویزا‘ جاری کرنا اس کی وجہ بنا۔ اس وقت کی حکومت کی سوچ منطقی تھی کہ اگر چین ہماری حساسیت کا احترام نہیں کرسکتا تو وہ ہندوستان سے اپنے فائدہ والی پالیسی کی حمایت کا اخلاقی حق بھی نہیں رکھتا۔ اگر چین چاہتا ہے کہ ہندوستان ون چائنا پالیسی کو تسلیم کرے تو پہلے اسے ایک ہندوستان کے اصول کا احترام کرنا ہی ہوگا۔ اس لیے سال 2008کے بعد کے برسوں میں دونوں ممالک کے سربراہوں کی میٹنگوں میں اس پالیسی کا ذکر نہیں ملتا ہے۔
تازہ معاملہ میں بھی حکومت ہند نے کسی ردعمل کا اظہار کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ حالاں کہ کانگریس ممبرپارلیمنٹ منیش تیواری نے ضرور لوک سبھا صدر اوم برلا کو لیٹر لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ اسپیکر کی قیادت میں ہندوستانی ممبران پارلیمنٹ کے ایک وفد کو بھی تائیوان کا اسی طرح دورہ کرنا چاہیے۔ لیکن پیلوسی کے دورہ کے بعد اس علاقہ میں بڑھتی کشیدگی اس بات کا انتباہ بھی ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں، امریکہ اور چین کے درمیان کی لڑائی میں ہندوستان کے لیے محتاط رہنے کی کئی وجوہات ہیں۔ چین اور امریکہ کی آپسی رسہ کشی اس علاقہ میں ہتھیاروں اور فوجی سازو سامان کی ذخیرہ اندوزی کو بڑھاوا دے سکتی ہے جو کاروبار کے ساتھ ساتھ علاقائی امن کے لیے بھی بڑا خطرہ ہوگی۔ جغرافیائی نزدیکی کے سبب ہندوستان پر اس کا راست اثر پڑنے کا خدشہ ہے۔
یہاں یہ احتیاط برتنا بھی ضروری ہے کہ انڈو-پیسفک خطہ میں ہندوستان سمیت کسی بھی ملک کے لیے جدوجہد کی حمایت کا کوئی بھی تاثر پہلے سے ہی آگ لگانے والے حالات کو اور بھڑکانے کا خطرہ پیدا کرے گا۔ امریکہ کے سلسلہ میں اپنی بیان بازی میں جارحانہ نظر آرہے چین نے اب تک کی جوابی کارروائی میں تائیوان پر ہی اپنی توجہ زیادہ مرکوز کی ہے۔ ویسے بھی امریکہ کو فوجی انتباہ دینے میں نہ تو جغرافیائی اور نہ ہی فوجی صلاحیتیں چین کے حق میں ہیں۔ ایسے میں چین کے لیے سب سے آسان کام اپنی کھسیاہٹ ایشیا پیسفک کے ممالک پر نکالنا ہوگا جیسا وہ تائیوان کے ساتھ کرتا آیا ہے۔ ہندوستانی تناظر میں ایل اے سی پر چین مسلسل دراندازی کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔ ایسے میں فی الحال تائیوان پر ہندوستان کا کچھ بھی بولنا ’ہوم کرتے ہاتھ جلانے‘ والی حالت میں بدل سکتا ہے۔ بیشک ہندوستان کو تائیوان کے ساتھ معاشی اور کاروباری تعلقات کے ساتھ ہی سیاسی تعلقات کو بھی مضبوط کرنا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں چین کو ہم پر حاوی نہ ہونے دینے کے تئیں محتاط بھی رہنا ہوگا۔ دھمکائے جانے اور دھمکی دینے کے لیے اکسائے جانے میں فرق ہوتا ہے اور فی الحال ہندوستان اس معاملہ میں خاموش رہ کر ان دونوں صورت حال سے بچنے کی سمجھداری کا مظاہرہ کررہا ہے۔
جن پنگ اور بائیڈن اس کے بالکل برعکس کررہے ہیں۔ دونوں جانب سے ہورہی کشیدہ بیان بازی ان کے ہی مواقع کو محدود کررہی ہے۔ چین کی بیان بازی ایسے اشارے دے رہی ہے جیسے وہ تائیوان کے معاملہ میں ریت پر ایک لکشمن ریکھا کھینچ دینا چاہتا ہے جو امریکہ سمیت دنیا کو صاف صاف نظر آجائے۔ حالاں کہ امریکہ اور ہندوستان سمیت کئی دیگر ممالک کے سفارت کار ماضی میں تائیوان کے دورے کرچکے ہیں، لیکن پیلوسی کے دورہ سے متعلق تنازع ان کی سینئرٹی کے سبب ہے جسے چین اکسائے جانے کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ پیلوسی 1997کے بعد سے تائیوان کا دورہ کرنے والی پہلی امریکی اسپیکر ہیں۔ چین میں اگلے ماہ چائناکمیونسٹ پارٹی کا بڑا جلسہ بھی ہونے والا ہے۔ ایسے میں پیلوسی کے دورہ سے پہلے امریکہ کو نتائج بھگتنے کی دھمکی دینے کے بعد جن پنگ انتظامیہ اگر دورہ ہوجانے کے بعد کچھ نہیں کر پاتا ہے تو یہ اس کے لیے اس جلسہ میں شرمناک صورت حال کی وجہ بنے گا۔ بائیڈن کے اپنے مسائل ہیں۔ امریکہ میں وسط مدتی انتخابات کی آہٹ کے درمیان انہیں چین پر اپنی سختی کے قول کو عمل میں بدل کر دکھانے کا زبردست دباؤ ہے۔ لیکن دونوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ان کی گھریلو سیاست سے کہیں زیادہ بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ دنیا پہلے ہی یوکرین میں چل رہی جنگ سے نبردآزما ہے۔ ایسے میں دونوں طرف سے ایک چھوٹی سی غلطی بھی تائیوان میں سات دہائی کے امن میں خلل ڈال کر دنیا کو اور شدید بحران کی جانب دھکیل سکتی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)