ستاروں سے آگے جہاں اوربھی ہیں ‘ کے تصور کوحقیقت میں ڈھالنے والے سائنس دانوں اور ماہرین نے دنیا کو آج ترقی کی ان منزلوں پر پہنچا دیا ہے جن کے آگے انسان اور انسانیت فرو ترہوکر رہ گئی ہے۔ مصنوعی ذہانت، روبوٹس، جدید ترین ٹیکنالوجی، ڈرون تکنیک، 5جی تکنیک ا وراس قبیل کی تمام جدید ترین ایجادا ت اور اختراعات نے دنیا میں جہاں افرادی قوت کی ضرورت کو ختم کردیا ہے، وہیں سماجی، معاشی اور معاشرتی انتشار برپا کرنے کے ساتھ ساتھ تخریب کے نئے نئے راستے بھی کھول دیے ہیں۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ جدید تکنالوجی زندگی کو بہتر بنانے، انسان کی سہولتوں اورا نسانی کاوشوں میں ممد و معاون ہے لیکن موجودہ زمانے میں جدید تکنیک کے منفی استعمال نے انسانیت کو ہی خطرہ سے دوچار کردیا ہے۔ جدیدتکنیک کے ہونے والے نئے نئے منفی استعمال حکومتوں اور ریاستوں کے ساتھ فرد کیلئے بھی تشویش کا باعث ہیں۔
دہشت گردانہ حملوں، آئی ای ڈی دھماکوں، بسوں، ٹرینوں اور بھیڑ بھاڑ کے علاقوں میں بم دھماکوں، میدانی اور جنگلاتی علاقوں میں بارودی سرنگ جیسی تخریبی کارروائیوں کا بارہا شکار رہنے والا ہندوستان اسی جدید تکنالوجی کے سبب اب ایک نئے طرح کے خطرات کا سامنا کررہا ہے اور وہ خطرہ ہے ڈرون سے ہونے والے حملوں کا۔جموں کے ہائی سیکورٹی زون جموں ائیر پورٹ کمپلیکس میں واقع ایئر فورس اسٹیشن کے باہر ڈرون دھماکے کے بعدبھی لگاتار تین دنوں سے ڈرون چکر لگاتے ہوئے دیکھاجارہا ہے۔
اطلاعات بتاتی ہیں کہ جموں کے مختلف ملٹری اسٹیشنوں کے ارد گرد اتوار اور پیر کی دیر رات میں یہ ڈرون دیکھے گئے اور اس کے کچھ ہی دیر بعد غائب ہوگئے۔ لگاتار تین دنوں تک ڈرون کا اس ہائی سکیورٹی زون میں دیکھاجانا خطرہ کی سنگینی کو مزید بڑھا رہا ہے۔اس سے قبل ہفتہ کی دیر رات جموں میں واقع فضائیہ کے ٹیکنیکل ایریا میں ڈرون کا استعمال کرتے ہوئے دو بم گرائے گئے۔ ہر چند کہ کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا لیکن اس نے خطرہ کی ایک سنگین صورتحال ضرور پیدا کردی ہے۔سکیورٹی ایجنسیاں ہائی الرٹ پر ہیں اوراس بابت تفتیش بھی کررہی ہیں کہ لگاتار تین دنوں تک وقفہ وقفہ سے چکر لگانے والے یہ ڈرون کہاں سے آئے تھے، کیوں بھیجے گئے تھے اور کیا ان کا ہدف کوئی دوسرا ٹھکانہ بھی ہے۔ معاملہ کی سنگینی کے پیش نظر اس کی تفتیش کی باقاعدہ ذمہ داری نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے ) کے حوالے کردی گئی ہے۔اس تفتیش کے کیا نتائج ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ہندوستان کو اس نئے خطرے کے سد باب کیلئے تکنیکی اعتبار سے بھی اتنا ہی مستحکم ہونا ہوگا جتناابھی فوجی اعتبار سے ہے۔
ہندوستان میں بھلے ہی ڈرون کا یہ پہلا حملہ ہو لیکن بعض ممالک میں دشمنوں پر حملہ کیلئے اس تکنالوجی کا استعمال عرصہ سے کیا جارہا ہے۔بعض ممالک نے تو اپنے دشمنوں کے اڈوں پر بموں کی برسات بھی ان ہی ڈرون سے کی ہے۔ عراق اور اس سے قبل افغانستان میں بھی امریکہ نے ڈرون کا ہی استعمال کیا تھا۔اس کے بعد سے یہ ڈرون تکنالوجی شدت پسند تنظیموں کے ہاتھ بھی لگی اور وہ بھی ان کا استعمال کرکے اپنے مخالفین کو دہشت زدہ کرتے رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور روس کی نوآزاد ریاستوں میں بھی بعض میں ڈرون حملوں کے واقعات ہوچکے ہیں۔
ہندوستان میں جموں ڈرون حملہ کے بعد یہ اندیشہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ شدت پسند تنظیمیں مسافر بردارطیاروں اور اہم شخصیات کے قافلوں پر بھی حملہ کرسکتی ہیں جس سے ملک کوبھاری نقصان کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔
ابھی تک ہم جنگی جہازوں،میزائلوں سے ہونے والے حملوں، مختلف طرح کے بم دھماکوں سے نمٹتے رہے ہیں اور اس کے انسدادکی حکمت عملی بناتے رہے ہیں لیکن فوٹو گرافی، سامانوں کی ترسیل اور نگرانی کیلئے استعمال ہونے والے ڈرون کے حملوں کا ہمیں اندازہ نہیں تھا اور یہ ڈرون حملے ہندوستان کیلئے بالکل ہی نئی طرز کے حملے ہیں۔شاید اسی لیے ان کے انسداد کا کوئی اب تک تیربہدف انتظام نہیں کیا جاسکا ہے۔ ڈرون کے بہت چھوٹے اور کم اونچائی پر ا ڑنے کی وجہ سے رڈرا کے ذریعہ انہیں ٹریس اور ٹریک کیا جانا مشکل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرون حملوں کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔
خبر ہے کہ ڈی آ رڈی او نے دو اینٹی ڈرونس سسٹم بنائے ہیں جن میں ایک کی رینج دو کلومیٹر اور دوسرے کی ایک کلومیٹر ہے لیکن ابھی یہ ابتدائی دور میں ہیں۔جموں میں ڈرون حملے سے سبق لیتے ہوئے اب ہمیں فوری چوکس ہوکر اس طرح کے خطرے سے نمٹنے کی کوششوں میں تیزی لانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ڈرون کی خرید و فروخت اوراس کی لائسنسنگ کا بھی معقول انتظام کیاجانا چاہیے۔ جدید تکنیک کے تخریبی استعمال سے ہندوستان کو محفوظ رکھنے کیلئے بھی تکنیک کا ہی سہارا لینا ہوگا اورگربہ کشتن روزاول کے مصداق ابتدائی دور میں ہی اس پر قابو پانا ہندوستان کیلئے لازمی ہے۔
[email protected]
ڈرون حملوںکا نیا خطرہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS