مرکزی حکومت نے ایک بار پھر عوام کو اعداد و شمار کے سبز باغ دکھاتے ہوئے ’’ایمپلائمنٹ لنکڈ انسینٹیو (ELI)‘‘ کے نام سے ایک نئی اسکیم کا اعلان کر دیا ہے۔ اگرچہ اس کا خول نیا دکھائی دیتا ہے،لیکن اندر کا ڈھانچہ وہی پرانا اور فرسودہ ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے نوجوانوں کے جذبات سے کھیلنے کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے زیر صدارت گزشتہ دنوں ہوئے اجلاس میں کابینہ نے اس اسکیم کو گویا ایک معجزاتی نسخے کی طرح پیش کیا ہے،جس سے دو سال کے اندر اندر ساڑھے تین کروڑ ملازمتوں کی فصل اگنے کی نوید دی جا رہی ہے۔ لیکن اگر اس منظر کو حقیقت کی عینک سے دیکھا جائے تو یہ اعلان نہ صرف بے بنیاد وعدوں کا پلندہ ہے بلکہ معاشی بدانتظامی،سرمایہ دار نواز پالیسیوںاور عوامی اعتماد کے ساتھ ایک سنگین خیانت بھی ہے۔
وزیر اطلاعات و نشریات اشونی وشنو نے اس اسکیم کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ایک تاریخی اقدام ہے جو نہ صرف نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے گا بلکہ ملک کی افرادی قوت کو باقاعدہ اور محفوظ دائرے میں لائے گا۔ ELI اسکیم کے تحت پہلی بار کام کرنے والے نوجوانوں کو 15 ہزار روپے تک ماہانہ اجرت کی ادائیگی ہوگی،جب کہ آجرین کو بھی اضافی ملازمین کیلئے دو سال تک مراعات دی جائیں گی۔ خاص طور پر مینوفیکچرنگ سیکٹر کو مزید دو سال کی توسیع کے ساتھ اضافی سہولتیں دی جائیں گی۔
یہ بیان سننے میں خوشنما ضرور ہیں،مگر زمینی حقیقت ان کے برعکس ہے۔ پچھلے تمام دعوے،چاہے وہ 15لاکھ کا ہو، 2 کروڑ نوکریوں کا ہو یا 5ٹریلین ڈالر کی معیشت کا،آج تک صرف سیاسی نعرے ہی ثابت ہوئے۔ لہٰذا اشونی وشنو کی یہ وضاحتیں بھی محض بیانات کی فہرست میں ایک نیا اضافہ ہیں، جن کا انجام بھی سابقہ وعدوں جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
یہ اسکیم درحقیقت گزشتہ سال کے مکمل بجٹ میں ’’وزیراعظم کے پیکیج‘‘ کے تحت محض کاغذی شکل میں موجود تھی، جسے اچانک اس وقت زندہ کر دیا گیا جب ملک کی کچھ کلیدی ریاستیں،بشمول بہار،انتخابی بخار میں مبتلا ہونے والی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت واقعی نوجوانوں کے روزگار کے تئیں سنجیدہ ہوتی تو گزشتہ مالی سال میں ہی اس پر عمل درآمد کیوں نہ کیا گیا؟ دو لاکھ کروڑ کے بجٹ میں سے مخصوص رقم مختص بھی کی گئی،مگر زمین پر کچھ نہ اترا۔ اب جبکہ انتخابی موسم کی آہٹ سنائی دے رہی ہے تو یہ اسکیم ایک پرفیوم کی طرح سامنے لائی گئی ہے،تاکہ بدبودار اقتصادی سچائیوں کو وقتی طور پر خوشبودار کر دیا جائے۔
معاشی پالیسی کی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت نے گزشتہ دس برسوں میں کارپوریٹ مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے عام مزدور،نوجوان اور متوسط طبقے کو روز بروز پستی میں دھکیلا ہے۔ لیبر قوانین کو اس طرح مسخ کیا گیا ہے کہ آج کا مزدور نہ تو سماجی تحفظ کا مستحق رہا ہے،نہ ہی اسے کام کے اوقات کی کوئی ضمانت حاصل ہے۔ مستقل روزگار کی جگہ کنٹریکٹ کلچر نے لے لی ہے۔ آجر کی لاگت کو کم کرنے کے نام پر مزدور سے دوگنا کام لیا جا رہا ہے اور اجرت نصف سے بھی کم دی جا رہی ہے۔ اور اب ان ہی آجرین کو ELI اسکیم کے تحت ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ مزدور رکھیںمگر اس شرط پر کہ ان کی تنخواہیں بھی حکومت دے گی اور ان کے سماجی تحفظ کی ذمہ داری سے بھی وہ بری ہوں گے۔
اس سے بڑا تضاد اور کیا ہوگا کہ جو حکومت ماضی میں ’’میک ان انڈیا‘‘،’’اسکل انڈیا‘‘ اور’’اپرنٹس شپ‘‘ جیسے پرشور نعروں کے باوجود روزگار کے میدان میں بری طرح ناکام رہی،وہ اب ایک نئی اسکیم سے معجزات کی توقع کر رہی ہے۔ ELI اسکیم دراصل اعداد و شمار کی شعبدہ بازی ہے،جو 2سال تک مالکوں کو سرکاری خزانے سے سبسڈی دے کر نوکریاں دلائے گی،تاکہ اگلے انتخابات میں مودی جی ’’تین کروڑ نوکریوں‘‘ کی جھوٹی فتح کا ڈھول پیٹ سکیں۔ ان نوکریوں کا کوئی تسلسل نہیں،کوئی پائیداری نہیںاور کوئی تحفظ نہیں،بس ایک وقتی شور ہے،ایک عارضی دلفریبی، جو بالآخر نوجوانوں کو مزید مایوسی اور نظام کو مزید کھوکھلا پن عطا کرے گی۔
پالیسی کا اصل ہدف نہ تو روزگار پیدا کرنا ہے،نہ مزدور کی فلاح،بلکہ وہی آزمودہ نسخہ ہے یعنی سرکاری خزانے کی دولت سے کارپوریٹ جیبوں کو بھرنا،تاکہ سرمایہ دار خوش اور اقتدار محفوظ رہے۔ اس سارے ہنگامے کے بیچ بے روزگار نوجوانوں کو ایک بار پھر ان کے خوابوں کی لاش پر سیاسی بینر اوڑھا دیا جائے گا۔ حکومت کی نگاہ میں روزگار اب ایک معاشی مسئلہ نہیں رہا،بلکہ ایک انتخابی ہتھیار بن چکا ہے۔ اور جب ریاستی ذمہ داری کو انتخابی مفاد کی بھٹی میں جھونک دیا جائے تو وہاں سے نہ خوشحالی نکلتی ہے،نہ انصاف،بلکہ صرف دھوکہ اورصرف فریب ہی ملتا ہے۔
ایسے میں سوال یہ نہیں کہ ELI اسکیم کیا دے گی،بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک ان وعدوں کی چراگاہ میں بھٹکتے رہیں گے،جہاں ہر بار ایک نئی سبز چادر بچھا دی جاتی ہے، لیکن زمین کے اندر صرف خشک مٹی اور اوپر سے فقط سیاسی شعبدہ بازی؟ ملک کے نوجوانوں کو وقتی ترغیبات نہیں، مستقل تحفظ،منصفانہ اجرت اور باعزت روزگار کی ضرورت ہے جس کیلئے محض اسکیمیں نہیں،بلکہ نظام میں انقلابی تبدیلی درکار ہے۔ بصورت دیگر،ہر نئی اسکیم محض ایک نیا سراب ہوگی اور ہر خوشخبری ایک نئے زخم کی تمہیدثابت ہوگی۔