انومِتا رائے چودھری
صاف آب و ہوا کے لیے طے موجودہ کم سے کم معیارات پر عالمی برادری سنجیدگی سے عمل کرتی، اس سے پہلے ہی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) نے صحت عامہ کے حفاظت کے معیار سخت کردیے ہیں۔ بدھ کے روز جاری اپنی نئی ایئرکوالٹی گائیڈلائنس میں تنظیم نے محفوظ ہوا کے پیمانوں کا پھر سے تعین کیا ہے۔ اس سے پہلے 2005میںان میں ترمیم کی گئی تھی۔ نئی ہدایات کے مطابق ابھی عالمی آبادی کا 90فیصد حصہ اور ہندوستان میں تقریباً صدفیصد لوگ ایسی ہوا میں سانس لے رہے ہیں جو ڈبلیو ایچ او کے معیار پر کھری نہیں اترتی ہے۔
بہرحال ان ہدایات میں سب سے زیادہ توجہ پارٹیکولیٹ میٹر(پی ایم)، یعنی سالمہ ذرّات(نیوکلیئر پارٹیکلس) پر دی گئی ہے۔ یہ پوری دنیا میں فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔ تقریباً70لاکھ اموات اکیلے اسی وجہ سے ہوتی ہیں۔ نئی ہدایات میں پی ایم-2.5(جن سالمہ ذرّات کا سائز 2.5مائیکرومیٹر سے کم ہوتا ہے) کی سالانہ حد 10مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے کم کرکے پانچ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کردی گئی ہے۔ اس کے 24گھنٹہ کا اوسط بھی 2.5مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے کم کرکے 15مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کردی گئی ہے۔ پی ایم-10)جن ٹھیک ذرّات کا سائز10مائیکرومیٹر سے کم ہو) کے لیے بھی سالانہ اور 24گھنٹے کی اوسط حد میں پانچ-پانچ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کی کمی کی گئی ہے۔
اہم گیسوں کے لیے بھی ہدایات میں ترمیم کی گئی ہے۔ مثلاً نائٹروجن ڈائی-آکسائڈ کی سالانہ حد2005کے مقابلہ چار گنا کم کردی گئی ہے اور اسے 40مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے کم کرکے 10مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کردیا گیا ہے۔ اس مرتبہ 24گھنٹے کی گائیڈلائن بھی جاری کی گئی ہے اور اس کے لیے 25مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کی حد طے کی گئی ہے۔ اسی طرح اوزون کے لیے8گھنٹے کا معیاری کالعدم 100مائیکروگرام فی کیوبک میٹر ہے، لیکن پیک سیزن کی حد طے کرتے ہوئے اسے 60 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کردیا گیا ہے۔ کاربن مونوآکسائیڈ کا معیار بھی کالعدم 4 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر رکھا گیا ہے۔ حالاں کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ نئی ہدایات میں سلفرڈائی آکسائیڈ کے سالانہ معیار کا ذکر نہیں ہے، جب کہ یہ سلفر سے بھرپور ایندھن کے استعمال سے سیدھے سیدھے وابستہ ہے۔ ان ایندھنوں میں کوئلہ اور دیگر صنعتی ایندھن بھی شامل ہیں جو ترقی پذیر ممالک میں بڑے پیمانہ پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہاں، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس مرتبہ پارٹیکولیٹ میٹر کی دیگر اشکال(جیسے بلیک کاربن یا ایلیمینٹل کاربن، الٹرافائن پارٹیکلس اور ریت یا دھول بھری آندھی سے پیدا ہونے والے ذرّات) کے تعلق سے بھی ہدایات جاری کی ہیں۔
ان ہدایات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ فضائی آلودگی سے ہونے والے نقصان کا جو اندازہ ماضی میں کیا گیا تھا، اب اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سبھی ممالک اپنے یہاں ان خطرات کو کم کرنے کے طریقوں میں تیزی لائیں۔ مگر ’اسٹیٹ آف گلوبل ایئر رپورٹ، 2020‘ کے مطابق 2019میں دنیا کے تمام حصوں میں ہوا کے معیار میں بہتری کے لیے بہت کم یا برائے نام کام ہوئے۔ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں تو حالات کالعدم خطرناک ہیں۔ رہی بات ہندوستان کی، تو نئی ہدایات ہندوستان کی ہوا کی کوالٹی کے معیارات پر دوبارہ غور کرنے اور اس میں فوری ترمیم کی ضرورت بتارہی ہیں۔ مثلاً پی ایم-2.5کے لیے ہندوستان کا سالانہ اوسط معیار40مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر ہے، جو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے معیار سے 8گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح 24گھنٹے کا معیار بھی یہاں چار گنا زیادہ 60مائیکروگرام فی کیوبک میٹر ہے۔
لینسیٹ کی ریسرچ بتاتی ہے کہ ایک لاکھ کی آبادی کی موت کے پیمانہ پر اگر تحقیق کی جائے تو پارٹیکولیٹ آلودگی کے سبب صحت کو خطرہ کم و بیش پورے ملک میں ایک جیسا ہے۔ واضح ہے، اپنے یہاں پبلک ہیلتھ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ حالاں کہ اس کو اب بھی حل کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات کے مطابق، ہندوستانی معاشرہ کے کمزور طبقوں پر عدم مساوات اور بلاجواز اثرات کو دور کرنے کی ٹھوس حکمت عملی اپنائے۔
ظاہر ہے، ڈبلیو ایچ او کی نئی ہدایات نے ہندوستان کے لیے اَن کنفرٹیبل پوزیشن پیدا کردی ہے، وہ بھی تب، جب سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ نے ہندوستانی معیارات کے جائزہ کا عمل شروع کردیا ہے۔ لہٰذا اس کا جواب آسان نہیں ہے کہ جنوبی ایشیا اور خاص طور پر ہندوستان پی ایم-2.5کے پانچ اور 15مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کے مشکل ہدف کو کس طرح سے پاسکے گا؟
ماہرین مانتے ہیں کہ یہاں کے موسم و آب و ہوا سے متعلق صورت حال پیچیدہ ہے، جن میں دھند، آسمان چھوتی عمارتوں و بنیادی ڈھانچہ کی وجہ سے مخصوص علاقہ میں بڑھتے درجۂ حرارت اور انتہائی آلودگی سے چیلنجز میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ آلودگی پھیلانے والی سرگرمیوں کو روک بھی دیں تب بھی صرف قدرتی عمل(Natural Processes)سے ہوا میں کافی زیادہ قدرتی کاربونک ایروسول یعنی مائیکرواسکوپک مائع بوندیں (Microscopic Liquid Droplets) بنتی ہیں۔ ان سب کے علاوہ مختلف ذرائع سے ہونے والے اخراج اور چولہے پر کھانا پکانے جیسے subsistence processes سے پیدا ہونے والی آلودگی پر بھی کنٹرول کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ آلودگی کو ہم کس حد تک کم کرسکتے ہیں؟ فی الحال تو یہ چیلنج ہے کہ ملک کے تمام کونوں میں نیشنل ایئر کوالٹی اسٹینڈرس ہر حال میں نافذ کیے جائیں۔ وبا کے دوران لاک ڈاؤن میں ہم نے آلودگی میں قابل ذکر کمی دیکھی تھی جو مقامی آلودگی اور علاقائی اثرات کو کم کرنے کے سبب ممکن ہوسکی تھی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اگر مقامی سطح پر سخت قدم اٹھائے جائیں تو مشکل سے مشکل ہدف بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ(سی ایس ای) کی ریسرچ بتاتی ہے کہ بہتر ہوا کی کوالٹی کے معیارات کو پورا کرنے والے دنوں کی تعداد2020میں اچھی خاصی بڑھ گئی تھی۔
ہندوستان میں جغرافیائی-آب و ہوا کا اثر بھی پڑتا ہے جو مقامی سطح پر آلودگی کے پیمانہ کو بڑھانے کا کام کرتا ہے۔ آلودگی کے ذرائع کے تیزی سے پھیلاؤ اور ہوا کی کوالٹی کے کمزور مینجمنٹ سسٹمز کے سبب یہاں صورت حال سنگین ہوگئی ہے۔ ایسے میں ہوا کی کوالٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں علاقائی نظریہ پر کہیں زیادہ فوکس کرنا ہوگا۔ لینسیٹ کی ریسرچ بتاتی ہے کہ ایک لاکھ کی آبادی کی موت کے پیمانہ پر اگر تحقیق کی جائے تو پارٹیکولیٹ آلودگی کے سبب صحت کو خطرہ کم و بیش پورے ملک میں ایک جیسا ہے۔ واضح ہے، اپنے یہاں پبلک ہیلتھ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ حالاں کہ اس کو اب بھی حل کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات کے مطابق، ہندوستانی معاشرہ کے کمزور طبقوں پر عدم مساوات اور بلاجواز اثرات کو دور کرنے کی ٹھوس حکمت عملی اپنائے۔
(مضمون نگار سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)