جی-7 سربراہ اجلاس 2025 کے دوران وزیراعظم نریندر مودی اور کناڈا کے نو منتخب وزیراعظم مارک کارنی کی ملاقات بظاہر ایک سفارتی پیش رفت ہے، لیکن اگر اس ملاقات کو بین السطور پڑھا جائے تو یہ محض تصویر کی ایک خوشنما جھلک ہے، جس کے پیچھے عالمی سیاست کی تلخ حقیقتیں، مفادات کی کشمکش اور اخلاقی دیوالیہ پن کی ایک بدنما داستان چھپی ہے۔
18 جون 2025 کو کناڈا کے کناناسکس ریزورٹ میں ہوئی یہ ملاقات ان سفارتی روابط کی بحالی کی جانب پہلا قدم بتائی جا رہی ہے، جو ستمبر2023 میں اس وقت منقطع ہوگئے تھے جب کناڈا کے سابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں ہر دیپ سنگھ نجار کے قتل کا الزام ہندوستان پر عائد کر کے بین الاقوامی تعلقات میں زہر گھول دیا تھا۔ دونوں ملکوں نے سفارت کار نکالے، ویزا خدمات معطل ہوئیں اورہندوستان کی حکومت نے واضح الفاظ میں کناڈا پر علیحدگی پسند خالصتانی عناصر کو تحفظ دینے کا الزام عائد کیا۔ اس کے بعد تقریباً بیس ماہ تک دونوں ممالک سفارتی سرد جنگ کا شکار رہے۔
اب مارک کارنی،جنہیںمارچ 2025 میں وزارت عظمیٰ سونپی گئی، نہ صرف وزیراعظم مودی کو جی-7 سربراہ اجلاس میں مدعو کرتے ہیں بلکہ سفارتی تعلقات کی مکمل بحالی اور نئے ہائی کمشنرز کی تعیناتی کا اعلان بھی ہوتا ہے۔ بظاہر یہ دوستی کا نیا باب ہے، مگر درپردہ کئی سیاسی اضطرابات چھپے ہوئے ہیں۔ مارک کارنی کی مودی سے گرمجوشی خالصتان نواز حلقوں میں شدید تنقید کا نشانہ بنی ہے اور یہی وہ دو رخی سیاست ہے جس پر کناڈا کی حکومت فخر بھی کرتی ہے اور خجل بھی نہیں ہوتی۔
اس ملاقات کو میڈیا تاریخی قرار دیتا ہے، لیکن اسی اجلاس کے دوران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا اچانک اجلاس سے چلے جانا، فرانسیسی صدر میکروں کی تنقید اور ٹرمپ کا اشتعال انگیز جواب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جی-7 اندرونی خلفشار اور عدم اتفاق کا شکار ہے۔ ٹرمپ، جنہوں نے اسرائیل-ایران جنگ بندی کی بات کو لغو قرار دے کر واشنگٹن واپسی کی وجہ خفیہ رکھی، جی-7 کے اخلاقی بیانیے کو بیک جنبش قلم بے وقعت کر دیتے ہیں۔ ان کے بقول’’ایمینوئل ہمیشہ غلطی کرتا ہے‘‘ ایک ایسا جملہ ہے جو نہ صرف سفارتی آداب کی تضحیک ہے بلکہ جی-7 کی ساکھ پر بھی ایک زناٹے دار طمانچہ ہے۔
جی-7 اجلاس کا رسمی ایجنڈا ’’امن، اقتصادی ترقی اور ڈیجیٹل فروغ‘‘ تھا لیکن جب روس-یوکرین جنگ، اسرائیل کا فلسطین پر حملہ اور ایران کے ساتھ کشیدگی جیسے سلگتے مسائل سامنے ہوں تو یہ تمام نعرے کھوکھلے دکھائی دیتے ہیں۔ اعلامیہ میں اسرائیل کے ’دفاع کے حق کو تسلیم کرنا اور ایران کوعلاقائی عدم استحکام کا ماخذ قرار دینا سفارتی دوغلا پن کی انتہا ہے۔ اگر اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے تو کیا ایران اور فلسطین کو نہیں؟ اگر امن مطلوب ہے تو صرف ایران کو دبائو میں لا کر کیونکر ممکن ہوگا؟ یہ طرزفکر خود جی-7 کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب دنیا کی28.4 فیصد جی ڈی پی کے مالک یہ ممالک خود اندرونی خلفشار کا شکار ہیں۔ ایک طرف فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ امریکی پالیسیوں سے نالاں ہیں تو دوسری جانب خود امریکہ میں قیادت کا بحران، پاپولزم کی لہر اور ٹرمپ جیسے رہنمائوں کی واپسی کی بازگشت اس’اجتماع اقتدار‘ کو انتشار میں بدل رہی ہے۔ جی-7 کی یہ حالت اس بات کی غماز ہے کہ اب یہ گروپ نہ تو عالمی قیادت کا اہل رہا ہے اور نہ ہی اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھ سکا ہے۔
وزیراعظم مودی کی ملاقات اگرچہ ہندوستان اور کناڈا کے درمیان اعتماد بحال کرنے کی کوشش ضرور ہے، مگر کناڈا کی سرزمین پر ان کے خلاف احتجاج،ہندوستانی سفارت خانے کے باہر مظاہروں کی اجازت اور سکھ علیحدگی پسندوں کیلئے نرم گوشہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ حالات محض رسمی مسکراہٹوں سے بہتر نہیں ہونے والے۔ مارک کارنی کی نرمی ہو یا جی-7 کی میزبانی، اصل قوتیں وہی ہیں جو اپنے مفادات کیلئے کسی بھی اصول، معاہدے یا اخلاقی قدر کو روندنے سے گریز نہیں کرتیں۔
یہ اجلاس دراصل اس عہد کی علامت ہے جہاں دنیا کے بڑے ممالک صرف اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں، باقی دنیا کو صرف شراکت دار کے پردے میں استحصال کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جی-7 جیسا ادارہ اب ترقی پذیر دنیا کیلئے قابل بھروسا نہیں رہا۔ یہ اجلاس ایک متکبر، منقسم اور خودغرض دنیا کی عکاسی کرتا ہے، جہاں امن کی بات محض سفارتی ڈھونگ ہے اور تعلقات کی بحالی صرف وقتی مفادات کا تحفظ۔ اور یہی اصل عالمی بحران ہے جس کا حل جی-7 کے پاس نہیں، شاید کسی کے پاس نہیں۔