مہاکمبھ میں 29جنوری کو مونی اماوسیہ کے موقع پر جو بھگڈر مچی تھی، جس میں 30عقیدت مندوں کی موت ہوگئی تھی اور 17دنوں بعدہفتہ کی شب میں نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر وہی واقعہ پیش آیااوراس میں 18 لوگوں کی موت ہوگئی ۔ دونوں واقعات میں فرق صرف یہی ہے کہ پہلا واقعہ کمبھ پہنچ کر ہوااوردوسرا واقعہ کمبھ کی روانگی سے پہلے پیش آیا ۔ایسالگتاہے کہ پہلے واقعہ سے انتظامیہ نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ وہی لاپروائی ، بدانتظامی اورکرائوڈمینجمنٹ کی کمی دیکھنے کو ملی ۔عقیدت مندوں کی بھیڑ بڑھتی گئی اوراس کے حساب سے انتظامات بروقت نہیں کئے گئے ۔
ہمیشہ دیکھاجاتاہے کہ جب سانحہ پیش آجاتاہے ، توانتظامیہ حرکت میں آتی ہے ۔ حالات کو قابومیں کیا جاتاہے اور انکوائری کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ نہ کسی کی ذمہ داری طے کی جاتی ہے اورنہ جوابدہی ۔ انکوائری کی رپورٹ اور سفارشات پر کتناعمل ہوتاہے ، یہ بھی پتہ نہیں چلتا۔اسی سال بھگڈرکے 3واقعات پیش آچکے ۔اس سے پہلے بھی ملک بھرکے مندروںمیں مختلف مواقع پر بھگڈرمچی اور بڑی تعداد میں عقیدت مندوں کی موت ہوئی ۔اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اورکوئی بہتری نظرنہیں آتی ۔
جب نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگڈر مچ سکتی ہے ، تو اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ دیگر اسٹیشنوں پرکیا انتظامات ہوں گے ۔یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ مہاکمبھ میں اسنان کیلئے ملک بھر سے روزانہ لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند جارہے ہیں ۔ ان کا ریکارڈ بھی رکھاجارہاہے ، اسی کے حساب سے ہراسٹیشن سے اسپیشل ٹرینیں چلائی جارہی ہیں ، جو کھچاکھچابھری رہتی ہے ، بلکہ کمبھ کی وجہ سے دوسری ٹرینوں میںبھی بھیڑ رہتی ہے، ریزرویشن کا فائدہ عام مسافروں کونہیں پہنچ رہا ہے، ٹرینوں کی ساری بوگیاں جنرل جیسی نظرآتی ہیں ۔ایسااس لئے ہورہاہے کیونکہ لوگوں کو کمبھ لے جانے اوران کو واپس لانے کے صحیح انتظامات نہیں کئے جارہے ہیں ۔
جب لوگ اتنی بڑی تعداد میں روزانہ کمبھ جارہے ہیں ، تویہ کہناکہ اچانک بھیڑ بڑھ گئی ، جس کی وجہ سے حادثہ پیش آگیا ۔ یہ دلیل یا تاویل طفلانہ نظر آتی ہے ۔ پھر نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کا چپہ چپہ سی سی ٹی وی کیمرے کی نگرانی میں ہے اور مسافروں کی ہر حرکت کنٹرول روم کی نگرانی میں رہتی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ لوگ کمبھ جانے کیلئے ٹکٹ خرید رہے ہیں ، جن کا ریکارڈ کمپیوٹر پر رہتاہے ۔ یہ سارے ریکارڈ کس کام کے جب ان کے مطابق انتظامات نہ ہوں ؟ریلوے ٹکٹ فروخت کررہی ہے۔
بتایاجاتاہے کہ سانحہ کے دن ایک ایک گھنٹہ میں 1500-1500ٹکٹ فروخت ہورہے تھے اوران کو لے جانے کیلئے ٹرین کا پتہ ہی نہیں تھا ، وہ تاخیرسے آرہی تھی ،تو پلیٹ فارم اورٹرین کی گنجائش سے زیادہ ٹکٹوں کی فروخت کیوں ہوئی کہ پلیٹ فارم پر لوگوں کی اتنی بھیڑ جمع ہوگئی ، جسے کنٹرول نہیں کیا جاسکا ؟اگر ٹکٹ فروخت کردیا تھا، تو ٹرینوں کا انتظام کرنے تک ان کو پلیٹ فارم سے پہلے ہی روک دیا جاتا۔نہ آرپی ایف اورنہ ہی جی آرپی ایف یا اسٹیشن کے عہدیداران بھیڑ کو کنٹرول کرنے کیلئے پلیٹ فارم پر گئے ۔نہ ہی غیرمعمولی بھیڑکو کم کرنے کیلئے بروقت ٹرینوں کاانتظام کیا گیا ۔بتایاجاتاہے کہ اسپیشل ٹرین کا اعلان بھی کچھ اس طرح سے کیا گیا کہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہوکر ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم کی طرف بھاگنے لگے ۔ جب وہ بھاگنے لگے، تو ان کو روکا نہیں گیااوربھگڈر مچ گئی ۔کل ملاکر صرف ٹکٹ فروخت کرنے کا انتظام تھا، باقی مسافروں یا عقیدت مندوں کوسمجھانے کیلئے اس وقت تک کوئی عہدیدار آگے نہیں آیا ، جب تک بھگڈر سے لوگوں کی جانیں نہ چلی گئیں ۔قلیوں نے لوگوں کی مدد کی ۔
اتنی بھیڑ کے باوجود ناگہانی حادثات کیلئے ایمبولینس اورڈاکٹروں کا پیشگی انتظام نہیں کیا گیا۔اگر موقع پر ایسا انتظام ہوتا، تو کئی لوگو ں کی جانیں بچ جاتیں ، اورلوگوں کو پریشانی کاسامنانہیں کرناپڑتا،لیکن سارے انتظامات سانحہ کے بعد نظر آئے ۔ غورطلب امریہ ہے کہ سانحہ کے دوسرے دن بھی کمبھ کیلئے ٹرینوں پر چڑھنے کیلئے وہی دھکامکی نظرآئی ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انتظامات میں اب بھی کمی یا خامی ہے ، جسے دور کرنے کی ضرورت ہے ۔جہاں بہت زیادہ بھیڑکا امکان ہو ، وہاں حادثہ کا بھی امکان ہمیشہ رہتاہے ۔ اس لئے انتظامات بھی اسی کے حساب کئے جائیں اورانتظامیہ چاق وچوبندرہے ۔جیسے ہی انہونی کی کیفیت نظر آئے، حالات کو قابومیں کرنے کیلئے سرگرم ہوجائے ۔بھیڑ کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑناحادثات کودعوت دینے کے مترادف ہے ۔