نئی غلامی کی زنجیریں

0

ہندوستان کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ایک ہی منظر بار بار آنکھوں کے سامنے آتا ہے اوروہ ہے عوام کے مفادات کو تجارتی سودوں پر قربان کرنے کا منظر۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بادشاہوں کو فوجی مدد اور ذاتی سہولتوں کے خواب دکھائے، زمینیں ہتھیا لیں، قوانین من مانی طرز پر ڈھالے اور آخرکار پورے ملک کو غلامی کی زنجیرمیں جکڑ لیا۔ 200 برس کی وہ غلامی محض طاقت سے نہیں بلکہ لالچ،سودے بازی اور عوامی حقوق کی بے قدری سے ممکن ہوئی۔ آج افسوسناک طور پر تاریخ پھر اپنے آپ کو دہراتی دکھائی دے رہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ انگریزوں کی جگہ آج تاجر،سرمایہ دار اور صنعت کار ہیں اور بادشاہوں کی جگہ منتخب حکومتیں،جو عوام کے اعتماد کا سودا کر کے ملک کے وسائل چند سرمایہ داروں کے ہاتھ میں گروی رکھ رہی ہیں۔

بہار کے بھاگلپور ضلع کے پیرپینتی میں اڈانی گروپ کو دیا گیا پاور پلانٹ اسی سلسلے کی ایک زندہ اور واضح مثال ہے۔ یہ محض ایک پاور پروجیکٹ نہیں بلکہ نجکاری کے نام پر عوامی حقوق اور وسائل کی منظم لوٹ کاآئینہ ہے۔ 1020 ایکڑ زمین جو زرعی طور پر زرخیز ہے اور جہاں آم و لیچی کے لاکھوں درخت موجود ہیں،صرف ایک روپیہ سالانہ کے حساب سے 30 برس کیلئے اڈانی کو دے دی گئی۔ یہی نہیں،اس زمین پر لگے تقریباً دس لاکھ درختوں کی قربانی بھی طے ہو چکی ہے۔ کیا یہ سودا کسانوں کی محنت،ماحولیات کی بقا اور عوامی وسائل کی صریح توہین نہیں؟ حکومت نے زمین کو ’’بنجر‘‘ قرار دیا،حالانکہ حقیقت میں وہ بہار کی زرعی معیشت کی جان ہے۔

اڈانی گروپ نے بہار اسٹیٹ پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ کے ساتھ 25 سالہ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت 2400 میگاواٹ کا پاور پلانٹ لگایا جائے گا۔ تین بلین ڈالر یعنی تقریباً 26,482 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی بات ہو رہی ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 12 ہزار افراد کو روزگار ملے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سرمایہ حکومت کیوں نہیں لگا سکتی؟ جب نتیش کمار دو دہائیوں سے بہار کے اقتدار میں ہیں اور مودی گیارہ برس سے مرکز میں بیٹھے ہیں تو آخر کیوں بجلی کی فراہمی جیسی بنیادی ضرورت نجی ہاتھوں میں دینے کی مجبوری آن پڑی؟

یہی نہیں، اس معاہدے کے تحت بہار کے عوام کو 6.075 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی ملے گی،جب کہ مہاراشٹر اور اترپردیش جیسی ریاستیں تین سے چار روپے فی یونٹ کی شرح پر بجلی پا رہی ہیں۔ یعنی زمین بھی گئی، درخت بھی کٹے اور آخرکار عوام کو مہنگی بجلی خریدنے پر بھی مجبور کیا گیا۔ پون کھیڑانے بالکل بجا کہا کہ یہ دوہری لوٹ مار ہے۔ پہلے وسائل کو ہتھیایا گیا اور پھر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔

کانگریس کے میڈیا و پبلسٹی ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین پون کھیڑا نے کل نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ سنگین الزامات بھی لگائے کہ بھاگلپور میں کسانوں کو زبردستی زمین چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ کھیڑا نے کہا کہ آم،لیچی اور ساگوان سمیت زمین اور درخت 33 برس کیلئے اڈانی گروپ کو ایک روپیہ سالانہ کی شرح سے حوالے کیے گئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس پاور پلانٹ کا اعلان مرکزی بجٹ میں کیا گیا تھا،جہاں حکومت نے کہا تھا کہ وہ خود اسے قائم کرے گی،لیکن بعد میں حکومت نے یو ٹرن لے کر اسے اڈانی کے حوالے کر دیا۔

کھیڑا نے اس بات پر بھی توجہ دلائی کہ مودی حکومت کا یہ طرزعمل کوئی نیا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر،چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ میں بھی انتخابات سے قبل بی جے پی نے اڈانی کے حق میں ایسے ہی پاور پلانٹ سودے کیے۔ ان کے مطابق جب بھی بی جے پی کو شکست کا خوف لاحق ہوتا ہے، وہ اڈانی کے قدموں میں جا گرتی ہے۔ انہوں نے مزید الزام لگایا کہ مودی کے بہار دورے سے قبل گائوں والوں کو اس منصوبے کے خلاف احتجاج کرنے سے روکنے کیلئے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔

اڈانی گروپ کی کہانی صرف بہار تک محدود نہیں۔ چھتیس گڑھ میں ہسدیو کے جنگلات کاٹ کر اس گروپ کو زمین دی گئی۔آسام میں سیمنٹ پلانٹ کیلئے وسیع زمین اونے پونے نرخ پر حوالے کی گئی اور اب بہار کی زرخیز زمین اسی انجام سے دوچار ہے۔ کیا یہ سب کچھ ایک نئے نوآبادیاتی نظام کی صورت نہیں،جس میں ہندوستانی حکومت خود اپنے ہی عوام کو رعایا بنانے پر تلی ہے؟

تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جب بادشاہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو اسی طرح کے دلکش وعدوں کے ساتھ ملک کے اندرونی معاملات میں داخل ہونے کی اجازت دی تو نتیجہ غلامی کی صورت میں نکلا۔ جو بادشاہ انکار کرتے تھے،انہیں قتل کر دیا جاتا یا اقتدار سے محروم کر دیا جاتا۔ آج حالات اس حد تک بدل چکے ہیں کہ کسی انکار کی گنجائش ہی نہیں۔ کیونکہ عوام کی منتخب حکومتیں خود عوام کے اعتماد کو سرمایہ داروں کے قدموں میں نچھاور کر رہی ہیں۔ کل جب لوگ سمجھیں گے تو شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ غلامی کبھی ایک جھٹکے میں نہیں آتی،وہ آہستہ آہستہ خوشنما وعدوں،سرمایہ کاری کے سبز خوابوں اور ترقی کے جھوٹے نعروں کے پردے میں داخل ہوتی ہے۔ آج اگر ہندوستان کے عوام نے یہ کھیل نہ پہچانا تو آنے والی نسلیں پھر اسی سوال سے دوچار ہوں گی کہ ہم آزاد کب ہوئے تھے؟ اور غلامی کی زنجیریں پھر کس نے پہنائیں؟

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS