روزگار کی نئی جہتیں

0

جینتی لال بھنڈاری

انفیکشن کی دوسری لہر کے سبب ملک میں ایک مرتبہ پھر صنعتوں کے سامنے چیلنج کھڑا ہوگیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے ڈر سے زیادہ تر شہروں میں چھوٹی بڑی صنعتوں اور کارخانوں سے مزدور اپنے علاقوں کو لوٹنے لگے ہیں۔ یہ سب کے لیے بڑا بحران ہے۔ جہاں مزدوروں کے سامنے معاش کے بحران کا خطرہ منڈلا رہا ہے، وہیں صنعتی اکائیوں کے سامنے مزدوروں کی کمی کا بھی۔ ظاہر ہے آنے والے دنوں میں پیداوار پر اس کا اثر پڑے گا۔ لیکن ایسے میں ہی ڈیجیٹل کمپنیاں ایک مرتبہ پھر ملک اور دنیا کے کاروبار کو تکنیکی طور پر اہل بنانے میں مؤثر کردار نبھاتے ہوئے روزگار کے نئے مواقع تیار کررہی ہیں۔
غور طلب ہے کہ عالمی اور ہندوستانی آئی ٹی کمپنیوں کا اہم مرکز بنگلورو اور ملک کے دیگر آئی ٹی شہر ڈیجیٹل روزگار کا مرکز بن گئے ہیں۔ ان آئی ٹی شہروں کی آمدنی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کورونا کے دور میں بنگلورو سے براہ راست ٹیکس کے طور پر بھاری ریونیو ملا۔ معاشی سستی کو مسترد کرتے ہوئے ملک کی سلیکان ویلی کے طور پر شناخت رکھنے والے اس شہر نے گزشتہ مالیاتی سال میں براہ راست ٹیکس وصولی میں 7.3فیصد کا شاندار اضافہ حاصل کیا ہے۔ ملک کے ٹیکس وصولی میں بنگلوروکی حصہ داری 12.3فیصد رہی۔ حقیقت میں قومی سطح پر ٹیکس وصولی میں اس کی حصہ داری میں 2019-20کے 10.1فیصد کے مقابلہ اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹیں بتارہی ہیں کہ بنگلورو میں کووڈ-19کے سبب اے آئی(مصنوعی ذہانت) ، کلاؤڈ انقلاب، سمیکن، ورچوئل رئیلٹی وغیرہ جیسی ڈیجیٹل تکنیکوں کے استعمال میں زبردست اضافہ نظر آیا ہے اور ان میں کاروبار چلانے کے طریقے میں بے مثال تبدیلی آئی ہے۔ آن لائن پلیٹ فارموں کے کاروبار میں خوب اضافہ ہوا ہے۔ آئی ٹی کمپنیوں کو غیرملکی صارفین سے خوب کام ملے، جس سے ان کی آمدنی اور روزگار میں تنوع آیا ہے۔

ملک کے ڈیجیٹل روزگار مواقع کو بڑے شہروں کی سرحدوں کے باہر چھوٹے شہروں اور قصبوں تک لے جانے پر غور کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ڈیجیٹل روزگاروں کے لیے ضروری بنیادی ضرورتوں پر بھی غور کیا جائے۔ ملک کی دیہی آبادی کا بڑا حصہ ابھی بھی ڈیجیٹل طور پر ناخواندہ ہے۔ لہٰذا ڈیجیٹل لینگویج سے دیہی باشندوں کو تعلیم یافتہ- تربیت یافتہ کرنا ہوگا۔ دیہی علاقوں میں ڈیجیٹلائزیشن کی بیداری کی نئی مہم چلانی ہوگی۔

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کورونا سے پوری طرح تبدیل ہوئی نئی معاشی دنیا میں ہندوستان کی اعلیٰ باصلاحیت تربیت یافتہ نسل کے لیے روزگار کے بڑے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ دنیا کی کئی ریسرچ تنظیموں کا ماننا ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن سے ہندوستان میں روزگار کے نئے مواقع میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ملک اور دنیا کی زیادہ تر کاروباری سرگرمیاں اب آن لائن ہوگئی ہیں، اس لیے ان کمپنیوں نے نئے ڈیجیٹل مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔ گھر سے کام کرنے کے رجحان کو وسیع طور پر قبولیت ملنے سے آؤٹ سورسنگ کو بڑھاوا ملا ہے۔ کورونا کے چیلنجوں کے درمیان ہندوستان کے آئی ٹی سیکٹر کی معیاری خدمات سے عالمی صنعتوں کا یہاں کی آئی ٹی کمپنیوں پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
ملک بڑھتے ڈیجیٹلائزیشن، انٹرنیٹ کے صارفین کی بڑھتی تعداد اور موبائل و ڈیٹا پیکیج سستا ہونے سے بھی ہندوستان میں ڈیجیٹل کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔ موبائل براڈبینڈ انڈیا ٹریفک(ایم بیٹ) انڈیکس-2021کے مطابق ڈیٹا کھپت بڑھنے کی رفتار پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہندوستان میں ہے۔ گزشتہ سال 2020میں دس کروڑ نئے 4Gصارفین کے جڑنے سے ملک میں 4Gصارفین کی تعداد 70کروڑ سے زیادہ ہوگئی۔ ٹرائی کے مطابق اس سال جنوری میں ہندوستان میں براڈبینڈ استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 75.76کروڑ پہنچ چکی ہے۔ ہندوستان میں 2019-20 میں جو ڈیجیٹل ادائیگی بازار تقریباً 2ہزار162ہزار ارب روپے کا رہا تھا، جو برس 2025 تک تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ کر7ہزار ارب روپے تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔
ملک میں ڈیجیٹل انقلاب نے ای-کامرس کو تیزی سے بڑھایا ہے۔ اس سے ملک کے کونے کونے میں ای-کاروبار میں بھی روزگار کے مواقع بڑھے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ای-کامرس کا کاروبار جو برس2010میں ایک ارب ڈالر سے بھی کم تھا، وہ برس2019میں 30ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا۔ سمجھا جارہا ہے کہ 2024تک یہ 100ارب ڈالر کے پار جاسکتا ہے۔ امریکی کمپنی ایف آئی ایس کی گلوبل پیمنٹ رپورٹ-2021 میں موجودہ اور وعدہ ادائیگی کے لیے 41ممالک کے رجحانات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں ’پہلے خریدو، بعد میں پیسے دو‘(’بائے ناؤ، پے لیٹر‘) کے سبب آن لائن ادائیگی سسٹم دوسرے ممالک کے مقابلہ میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ 2020میں ہندوستان میں آن لائن خریداروں کی تعداد تقریباً ساڑھے 18کروڑ تھی۔ ملک میں جس رفتار سے ای کاروبار بڑھ رہا ہے، اسی رفتار سے اس میں غیرملکی سرمایہ کاری بھی ہورہی ہے۔ ایسے میں ای-کاروبار کے بڑھتے بازار تک اپنی پہنچ بڑھانے کے لیے پوری دنیا کی بڑی بڑی آن لائن کمپنیاں ہندوستان کی جانب دیکھ رہی ہیں۔ ان سب سے ڈیجیٹل سیکٹر میں روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں۔ عالمی روزگار پر میکینجی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2030تک پوری دنیا میں ڈیجیٹل دور کے سبب تقریباً 10کروڑ لوگوں کو اپنا روزگار بدلنا پڑسکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین، فرانس، ہندوستان، جرمنی، اسپین، برطانیہ اور امریکہ میں ہر 16میں سے ایک ورکر کو اس تبدیلی سے گزرنا پڑے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اعلیٰ ڈیجیٹل ہنرمند والے روزگاروں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا اور روایتی روزگاروں کی دستیابی میں کمی آئے گی۔
ڈیجیٹل دور میں ہندوستان کے پیشہ وروں کا کردار مزید اہم ہوگا۔ دنیا کے تمام ملک اپنی صنعت-کاروبار میں ہندوستانی پیشہ وروں کو پارٹنر بنائیں گے اور یہ ان کے لیے معاشی طور سے بھی فائدہ مند ہوگا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان کے آئی ٹی سیکٹر کے تیزی سے بڑھنے کے امکانات ہیں۔ ہنرمندملازمین کو ویزا ضوابط میں راحت ملی ہے۔ بائیڈن امریکہ کی معیشت کو آگے لے جانے کے لیے ہندوستان کی آئی ٹی خدمات کا زیادہ استعمال کرنے کے حق میں ہیں۔ نہ صرف امریکہ میں بلکہ جاپان، برطانیہ اور جرمنی سمیت دنیا کے کئی ممالک میں صنعتی اور کاروباری ضرورتوں میں تکنیک اور انوویشن کا استعمال تیز ہونے کی وجہ سے آئی ٹی کے ساتھ ہی کئی دیگر شعبوں میں مثلاً صحت کی دیکھ بھال، نرسنگ، بجلی، الیکٹرانکس، فوڈپروسیسنگ، جہازسازی، ہوابازی، زراعت، تحقیق، ترقی، خدمت و مالیات وغیرہ شعبوں میں بھی تربیت یافتہ ہندوستانی افرادی قوت کی زبردست ڈیمانڈ قائم ہے۔
ایسے میں روزگار کی بدلتی ہوئی ڈیجیٹل دنیا میں ہندوستان پوری طرح سے فائدہ کی حالت میں ہے۔ لیکن ابھی محدود تعداد میں ہی ہندوستانی ٹیلنٹ ڈیجیٹل معیشت کی روزگار سے متعلق ضرورتوں کو پورا کرپارہا ہے۔اب دنیا کی سب سے زیادہ نوجوان آبادی والے ہندوستان کو بڑی تعداد میں نوجوانوں کو ڈیجیٹل دور کی اور نئی ٹیکنیکل کوالیفکیشن کے ساتھ اچھی انگریزی، کمپیوٹر میں مہارت اور بولنے کے ہنر کی قابلیت سے آراستہ کرنا ہوگا۔ تبھی ڈیجیٹل معیشت میں روزگار کے مواقع بڑھائے جاسکیں گے۔ ملک کے ڈیجیٹل سیکٹر کو یہ حکمت عملی بنانی ہوگی کہ کس طرح کے کام دور مقامات سے کیے جاسکتے ہیں اور کون سے کام دفتر میں آکر کیے جاسکتے ہیں۔ اب ملک کے ڈیجیٹل روزگار مواقع کو بڑے شہروں کی سرحدوں کے باہر چھوٹے شہروں اور قصبوں تک لے جانے پر غور کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ڈیجیٹل روزگاروں کے لیے ضروری بنیادی ضرورتوں پر بھی غور کیا جائے۔ ملک کی دیہی آبادی کا بڑا حصہ ابھی بھی ڈیجیٹل طور پر ناخواندہ ہے۔ لہٰذا ڈیجیٹل لینگویج سے دیہی باشندوں کو تعلیم یافتہ- تربیت یافتہ کرنا ہوگا۔ دیہی علاقوں میں ڈیجیٹلائزیشن کی بیداری کی نئی مہم چلانی ہوگی۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS