تل ابیب، (یو این آئی) : اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کا ملک غزہ میں جنگ کے مستقل خاتمے کے لیے مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن صرف اس صورت میں جب حماس اپنے ہتھیار ڈال دے اور علاقے میں اپنی حکومتی اتھارٹی سے دستبردار ہو جائے۔
واشنگٹن سے جاری کردہ ایک ویڈیو بیان میں نیتن یاہو نے کہا، “اگر یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے تو بہت خوب۔ اگر یہ 60 دن کے اندر مذاکرات کے ذریعے حاصل نہیں کیا جاسکتا، تو ہمیں اپنے دیگر ذرائع یعنی ہماری بہادر فوج کی طاقت کے ذریعے حاصل کرنا ہوگا ۔”
یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینی مزاحمتی گروپ کے ساتھ 60 دن کی جنگ بندی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
قطر میں دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، جہاں ثالث مختصر عرصے میں کسی پیش رفت کی کوشش کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے کہا کہ مقصد عارضی جنگ بندی کے دوران معاہدہ حاصل کرنا ہے، لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی شرائط پوری نہ ہونے کی صورت میں خونریزی جاری رہے گی۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گدعون سعار کے مطابق کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے، تاہم بڑے اختلافات اب بھی موجود ہیں۔
آسٹروی روزنامہ دی پریسے سے انٹرویو میں سعار نے کہا کہ فریقین کو اب بھی ان فلسطینی قیدیوں کی تعداد پر اتفاق کرنا ہوگا جنہیں یرغمالیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔انہوں نے کہا، “ابتدائی طور پر آٹھ یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا، اس کے بعد پچاسویں دن مزید دو کو رہا کیا جائے گا۔” انہوں نے مزید کہا کہ حماس نے 18 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حماس کے رہنماؤں کو جلاوطنی میں محفوظ راستہ دیا جا سکتا ہے، تو سعار نے کہا، “ہاں، ہم یہ پیشکش کریں گے۔”
دوسری طرف، حماس نے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا، انسانی امداد کی آزادانہ ترسیل، اور پائیدار امن کے لیے “حقیقی ضمانتوں” پر زور دیا ہے۔
حماس کے سینئر عہدیدار باسم نعیم نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ گروپ غزہ پر اسرائیلی کنٹرول کو مسترد کرتا ہے اور فلسطینیوں کے لیے “الگ تھلگ علاقوں” کی تخلیق کی مخالفت کرتا ہے۔انہوں نے بفر زونز کے استعمال کی مذمت کی اور موجودہ امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ امدادی نظام کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں۔