انجینئر خالد علیگ
10 اکتوبر صبح اس افسوس ناک خبر کے سیاہ بادل میڈیا پہ چھا گئے کہ ملائم سنگھ یادو جن کو دنیا نیتاجی کے نام سے جانتی تھی، وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ہرشخص دنیا میں ایک متعین مدت کے لیے آیا ہے اور ایک مقررہ وقت پر اسے دنیا سے چلا جانا ہو تا ہے، وہ بھی چلے گئے، اللہ تعالیٰ ان کی روح کو سکون بخشے، لیکن کچھ اشخاص ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس مقررہ مدت میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والی تاریخ رقم کر جاتے ہیں اور تاریخ میں اپنا مقام روشن الفاظ میں درج کرا دیتے ہیں۔ نیتاجی بھی ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے جب انہوں نے ویدانتا اسپتال میں8بج کر 16منٹ پر آخری سانس لی تو ان کی عمر82سال تھی، ان بیاسی سالوں میں52سال ملائم سنگھ جی نے ایکٹو سیاست میں گزارے اور ملک کی سیاست پہ گہرے اثرات مرتب کیے۔ جب وہ پہلی بار1967میں جسونت نگر سے رام منوہر لوہیا کی ایس ایس پی پارٹی کے ٹکٹ پر ایم ایل اے منتخب ہوئے، ان کی عمر26سال تھی، اس کے بعد وہ مزید سات بار صوبہ کے مختلف حلقوں سے ایم ایل اے منتخب ہوئے اور سات مرتبہ ملک کی پارلیمنٹ میں پہنچنے کا اعزاز حاصل کیا جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہونا چاہیے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ملک کے کسی دوسرے سیاستداں کو8مرتبہ ایم ایل اے اور سات مرتبہ لوک سبھا ایم پی رہنے کا اعزاز حاصل ہوا ہو۔ اس دوران وہ تین بار ہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ یوپی کے وزیراعلیٰ اورملک کے وزیر دفاع بھی رہے ۔دو مرتبہ ایسے مواقع بھی آئے جب وہ ملک کے سب سے طاقتور عہدے سے چند قدم دور رہ گئے، اگر ملائم سنگھ اس موقع پر وزیراعظم بن گئے ہوتے تو آج یقینا ملک کا منظر نامہ کچھ اور ہی ہوتا۔ اتنی لمبی سیاسی اننگ میں کوئی کنٹروورسی پیدا نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں لہٰذا کچھ تنازعات نے بھی ملائم سنگھ کا بھی پیچھا کیا، ان میں امرسنگھ سے ان کی نزدیکی اور2009میں کلیان سنگھ کی حمایت شامل دو ایسے تنازعات تھے جو ان کے اپنے لوگوں کو بھی سمجھ میں نہیں آئے۔ اولاًذکر کنٹروورسی اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کیونکہ نیتا جی کی ساری سیاست رام منوہر لوہیا کی سماج وادی سیاست کے گرد گھومتی رہی جس میں امرسنگھ جیسے سرمایہ دار کا داخل ہونا ملائم سنگھ کے سوشلسٹ ساتھیوں کو عجیب لگا جس کے نتیجہ میں ملائم سنگھ کی زندگی میں انل امبانی جیسے سرمایہ دار اور بالی ووڈ کے گلیمر کی اینٹری ہوئی، اس کے بعد2009میں ملائم کا کلیان سنگھ کو سپورٹ کرنا بھی ایک ناقابل فہم فیصلہ تھا جس کے نتیجہ میں ملائم سنگھ کے قریبی ساتھی اعظم خان صاحب بھی ناراض ہوئے جو اپنے آپ کو ملائم کا عاشق قرار دیتے ہیں۔
صرف اعظم خاں کو نہیں، پوری قوم کو وہ مصلحت سمجھ میں نہیں آئی کہ ملائم سنگھ نے اس شخص کو کیوں سپورٹ کیا جو بابری مسجد کے انہدام کا ملزم تھا! پھر بھی مسلمانوں کے نظر میں ملائم سنگھ سیکولرزم کے سچے علمبردار بنے رہے اور 2012 کے انتخابات میں مسلمانوں کی مدد سے ایک بار پھر مکمل اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب رہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس بار انہوں نے پریوار واد کی پروا کیے بنا اکھلیش کو گدی سونپ دی۔ وہ ملک کے آئین کے مضبوط محافظ تھے جس کا ثبوت انہوں نے 30اکتوبر 1990کو اس وقت دے دیا تھا جب ہندو فرقہ پرست تنظیموں نے قانون کو اپنے جنون کے پیروں تلے روندنے کی کوشش کی۔ نیتاجی نے انجام کی پروا کیے بغیر کارسیوکوں پہ گولی چلانے کاحکم دیا اور مرتے وقت تک اپنے اس فیصلہ کو آئین بچانے والا درست فیصلہ مانتے رہے۔ اس فیصلہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو شدت پسندوں نے ان کو ’’ملا ملائم‘‘ بنادیا۔دوسری طرف مسلمانوں کو بھی ایک مسیحا مل گیا اور وہ مسلمان جو کبھی کانگریس کا روایتی ووٹ بینک سمجھے جاتے تھے، ملائم جی کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور تادم تحریر یہ رشتہ مضبوطی سے قائم ہے جس کی مثال یوپی کا2022کا الیکشن ہے جس میں مسلمانوں نے ایک طرفہ سماج وادی کو ووٹ دیا۔ ملائم سنگھ جی کی ایک اور خاصیت جس نے ان کو نیتاجی بنایا، وہ ان کا اپنے کارکنان کے ساتھ محبت آمیز ملائم رویہ تھا۔ وہ ضلع لیول کے کارکنان سے بھی ایم ایل اے کی طرح پیش آتے اور اس تپاک سے ملتے کہ اپنا مرید بنا لیتے۔ ایک واقعہ میرے ایک قریبی نے اپنی ان سے ملاقات کا کچھ یوں بیان کیا۔ واقعہ1996کا ہے، وہ دیوبند کے کسی طبیہ کالج میں زیر تعلیم تھے۔ کالج کے رکگنیشن کا کوئی مسئلہ تھا،وہ کچھ طلبا کو لے کر دہلی آئے۔ نیتاجی اس وقت مرکزی حکومت میں وزیر دفاع ہوا کرتے تھے، یوپی میں گورنر راج تھا،وہ طلبا جب ملائم جی کے یہاں پہنچے تو نیتا جی بڑے تپاک سے ملے، چائے پلائی، پوری بات سنی اور کہا کہ وہاں تو پریزیڈنٹ رول ہے، بھلا میں کیا کر سکتا ہوں۔ میرے قریبی نے جواب دیا کہ ہم نے گورنر کو نہیں، آپ کو ووٹ دیا تھا۔نیتاجی مسکرائے اور پی اے کو اشارہ کر کے بلایا اور جہاں مطلوب تھا، وہاں فون لگوایا اور لڑکوں سے کہا کہ آپ لوگ جاکر پڑھائی کریں، آپ کاکام ہو جائے گا اور جب لڑکے جانے لگے تو نیتا جی نے صوفہ سے کھڑے ہوکر ان کمسن لڑکوں کو رخصت کیا۔ ملائم سنگھ ایک نڈر، بیباک زمینی لیڈر تھے جو ہمیشہ کسانوں، مزدوروں اور پچھڑوں کے ساتھ کھڑے رہے، ان کی سیکولر امیج میں کبھی کسی کو کوئی شک نہیں رہا۔ ملک کے موجودہ حالات میں ایک ملائم کی نہیں، کئی ایسے نیتاؤں کی ضرورت ہے جو ملائم سنگھ کی طرح نڈر، بیباک، سیکولر اور سوشلسٹ ہوں کیونکہ آج ملک ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں ہر روز ملک کے دستور کو پامال کیا جارہا ہے، کھلے عام اقلیتوں کو مٹانے کی قسمیں کھائی جا رہی ہیں، ملک کے اثاثو ں کو بے دریغ بیچا جارہاہے امیر اور غریب کے درمیان کا فاصلہ کھائی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ دلتوں اور بچھڑوں کو ان کے حقوق سے محروم کیاجارہا ہے، سیاست ایک تجارت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جہاں عوامی نمائندوں کو سبزی ترکاری کی طرح بیچا اور خریدا جا رہا ہے، ایسے دور میں نیتاجی جیسے عوامی اصول پسند لیڈروں کا چلے جانا ایک ایسا خسارہ ہے جس کو پر نہیں کیا جا سکتا۔ نیتاجی اپنے لیڈر لوہیا کی طرح کانگریس کے کٹر مخالف تھے۔ انہوں نے کوئی الیکشن کانگریس کے ٹکٹ پر کبھی نہیں لڑا پھر بھی سونیا گاندھی سے ان کے ذاتی تعلقات کافی خوشگوار رہے۔ انہوں نے کبھی سونیا اور راہل کے خلاف اپنا امید وار نہیں کھڑا کیا۔ وہ جانتے تھے کہ ملک میں اگر فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینی ہے تو کانگریس کو ساتھ لینا ہوگا۔ 2024میں ملک پھر ایک بار فرقہ پرستوں سے فیصلہ کن معرکہ کی تیاری کر رہا ہے جس میں یقینا نیتاجی کی کمی بہت کھلے گی ۔
[email protected]