نیپال میں عوامی بغاوت پڑوسی ممالک کیلئے انتباہ: پروفیسر عتیق احمد فاروقی

0

پروفیسر عتیق احمد فاروقی

2 دنوں کی عوامی بغاوت میں نیپال نے وہ سب کچھ دیکھا جسے کسی بھی جمہوریت کے لیے خوش آئند نہیں مانا جا سکتا۔ آئینی عمارتوں کو آگ کے حوالے کرنا، سرکاری دفاتر پر قبضہ جمانا، وزیروں کو سڑکوں پر دوڑانا—یہ سب اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ حالات حکومت کے قابو سے نکل چکے ہیں اور اس کا واحد حل اقتدار میں تبدیلی ہے۔ آخرکار 9 ستمبر 2025 کو دوپہر کے وقت وزیراعظم کے پی شرما اولی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا اور اسی شام صدر کے استعفیٰ کی غیر مصدقہ خبریں بھی آنے لگیں۔دراصل نیپال کی یہ بغاوت فلپائن، انڈونیشیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ہوئی عوامی بغاوتوں کی اگلی کڑی ہے۔ کچھ معاملات میں نیپال کے حالات زیادہ سنگین اس لیے نظر آئے کیونکہ احتجاجی مظاہروں میں متعدد جانیں ضائع ہوئیں۔ اس قدر ہلاکتوں کی خبریں کسی اور تحریک سے نہیں آئی تھیں۔ بنگلہ دیش میں بھی کچھ جانیں ضائع ہوئی تھیں لیکن وہ تحریک کے آغاز سے قبل کے واقعات تھے۔نیپال کی حالیہ تحریک کی قیادت بھی سری لنکا اور بنگلہ دیش کی طرح ’’جنریشن زیڈ‘‘نے سنبھالی۔ یعنی وہ نوجوان جو 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئے اور جو انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز کے دور میں پروان چڑھے۔ بظاہر یہ تحریک سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ایکس، انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر پابندی کے خلاف شروع ہوئی تھی، لیکن اصل وجوہات کہیں زیادہ گہری تھیں۔ مخلوط حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی نے عوام کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اولی اور ان کے دیگر ساتھی رہنما اپنا رویہ بدلیں یا پھر اقتدار چھوڑ دیں۔

یہ حقیقت پورے جنوبی ایشیا پر صادق آتی ہے۔ تقریباً تمام حکومتیں اپنی ذمہ داری ایمانداری سے نہیں نبھا رہی ہیں، عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتر رہی ہیں، اور یہی عوامی مایوسی آخرکار بغاوت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ سری لنکا، بنگلہ دیش اور اب نیپال میں یہی کچھ ہوا، جب کہ پاکستان اور میانمار میں بھی اس کے آثار نمایاں ہیں۔

نیپال کی سیاست کو خاص طور پر کنبہ پروری اور خاندانی اجارہ داری نے کمزور کیا ہے۔ نیپالی کانگریس کے صدر شیر بہادر دیوبا 1995 سے اب تک پانچ بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی اہلیہ ارزو رانا دیوبا اولی حکومت میں وزیر خارجہ رہیں لیکن تحریک کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے بیٹے جیبیر سنگھ دیوبا کے لیے گویا حکومت کے خزانے کے دروازے کھلے تھے۔ یہی رویہ پشپ کمل دہال ’’پرچنڈ‘‘ اور کے پی شرما اولی پر بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے اقتدار کو اپنے خاندان کے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ قریب دو دہائیوں سے نیپال کی سیاست انہی تین لیڈران کے گرد گھومتی رہی ہے، اور عوام اب ان کی طرزِ سیاست سے عاجز آ چکے تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق یہ سب اچانک نہیں ہوا۔ یہ دراصل نیپال میں ذات پر مبنی تصادم کا نتیجہ ہے۔ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر پابندی تو محض ایک بہانہ تھا۔ اصل جھگڑا برہمن طبقے اور دوسری طرف گرونگ و مدیشی طبقات کے درمیان تھا۔ حالیہ قتل عام اور وزیراعظم اولی کی معزولی اسی لمبے تصادم کا شاخسانہ ہے۔ قبائلی لیڈر صدن گرونگ اور بالندر شاہ کی قیادت میں کئی برسوں سے یہ تحریک منظم ہو رہی تھی جو نیپال کو دوبارہ ’’ہندو راشٹر‘‘ بنانے کے مطالبے کے خلاف تھی۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ ہندوستان کے کئی میڈیا ادارے عرصے سے یہ خبریں نشر کر رہے تھے کہ نیپال میں ’’ہندو سویم سیوک سنگھ‘‘ (ایچ ایس ایس) سرگرم ہے۔ یہ تنظیم بالکل اسی طرز پر کام کر رہی ہے جیسے ہندوستان میں آر ایس ایس کرتی ہے۔ نیپال میں ہندو مندروں، ہندو ثقافت اور ہندو راشٹر کے بیانیے کو فروغ دینا اس تنظیم کا بنیادی ایجنڈا ہے۔ وزیراعظم اولی پر الزام ہے کہ وہ ایچ ایس ایس کے حامی تھے۔تاہم ہندوستان اور نیپال کے حالات میں ایک بنیادی فرق ہے۔ نیپال میں مسلمان محض 5.09 فیصد ہیں اور وہ زیادہ تر ترائی علاقوں جیسے روتھٹ، پرسہ اور باکے میں محدود ہیں۔ نیپال میں مغل حکمران بھی نہیں رہے جنہیں تاریخ کے بیانیے میں منفی انداز میں پیش کر کے فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دی جا سکے۔ پاکستان سے بھی اس کا کوئی قریبی رشتہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیپال میں ہندوستان جیسے حالات پیدا کرنا مشکل ہے۔

2008 میں جب نیپال نے صدیوں پرانی بادشاہت ختم کر کے خود کو ایک سیکولر جمہوریہ قرار دیا تو ایچ ایس ایس نے اس کے خلاف اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ نیپالی معاشرے میں برہمنوں کے مقابلے پر گرونگ ذات ابھر کر سامنے آئی ہے، جو بدھ مت اور ہندو روایات کے امتزاج پر قائم ہے اور ہندو سماج کے ذات پات کے نظام کو نہیں مانتی۔ نیپال میں گرونگ ذات کی آبادی 16 فیصد ہے اور یہ زیادہ تر مشرقی نیپال اور ہندوستانی سرحد کے قریب رہتی ہے۔اس تحریک کی قیادت صدن گرونگ کر رہے ہیں، جو ’’حامی نیپال‘‘نامی این جی او کے بانی ہیں۔ انہوں نے نوجوان نسل کے مسائل جیسے بے روزگاری، بدعنوانی اور آزادی اظہار کو اپنی مہم کا محور بنایا۔ بعد میں بالندر شاہ، جو انجینئر اور موسیقار ہیں، ’’جینز کرانتی‘‘ کے بینر تلے تحریک کے بڑے رہنما بن کر سامنے آئے۔ وہ کھل کر ایچ ایس ایس اور ہندوستان کی مخالفت کرتے ہیں اور ’’گریٹر نیپال‘‘کے نقشے کو عام کرتے ہیں، جس میں سکم اور اتراکھنڈ سمیت ہندوستان کے کچھ علاقے دکھائے جاتے ہیں۔ اگر وہ مستقبل میں وزیراعظم بنتے ہیں تو یہ ہندوستان کے لیے ایک نئے چیلنج کا اشارہ ہوگا۔نیپال کی سیاست کا یہ سارا منظرنامہ ہندوستان کے لیے بھی ایک انتباہ ہے۔ اگر نیپال کے حالات پر گہری نظر نہ رکھی گئی تو ایک اور قریبی پڑوسی ملک دشمنی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہندوستان کے لیے اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ نیپال کی صورتحال پر قریب سے نظر رکھے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائے۔

یہ وقت ہندوستان کے لیے صرف سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داریوں کا بھی ہے۔ خطے میں امن صرف سرحدوں کے استحکام سے نہیں بلکہ عوام کے دل جیتنے سے آتا ہے۔ اگر ہندوستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعاون، ترقی اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات قائم کرے تو نہ صرف نیپال بلکہ پورا جنوبی ایشیا امن و خوشحالی کی نئی منزلوں کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ بصورت دیگر، عدم اطمینان اور بغاوتوں کی یہ لہر خطے کے مستقبل کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

atiqfaruqui001@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS