نیٹ یوجی کے نتائج

0

موجودہ مقابلہ جاتی دور میں جب کسی امتحان کا پیپر لیک ہوجائے، یا دھاندلی اور بے ضابطگی کا معمولی امکان بھی نظر آئے تو سوال اٹھنافطری ہے اوراس کا معقول جواب نہ ملے تو طلبا یقینا ناراض ہوں گے اورسڑکوں پر آئیں گے، کیونکہ ان سب کی مار ان کے کریئر اورمستقبل پر پڑتی ہے۔میڈیکل میں داخلہ کیلئے جب نیٹ یو جی کا امتحان ہوا تھا ،تو اس وقت بھی ایک سینٹر پر پیپر کی تقسیم میںبدنظمی کی خبر آئی تھی ، جس کو پیپر لیک ہونے سے جوڑ کر دیکھا جارہاتھا،لیکن نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے )نے بڑی خوبصورتی سے معاملہ کو سنبھال لیا تھا اور تنازع زیادہ نہیں بڑھا ، فوراً ہی ختم ہوگیا، تاہم جب ٹیسٹ کے نتائج آئے، تو اس سینٹر سے کامیاب ہونے والے طلبا کی وجہ سے وہ سینٹر پھر خبروں میں آگیا۔ اس بار بات کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ کیوں نہ بڑھے ، جب نتائج ہی کچھ اس طرح آئے ہیں کہ 720میں سے 700 سے کم نمبر لانے والے طلبا کا اچھے کالجوں میں داخلہ ملنا مشکل نظر آرہاہے ۔صد فیصد نمبر حاصل کرنے والے ٹاپر امیدواروں کی تعداد 67 ہیں، ان میں بھی 6ایک ہی سینٹرکے ہیں۔ 2 امیدواروں کے محصولہ نمبر 718 اور 719 ہیں اور1563امیدواروں کوملے گریس مارکس الگ تنازع کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ میرٹ اتنی اوپر چلی گئی ہے کہ نیچے کے رینک والوں کا مستقبل تاریک نظر آرہاہے۔ معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ طلبا تو آواز اٹھاہی رہے ہیں اورکہیں کہیں احتجاج بھی ہورہا ہے ۔ اب اس پر سیاست بھی ہونے لگی ہے اوراپوزیشن لیڈران بیان دینے لگے ہیں ۔این ٹی اے کو پریس کانفرنس کرکے صفائی پیش کرنی پڑی۔اس نے اگر چہ تمام الزامات کو مسترد کردیا اور کسی قسم کی دھاندلی اور بے ضابطگی سے انکار کیاہے ، لیکن الزامات کی جانچ اور شکایات کے ازالہ کیلئے ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی ہے ، کیونکہ طلبا این ٹی اے کی صفائی سے مطمئن نہیں ہیں۔ این ٹی اے نے بھی یہ بات کہی ہے کہ مبینہ بے ضابطگیاں 6مراکز اور تقریباً 1600 امیدواروں تک محدود ہیں ۔ نیٹ یوجی کے امتحان میں پیپر لیک کے ساتھ ساتھ دھاندلی اور بے ضابطگی کے الزامات لگائے جارہے ہیں ، جو بہت سنگین ہیں۔لاکھوں طلبا کے کریئر اور مستقبل سے جڑے ہوئے ہیں۔کچھ طلبا تو امتحا ن کو ردکرنے اورازسرنو امتحان کرانے کی مانگ کررہے ہیں ، جو اوربھی مشکل امرہے ۔
نیٹ یوجی 2024کا رجسٹریشن امسال 9فروری سے 16مارچ تک ہوا اور ملک بھرمیں 24لاکھ سے زیادہ امیدواروں نے لوک سبھا انتخابات کے دوران 5مئی کو امتحان دیا تھا۔نتائج بھی مقررہ وقت سے پہلے ووٹوں کی گنتی کے دن4جون کو آگئے ۔ پورے ملک کی نگاہیں ووٹوں کی گنتی اور نتائج پر مرکوز تھیں، اس لئے بہت سے طلبا کو دوسرے دن ہی نتائج کاپتہ چلا، جس کی وجہ سے ہنگامہ بھی دیر سے شروع ہوااورمعاملہ کورٹ تک پہنچ گیا۔جس طرح کے حالات بن رہے ہیں، ان سے امتحان اورنتائج کے بعد اگلا مرحلہ کونسلنگ اور پھر داخلے بھی متاثر ہوسکتے ہیں ۔طلبا نتائج پر جو سوالات اٹھارہے ہیں ، یاالزامات لگ رہے ہیں، انہیں نہ تو نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی آسانی سے خارج کیا جاسکتاہے ۔اگر الزامات اورباتوں میں وزن نہیں ہوتا ، توطلبا خاموش ہوجاتے ، جیسا کہ امتحان کے بعد این ٹی اے کی صفائی کے بعد خاموش ہوگئے تھے، لیکن اب تو احتجاج ہورہاہے ۔این ٹی اے کی طرف سے معاملہ کی جانچ کیلئے کمیٹی کی تشکیل سے پتہ چلتا ہے کہ صرف باتوںاورصفائی پیش کرنے سے کام نہیں چلنے والا ہے ۔ جانچ ضروری ہے ۔تبھی ملک ،طلبا اور خود این ٹی اے کوپتہ چلے گا کہ حقیقت کیا ہے ؟کیاواقعی کوئی گڑبڑی ہوئی ہے یاصرف غلط فہمی ہے؟فی الحال اورمستقبل میں اس طرح کی باتوں کے امکان کو مسدود کرنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟

ملکی یا ریاستی سطح پر کوئی بڑا اوراہم مقابلہ جاتی امتحان ہوتو اس وقت کافی حساس اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔پیپر لیک ہونا اس دور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، جو پورے سسٹم پر سوالیہ نشان لگادیتاہے ۔اوپر سے نتائج نکلنے کے بعد نمبرات بھی کچھ ایسے آئیں ، جن سے شک وشبہ ہوتو پھر سوالات ہوں گے ۔بات چلے گی تو بہت دور تک جائے گی ۔جتنی آسانی سے این ٹی اے نے پریس کانفرنس میں الزامات کو مسترد کیا، معاملہ اتنا ہی پیچیدہ ہے، تبھی تو جانچ کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت پڑی ۔اب یہ معاملہ جانچ کمیٹی اورکورٹ سے حل ہوگا، اس کے علاوہ کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS