کین بیتوا جوڑ منصوبہ کا ازسرنو جائزہ لینا ضروری

0

پنکج چترویدی

44تقریباً سال لگے ندیوں کو جوڑنے کے تصور کو عملی شکل دینے میں۔ اس کے لیے ملک کے اس حصے کا انتخاب کیا گیا جو صدیوں سے نظرانداز، پسماندہ اور پیاس- ہجرت کی وجہ سے بدنام رہا۔44 ہزار کروڑ سے زیادہ کا خرچ اور آٹھ سال کا وقت۔ یکبارگی لگتا ہے کہ کوئی دو بہتی ہوئی ندیوں کو بس جوڑ دیا جائے گاتاکہ کم پانی والی ندی بھی ہمیشہ بہنے والی ہوجائے گی۔ دراصل ہو یہ رہا ہے کہ چھترپور اور پنا اضلاع کی سرحد پر دودھن میں کین ندی پر 77میٹر اونچا ڈیم بنایا جائے گا۔ اس ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش2853ملین کیوبک میٹر ہوگی۔ منصوبہ یہ ہے کہ یہ جمع کین ندی کے ’’اضافی پانی‘‘ کو دودھن ڈیم سے 221کلومیٹر لمبی لنک نہر کے ذریعہ بیتوا ندی میں ڈال دیا جائے گا۔ مجموعی طور پر یہ اس کین ندی کے پانی کی تقسیم ہے جو ہر برسات میں طغیانی پر تو ہوتی ہے لیکن سال میں 6ماہ اس میں گھٹنوں گھٹنوں پانی بھی نہیں رہتا۔

یہ سمجھنا ہوگا کہ کین ندی میں سیلاب کی وجہ بھی اس میں گنجائش سے زیادہ پانی نہیں ہے۔ دراصل وہ باندہ میں چِلّا گھاٹ پر جہاں جمنا سے ملتی ہے، اس کا منہ نیچے ہے اور جمنا کا بہاؤ اوپر۔ اس طرح جمنا میں جب پانی زیادہ ہوتا ہے تو وہ کین کو پیچھے دھکیلتا ہے اور پلٹ کر آنے والے پانی سے کئی گاؤں ڈوبتے ہیں۔ کین ندی جبل پور کے موار گاؤں سے نکلتی ہے۔ پنا کی طرف40کلومیٹر آنے کے بعد یہ کیمور پہاڑی سلسلے کی ڈھلان پر شمالی سمت میں آتی ہے۔تگرا کے پاس اس میں سونار ندی ملتی ہے۔ پنا ضلع کے امان گنج سے 17کلومیٹر دور پنڈوا نامی جگہ پر 6ندیوں- مٹھاسن، بندھنے، پھلنے، بیارما وغیرہ کین میں ملتی ہیں اور یہیں سے کین کی توسیع ہوجاتی ہے۔یہاں سے ندی چھتر پور ضلع کی مشرقی سرحد کو چھوتی ہوئی بہتی ہے۔آگے چل کر ندی کا شمالی بہاؤ ودھیے پہاڑی سلسلوں کے درمیان تنگ راستے میں ہوتا ہے۔ اس دوران یہ ندی40 سے 50میٹر اونچائی کے کئی آبشاریں بناتی ہے۔ پالکوہان(چھتر پور) کے قریب اس میں سامری نامی نالا ملتا ہے۔ تھوڑا آگے نون پنجی کے قریب گنگؤ ڈیم کا تالاب ہے۔ یہاں سے ندی نیچے کی طرف بہتی ہے لہٰذا اس کا بہاؤ بھی تیزہوتا ہے۔ ایک دیگر ڈیم بریار پور میں ہے۔ ٹھیک یہیں پر دؤدھن کاوہ ذخیرہ تجویز کیا گیا ہے جس سے بیتوا کو پانی فراہم کیا جائے گا۔ اس کے بعد چھترپور ضلع کی گوری ہار تحصیل کو چھوتی ہوئی یہ ندی باندہ(اترپردیش) ضلع میں داخل ہوتی ہے۔ راستے میں اس میں بننے، کٹنی، کسیار، لہاری وغیرہ اس کی معاون ندیاں ہیں۔ باندہ ضلع میں اس کے دائیں کنارے پر چندراول ندی اور بائیں کنارے پر میراسن نالا آملتا ہے۔ تقریباً 30 ہزار مربع کلومیٹر کے پانی کی گنجائش والی اس ندی کو 1906 میں سب سے پہلے گنگؤ میں باندھاگیا تھا۔

یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ سیلاب ہمیشہ تباہی ہی نہیں لاتا۔ سیلاب ندی کی اچھی صحت کے ساتھ اس کے ارد گرد واقع دیہاتوں اور قصبوں کی خوشحالی کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔ پانی کے اس پھیلاؤ کی وجہ سے یہاں پنیا کے گھنے جنگلات ہیں، جو ملک میں زیادہ تر شیروں کے لیے محفوظ ترین جگہ ہے۔ شیر اکیلے تو زندہ نہیں رہ سکتا، اس کی خوراک کے لیے لاکھوں جانوروں کی بھی یہ پناہ گاہ ہے۔ یہ پورا علاقہ قبائلیوں کی بستیاں ہیں اور ان کی روزی روٹی کے ذرائع – تیندو پتے، آچار، مہوا، چرونجی کے ساتھ ساتھ ساگوان کے گھنے جنگلات اسی سیلاب کی دین ہیں۔

ملک کی خشک ندیوں کو ہمیشہ بہنے والی ندیوں سے جوڑنے کی بات تقریباً آزادی کے وقت سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ معروف سائنس داں-انجینئرسرموکش گنڈم وشویشوریّا نے اس پر ایک باقاعدہ تحقیقی مقالہ پیش کیا تھا۔ ان دنوں درختوں کو اُجاڑنے سے سبھی ڈرتے تھے۔لہٰذا ماحولیات کو نقصان،بے حد خرچیلی اور متوقع نتائج نہ ملنے کے ڈر سے ایسے منصوبوں پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ جب سیمنٹ اور لوہے کی کھپت اور پیداوار کی بنیاد پر ملک میں ترقی کے اعداد و شمار کا اندازہ لگانے کا دور آیا تو حکومتوں نے اربوں کھربوں کے منصوبوں کے سنہرے خواب دکھانے کا مقابلہ شروع کر دیا۔ ’’ندیوں کا پانی سمندر میں نہ جائے، بارش میں لبالب ہوتی ندیوں کو گاؤں-کھیتوں میں داخل ہونے کے بجائے ایسے مقامات کی جانب موڑ دیا جائے جہاں اسے بہاؤ ملے اور ضرورت کے وقت اس کا پانی استعمال کیا جا سکے۔‘‘- اس بنیادی جذبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ندیوں کو آپس میں جوڑنے کے حق میں دلائل دیے جاتے رہے ہیں۔ لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ کین بیتوا کے معاملے میں تو ’’ننگا نہائے کیا نچوڑے کیا‘‘ کی کہاوت صادق آتی ہے۔ کین اور بیتوا دونوں کا اصل مقام مدھیہ پردیش میں ہے۔ دونوں ندیاں تقریباً متوازی طور پر ایک ہی علاقے سے گزرتی ہوئی اترپردیش میں جاکر جمنا میں مل جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کین کے کیچمنٹ ایریا میں کم بارش یا خشک سالی ہو تو بیتوا کی حالت بھی ایسی ہی ہوگی۔ ویسے بھی کین کا علاقہ پانی کے شدید بحران سے نبردآزما ہے اور ہر تین سال میں ایک بار کم بارش کی یہاں بددُعا سی ہے۔

اگر کین بیتوا لنک پروجیکٹ کے دستاویز دیکھیں تو اس میں بہت سے خوشگوار خواب ہیں لیکن منصوبہ شروع ہونے سے ہونے والی تباہی بھی کم نہیں ہے۔ جھانسی کے قریب کام کررہے راج گھاٹ اور ماتاٹیلا ڈیم پر خرچ کیے گئے اربوں روپے ضائع ہوجائیں گے۔ یہاں پیدا ہونے والی بجلی سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔ قابل ذکر ہے کہ راج گھاٹ پروجیکٹ کا کام جاپانی حکومت سے حاصل کردہ قرض سے ابھی بھی جاری ہے، اس کے ڈیم کی لاگت330کروڑ سے زیادہ ہے اور پاور ہاؤس کی لاگت تقریباً140کروڑ ہے۔ راج گھاٹ سے اس وقت 953لاکھ یونٹ بجلی بھی مل رہی ہے۔ حکومت ہند تسلیم کر رہی ہے کہ ندیوں کو جوڑنے پر یہ 500 کروڑ روپے ضائع ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی للت پور کے جنوبی اور جھانسی اضلاع میں اس وقت چل رہے بہترین آبپاشی والے کھیتوں کا پانی اس پروجیکٹ کی وجہ سے بند ہونا یقینی ہے۔

دودھن ڈیم کی وجہ سے زیرتعمیر ڈوبنے والے علاقے کا سب سے زیادہ نقصان پنیا نیشنل پارک کو ہونا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 46 لاکھ درخت یا تو کاٹے جائیں گے یا وہ ڈوب کر تباہ ہو جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ اتنی ہی ہریالی لگائی جائے گی لیکن سمجھنا ہو گا کہ پنّا جیسا جنگل بننے میں کئی صدیاں لگتی ہیں اور محض ہریالی جنگل نہیں ہوتا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ذریعہ کین-بیتوا ریور لنکنگ پروجیکٹ پر کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس پروجیکٹ کی وجہ سے پنا ٹائیگر ریزرو(پی ٹی آر) کا ایک بڑا حصہ پانی میں ڈوب جائے گا، جس سے ریزرو میں واقع شیروں کے رہائشی علاقہ کا58.03مربع کلومیٹر (10.07فیصد)کا براہ راست تخمینہ نقصان ہوگا۔ اس کے علاوہ ان کے مسکن کے بکھراؤ اور رابطہ منقطع ہونے سے ٹائیگرز کے اہم علاقے کا105.23مربع کلومیٹر رقبہ بالواسطہ طور پرمتاثر ہوگا۔ اس سے شیروں کے ساتھ ساتھ دیگر جنگلی جانوروں جیسے چیتل، سانبر وغیرہ خطرے میں ہیں۔ ایک بات اور سرکاری دستاویزات میں درج ہے کہ جن اعداد و شمار کی بنیاد پر پنا نیشنل پارک کی 968.24ہیکٹیئر اراضی کو ڈوب میں شامل کرنے کی منظوری دی گئی تھی، حقیقت میں وہ اعداد و شمار ہی حکومتی قواعد کے مطابق پرانے ہیں۔ یہاں عوامی سماعت جیسی باتیں محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہیں، لیکن یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ 45ہزار کروڑ روپے خرچ کرکے بندیل کھنڈ کو پانی سے لبریز بنانے کا جو خواب فروخت کیا جارہا ہے، دراصل اس میں پانی تو ملے گا لیکن اس کی قیمت بہت کچھ دے کر ادا کرنی ہوگی۔
ندی کے قدرتی بہاؤ کو روکنے سے کین کے مگرمچھوں کے رہنے کی جگہ پر اس کا منفی اثر پڑنا یقینی ہے۔ یہی نہیں آب و ہوا میں تبدیلی کے عالمی المیے میں ندی کو جوڑنے والے بڑے ڈیم ولن کا کردار ادا کریں گے۔ جنگلات کاٹے جائیں گے، بڑے آبی ذخائر اور نہروں کی وجہ سے نئے دلدلی علاقے ڈیولپ ہوں گے جو میتھین کے اخراج کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ جان لیں کہ یہ پورے پروجیکٹ کے اصل دستاویز 1980 کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ 1980میں آب و ہوا میں تبدیلی یا گرین ہاؤس گیسوں کا تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس منصوبے کو مکمل ہونے میں ایک دہائی لگ جائے گی اور اس دوران موسمی بے ترتیبی اور ندیوں کے اپنا رخ بدلنے کے سانحات مزید گہرے ہو جائیں گے۔ایسے میں ضروری ہے کہ عالمی موسمی تبدیلی کے مضر اثرات کے تناظر میں ندیوں کو جوڑنے کے منصوبہ کا جائزہ لیا جائے۔ سب سے بڑی بات اتنے بڑے ماحولیاتی نقصان، نقل مکانی، منتقل ہونے اور پیسہ خرچ کرنے کے بعد بھی کیا بندیل کھنڈ کے صرف تین سے چار اضلاع کو ملے گاکیا؟ اس کی تشخیص بھی ضروری ہے۔ اس سے ایک چوتھائی سے بھی کم رقم خرچ کرکے پورے بندیل کھنڈ کے روایتی تالابوں، باوڑی، کنوؤں اور جوہڑوںکی مرمت کی جاسکتی ہے۔ سکڑگئی چھوٹی ندیوں کو ان کی اصل شکل میں لانے کے لیے کام ہوسکتا ہے۔ خیال رہے کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے پانچ ڈیم 100 سال میں دم توڑ گئے ہیں، آزادی کے بعد بنائے گئے پشتے اور اسٹاپ ڈیم پانچ سال بھی نہیں چلے، لیکن پورے بندیل کھنڈ میں ایک ہزار سال پرانے ہزاروں چندیلا دور کے تالاب،لاکھ نظر اندازی اور دیکھ بھال کی کمی کے باوجود آج بھی لوگوں کے گلے اور کھیت تر کررہے ہیں۔ بندیل کھنڈ کی تقدیر بدلنے میںچھوٹے پروجیکٹ کم خرچ میں بغیر باز آبادکاری یا جنگلات کی کٹائی کے،زیادہ موثر ہوں گے، جن کی منصوبہ بندی بھی مقامی سطح پرکی جانی چاہیے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS