نفرت انگیز سیاست کی زبان پر کنٹرول کی ضرورت

0

مولانا قاری اسحاق گورا

کرنل صوفیہ قریشی کے حوالے سے مدھیہ پردیش کے وزیر کنور وجے شاہ کے متنازع بیان نے ایک نیا ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں حب الوطنی کے معیار کو ناموں، نعروں اور وردیوں سے تولا جاتا ہے اور جہاں انصاف کی کرسی اکثر سیاسی رنگ میں رنگی دکھائی دیتی ہے۔ کرنل صوفیہ، جو ملک کی ان چند خواتین میں شامل ہیں جو مسلح افواج میں اعلیٰ عہدے پر خدمات انجام دے چکی ہیں، اْن کے وقار پر کیچڑ اچھالنا صرف ایک فرد کی توہین نہیں بلکہ ایک پورے ادارے کی بے حرمتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وجے شاہ جیسے وزرا کو کیا ضرورت پیش آئی کہ وہ فوجی افسران پر الزام تراشی کرتے پھریں؟جب یہ تنازع سامنے آیا تو سپریم کورٹ نے 19 مئی کو ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (SIT) کی تشکیل کا حکم دیا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اب انصاف کی راہ میں شفافیت آئے گی، لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے، معاملہ قانونی پیچیدگیوں، التوا اور کمرہ عدالت کی موشگافیوں میں الجھتا چلا گیا۔ تین آئی پی ایس افسران کی ٹیم تشکیل دی گئی، اس میں ایک خاتون افسر بھی شامل تھی اور شرط یہ تھی کہ وہ مدھیہ پردیش کیڈر کے ہوں لیکن مدھیہ پردیش سے نہ ہوں۔ گویا سپریم کورٹ کو خود یہ خدشہ تھا کہ ریاستی حکومت کی قربت تحقیقات کو متاثر کر سکتی ہے۔ کیا یہ خدشہ خود اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ سیاست اور انصاف کے بیچ گٹھ جوڑ کا خطرہ کتنا شدید ہے؟
ایس آئی ٹی نے 21 مئی کو جائے وقوعہ کا دورہ کیا، مواد اکٹھا کیا، ایک موبائل فون ضبط کیا، اور کچھ گواہوں کے بیانات لیے۔ مگر سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر رپورٹ کو خفیہ رکھا کہ تحقیقات ابتدائی مرحلے میں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت نے اس بنیاد پر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی کارروائی بھی روک دی کہ ایک ہی معاملے پر دو عدالتیں سماعت نہیں کر سکتیں۔ بظاہر یہ ایک قانونی اصول ہے، مگر عملی طور پر اس کا فائدہ صرف اور صرف کنور وجے شاہ کو ملا۔ وجے شاہ کے لیے ’مزید راحت‘ کی خبر ایک بار پھر اس سچائی کو آشکار کرتی ہے کہ طاقتور لوگوں کے لیے عدالت کے دروازے ہمیشہ نرم ہوتے ہیں۔ جس طرح عدالت نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے انکار کیا، اور جس طرح معاملے کو جولائی تک ٹال دیا گیا، وہ اس تاثر کو مزید تقویت دیتا ہے کہ یہاں انصاف کا ترازو سب کے لیے برابر نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عام شہری سوال کرنے لگتا ہے کہ آخر انصاف کس کے لیے ہے؟ کیا ایک فوجی افسر کی عزت سے کھیلنا اتنا معمولی جرم ہے کہ اس پر محض ایس آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ پر قناعت کر لی جائے؟ کیا وزیر موصوف کی طرف سے معافی یا تردید آنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا؟ یا پھر ہمیں صرف اس بات پر خوش ہو جانا چاہیے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، گویا عدالت کا نام لینا ہی انصاف کا قائم ہو جانا ہے؟ سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ مقدمے کی رپورٹ پبلک نہیں کی جاسکتی کیونکہ تحقیقات ابتدائی مرحلے میں ہیں، ایک سطح پر سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بات باعثِ تشویش ہے کہ اتنے حساس معاملے میں جہاں ایک خاتون فوجی افسر کا نام داؤ پر لگا ہو، شفافیت کو مؤخر کیا جا رہا ہے۔ اس تاخیر سے وہی فائدہ اٹھا رہا ہے جس نے یہ بیان دیا۔ یہ رویہ عدالتی عمل کی غیر جانب داری پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ عدالت نے مداخلت کرنے والے عرضی گزاروں کو بھی نصیحت دی کہ وہ دیگر قانونی راستے اپنائیں، اس میں براہ راست مداخلت نہ کریں۔ سوال یہ ہے کہ جب ریاستی مشینری اور حکومت خود ایک فریق بن چکی ہو، تب ’دیگر قانونی راستے‘ بھی حکومت کے سایے میں ہی پلتے ہیں۔ پھر عام شہری کہاں جائے؟ اگر وجے شاہ جیسے افراد کو اس طرح ’راحت‘دی جاتی رہی، تو کل کوئی اور وزیر کسی اور خاتون افسر پر الزام لگا دے گا، اور وہ بھی’ایس آئی ٹی‘ اور ’اسٹیٹس رپورٹ‘ کی گتھیوں میں الجھ جائے گی۔ اگر یہی روش رہی تو یہ سوال بھی کھڑا ہوگا کہ کیا فوج میں خدمات انجام دینے والی خواتین کو بھی اب اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینا ہوگا؟ یہ مقدمہ دراصل اس حقیقت کی عکاسی ہے کہ ہندوستانی جمہوریت میں سیاست اور عدلیہ کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ ایک طرف حکومتیں اپنے وزیروں کے لیے ڈھال بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں، دوسری طرف عدالتیں کبھی احتیاط کے نام پر، کبھی طریقۂ کار کے نام پر فیصلہ مؤخر کرتی رہتی ہیں۔ ایسے میں عام شہری کسے اپنا محافظ سمجھے؟
کرنل صوفیہ قریشی ایک علامت ہیں اْن تمام خواتین کی جو اپنے شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں، جو اس ملک کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اْن پر اس طرح کیچڑ اچھالنا صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ اخلاقی اور قومی مسئلہ بھی ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ سیاست دانوں کو زبان پر لگام دینا سیکھنا ہوگا۔ عوام کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ حب الوطنی صرف نعروں میں نہیں، کردار اور سچائی میں پنہاں ہے۔ جو لوگ ملک کی حفاظت کرنے والے سپاہیوں پر الزامات لگاتے ہیں، انہیں سیاسی میدان سے نکال باہر کرنا ہی جمہوریت کی اصل فتح ہے۔ عدلیہ کو بھی چاہیے کہ وہ صرف قانونی طریقۂ کار کی پاسداری پر قناعت نہ کرے بلکہ عوامی اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے مؤثر، فوری اور شفاف کارروائی کرے۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ کل کو کوئی اور کرنل صوفیہ اپنے وقار کے لیے دہائی دیتی پھرے اور عدالتیں اسٹیٹس رپورٹ کے پیچھے چھپتی رہیں۔کرنل صوفیہ قریشی اور وزیر کنور وجے شاہ کے درمیان سامنے آنے والا تنازع محض ایک شخصی اختلاف یا وقتی سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ہندوستانی جمہوریت، عدالتی وقار اور عسکری اداروں کے تقدس پر اٹھتا ہوا وہ سوال ہے جو اب ہر ذی شعور شہری کے ذہن میں گونج رہا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم سوچیں: کیا وطن کی خدمت کرنے والی وردی بھی سیاسی بیان بازی سے محفوظ نہیں رہی؟ کیا کسی خاتون فوجی افسر کی دہائی پر بھی انصاف کا پہیہ سست پڑ جاتا ہے؟ اور کیا طاقتور سیاست دانوں کے لیے قانون، سچ، اور اخلاقیات ایک بار پھر محض دکھاوے کے الفاظ بن چکے ہیں؟ وجے شاہ کے خلاف ایس آئی ٹی تشکیل دینا بظاہر عدالتی نظام کی جانب سے ایک فعال قدم تھا، لیکن اس کے بعد پیش آنے والی تاخیر، احتیاط اور مبہم وضاحتیں اس فعال اقدام کو کاغذی کارروائی میں بدلتی نظر آئیں۔ رپورٹ کو خفیہ رکھنا، ہائی کورٹ کی سماعت روک دینا، اور معاملے کو جولائی تک مؤخر کر دینا عوام میں پائے جانے والے اس شکوک و شبہات کو مزید بڑھا دیتا ہے کہ طاقتوروں کو ہمیشہ مہلت، نرمی اور ’راحت‘ کیوں دی جاتی ہے۔یہ سوال اب ناگزیر ہو چکا ہے کہ کیا عدالتوں کو محض طریقۂ کار، ضابطے اور شواہد کی سطح پر فیصلہ دینا چاہیے یا انہیں وہ اعتماد بھی بحال رکھنا چاہیے جو عوام کو انصاف کے نظام پر ہونا چاہیے؟ انصاف صرف فیصلوں کے صفحات پر نہیں بلکہ بروقت کارروائی، شفاف عمل، اور یکساں معیار پر عمل سے قائم ہوتا ہے۔ اگر ایک خاتون کرنل، جو ملک کے لیے اپنے جان کی بازی لگا سکتی ہے، اْسے انصاف کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑے، تو عام شہری کا کیا حال ہوگا؟ وہ عوام جو روزانہ قانون، پولیس، اور عدالتوں کے رحم و کرم پر جیتے ہیں، اْن کے لیے عدلیہ کی تاخیر ایک مایوسی کا اعلان ہے۔ ایک اور قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ کرنل صوفیہ قریشی محض ایک فرد نہیں، بلکہ وہ ہزاروں لاکھوں اْن خواتین کی نمائندہ ہیں جو وطن عزیز میں اپنی صلاحیتوں، ہمت، اور قربانیوں سے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ اْن کے خلاف کسی بھی سیاسی شخصیت کی زبان درازی دراصل ایک سوچ کی عکاسی ہے جو آج بھی عورت کو کمزور، تابع اور محض تماشائی سمجھتی ہے۔ جب ایک خاتون کرنل کے خلاف بے بنیاد الزام لگایا جاتا ہے تو دراصل یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ عورت خواہ کتنی بھی بااختیار ہو جائے، وہ سیاست کی زبان کا آسان نشانہ بن سکتی ہے۔
اس واقعے کے ذریعے ایک اور تلخ حقیقت بھی ہمارے سامنے آئی کہ جب سیاست کا استعمال محض الزام تراشی، ووٹ بینک، اور نفرت انگیز بیانیہ کے لیے کیا جائے تو نہ ادارے محفوظ رہتے ہیں، نہ افراد، اور نہ ہی وہ نظریات جن پر ایک مہذب معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ وزیر موصوف کی طرف سے اب تک کوئی معقول صفائی یا معذرت سامنے نہیں آئی، بلکہ تمام تر توجہ اس امر پر رہی کہ قانونی پیچیدگیوں، اسٹیٹس رپورٹ اور وقت کے بہانے سے اصل جواب دہی سے بچا جائے۔ یہ وہی انداز ہے جو ہمارے عوامی نمائندوں کو بے اعتبار بناتا جا رہا ہے۔
اس واقعے نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ اگر ہم نے اب بھی زبان، سیاست، اور انصاف کے توازن کو درست نہ کیا، تو وہ دن دور نہیں جب عوامی اعتماد کا بحران ناقابلِ واپسی حد تک جا پہنچے گا۔ اگر ایک خاتون کرنل کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکتا، تو عام شہری کس امید پر جئے گا؟ اور اگر وزیر اپنے الفاظ پر قائم رہتے ہوئے راحت پر راحت حاصل کرے گا، تو ملک میں اخلاقیات کس دروازے پر دستک دے گی؟

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS