ہندوستان میں ’برہمنیت ‘کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ان پر پڑنے والی ہر چوٹ بے اثر ہورہی ہے۔اصلاح کی ہر کوشش اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی ہے۔آج بھی ہندوستانی معاشرہ میں کسی شخص کو اس کی ذات، مذہب، قبیلہ، رنگ، نسل، خاندان، زبان، کسی خاص علاقے میں پیدائش کی بنیاد پر کسی کام کیلئے اہل یا نااہل سمجھا جارہا ہے۔ دوسرے انسانوں سے افضل ہی نہیں بلکہ فوق البشر ہونے کا خبط بھی اس ذہنیت کاایک خاص وصف بن چکا ہے۔ برہمنیت کی اس سفاک گرفت سے کسی کا فرارممکن نہیں رہاہے، اس کی کارفرمائی ہر جگہ نظرآتی ہے۔تمام کوششوں کے باوجود اب تک نہ تو ذات پات کے مکروہ نظام کی جکڑبندی ڈھیلی ہوپائی ہے اور نہ چھوا چھوت کے خلاف چلائی جانے والی مہم کاہی کوئی مثبت اثر ملک بھر میں کہیں نظر آتا ہے۔ 75سال سے جاری سوشلزم اور سیکولرازم کا فیضان بھی اس برہمنیت کی ضرر رسانی کا مقابلہ نہیں کرپارہاہے۔آج دنیا جب چاندستاروں سے بھی آگے زہرہ و مریخ تک رسائی حاصل کرچکی ہے۔ ہندوستان کا ’برہمن واد‘ اپنے ہم نسل انسانوں کو انسان ماننے سے بھی انکاری ہے۔ جدید تہذیب، ہمہ رنگ معاشرت، تقدیس آدم، مساوات انسانی، پرامن بقائے باہمی جیسے خوبصورت اور روشن اصولوں کو پائوں تلے روندتے ہوئے یہ ذہنیت،بزعم خود اپنے سے ’کم تر‘ انسانوںکو انسان ہونے کے وقار سے بھی محروم کرنے پر آمادہ ہوچکی ہے۔یہ ذہنیت اتنی خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے کہ تذلیل آدم کا گھنائونا جرم بھی اس کیلئے باعث افتخار ٹھہرتا ہے اور اپنے معاشرہ میںیہ ہیرو قرار پاتے ہیں۔ اگرایسا نہیں ہوتا تو اپنے ہی ہم نسل پر پیشا ب کرنے جیسا گھنائونا اور مکروہ جرم کرنے والے پرویش شکلا کو کہیں سے حمایت نہیں ملتی۔ لیکن آج پرویش شکلاکو ہیرو بناکر اس کے منہدم کیے گئے مکان کی تعمیر نو کیلئے باقاعدہ چندہ کی اپیلیں جاری ہورہی ہیں۔اس کے ہم مشرب اس اپیل کاخیرمقدم بھی کررہے ہیں۔
خبر ہے کہ مدھیہ پردیش کے سدھی ضلع میں ایک قبائلی شخص پر پیشاب کرنے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد انتظامیہ نے کارروائی کیلئے دباؤ بنانے کے بعد ملزم پرویش شکلا کے گھر کے کچھ حصے کو بلڈوزر سے مسمار کردیاتھا،اس گھر کو دوبارہ تعمیر کرنے میں مدد کیلئے مدھیہ پردیش کے ’برہمن سماج‘ نے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملزم پرویش شکلا اپنی بیوی، تین سالہ بیٹی اور والدین کے ساتھ اس مکان میں رہتا تھا، جسے انتظامیہ نے مسمار کر دیا تھا۔ گھر کے انہدام سے برادری کے لوگ ناراض ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہی کچھ لوگوں نے دلیل دی ہے کہ جب شکلا نے جرم کیا تھا تو اس میں اس کے والدین، بیوی اور بیٹی کا کیا قصور تھا،گھر کے انہدام نے انہیں ’بے گھر‘ کر دیا۔’ برہمن سماج‘ کی اس اپیل کے ساتھ پرویش کے والد رماکانت شکلا کا اکاؤنٹ نمبربرہمن کمیونٹی سے جڑے وہاٹس ایپ گروپس میں شیئر کیا جا رہا ہے اور ریاست بھر سے لوگوں نے چندہ دینا شروع کر دیا ہے۔اکھل بھارتیہ برہمن سماج کے ریاستی صدر پشپیندر مشراکاکہنا ہے کہ ان کی تنظیم اس خاندان کا گھر بنائے گی جسے گرایا گیا تھا۔ انہوں نے ابتدائی طور پر 51,000 روپے کی امداد فراہم کی ہے اور گھر کے سربراہ کا اکاؤنٹ نمبر ان کی تنظیم میں پھیلا دیا گیا ہے۔ گھر کی تعمیر میں لوگ اپنا حصہ بھی ڈال رہے ہیں۔ ان کی تنظیم پرویش شکلا کا گھر منہدم کیے جانے کے خلاف مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کرنے والی ہے۔
پرویش شکلا کے خلاف ہونے والی انتظامیہ کی کارروائی کسی معمولی الزام میں نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف جرم کے تحت کی گئی ہے۔یہ درست ہے کہ کسی فرد کے جرم کی سزااس کے اقربا کو نہیں دی جاسکتی۔ لیکن اس معاملے میں مدھیہ پردیش انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پرویش شکلا کے ناجائز قبضہ کو منہدم کیاگیا ہے۔ ناجائز قبضہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے گھر کا تھا، اس لیے بے گھر کیے جانے کا واویلا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔مگر برہمنیت، اہل خانہ کی بے گھری کو جواز بناکر انسانیت کے مجرم پرویش شکلا کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔انتظامیہ نے اینٹ اور کنکریٹ سے بنائی گئی پرویش شکلا کی عمارت کا حصہ بھلے ہی منہدم کردیا ہو، لیکن ہندوستانی سماج میں گہرائی تک پیوست برہمنیت اوراعلیٰ ذات کی ذہنیت تک اس کا بلڈوز نہیں پہنچ سکا ہے۔اگرہندوستان کو دنیا کے ساتھ قدم ملا کر آگے بڑھنا ہے تو اس ذہنیت کے خلاف مسلسل کام کرتے رہنے کی ضرورت ہے، وقتی تازیانے ’برہمنیت‘ کا بال بیکا نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کے خلاف ردعمل کی ایک الگ سیاست شروع ہوجانے کا بھی خدشہ برقراررہتا ہے جو پرویش شکلا کے معاملے میں دیکھا جا رہا ہے۔
[email protected]
ذہنیت بدلنے کی ضرورت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS