5برسوں کی تیسری میعادکار شروع کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی نے نئی حکومت میں پرانے وزرا کو وہی قلمدان دے کر شاید یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے کام کرنے کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں ہونے والی ہے۔ جس طرح انہوں نے سابقہ دو حکومتیں چلائیں، اس بار بھی وہی اندازحکمرانی ہوگا۔حالانکہ قیاس یہ لگایاجارہاتھا کہ جنتادل متحدہ اور تیلگودیشم پارٹی کا تعاون جاری رکھنے کی قیمت چکانی ہوگی، طور و اطوار بدلنے ہوں گے، مجبوریوں اور مصلحتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا لیکن انہیں نہ تو حکومت سازی میں کسی رخنہ اندازی کا سامنا کرناپڑا اور نہ وزارتوں کی تقسیم کے معاملے میں کوئی اڑچن آئی۔تمام بڑی اور اہم وزارتوں میں انہوںنے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ داخلہ، خارجہ، دفاع، خزانہ اور ریلوے جیسی اہم وزارتیں ان ہی وزرا کو سونپ دی جو گزشتہ بار تھے۔
ان کی ترجیحات کی فہرست بھی غالباًوہی ہے جسے وہ گزشتہ 10 برسوںسے اپنے سینہ سے لگائے گھوم رہے ہیں۔اس فہرست میں بے روزگاری، مہنگائی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، ترقی، امن و امان، جمہوریت کا استحکام، سبھی کی شراکت داری وغیرہ جیسے عوامی موضوعات کا سرے سے کوئی ذکر نہیں ہے۔اگرا یسا نہ ہوتا تو وہ اپنے مربی اور سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کی تادیب اور مشورہ نما ہدایت کے بعد منی پور کا دورہ ضرور کرتے اورامن و امان کے قیام کی کوشش کے ساتھ ساتھ فساد زدگان کی اشک سوئی کا منصوبہ بھی بناتے، مگر انہوں نے ایسا کچھ بھی نہ کرکے یہ واضح پیغام دے دیا کہ ان کی تیسری میعاد کار میں بھی امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ترجیحات کی فہرست میں جگہ نہیں پاسکی ہیں۔
اسے سوئے اتفاق کہیں کہ جس دن نریندر مودی تیسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدہ کا حلف لے رہے تھے، اسی دن جموں و کشمیر میں مبینہ طور پر ویشنو دیوی جانے والے عقیدت مندوں پردہشت گردانہ حملہ ہوااوراس کے بعد سے تو حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جموں و کشمیر سے لے کر منی پور، چھتیس گڑھ وغیرہ میں پے درپے دہشت گردی اور فساد کے واقعات پیش آئے۔ پیر کے روزجموں و کشمیر کے کٹھوعہ میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے ایک شہری زخمی ہوا۔اس سے قبل جموں خطہ کے ریاسی میں شیو کھوری غار مندر جانے والی بس پر حملہ کیا گیا تھا۔ بس بے قابوہو کر کھائی میں جا گری۔ اس واقعہ میں 9 افراد ہلاک اور 33 زخمی ہوئے۔ کل منگل کی دیر رات جموں و کشمیر کے ڈوڈہ میں ایک فوجی اڈے پر حملہ ہوا، آج بدھ کی دوپہر تک دہشت گردوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان تصادم ہوتا رہا۔ اس واقعہ میں بھی ایک جوان کی جان گئی اور ایک دہشت گرد بھی ہلاک ہوا۔اسی طرح چھتیس گڑھ میں بھی بدامنی کی چنگاری بھڑک رہی ہے۔ اس ریاست کے بلودابازار میں پرتشدد مظاہرے میں کلکٹر اور ایس پی کے دفاتر کو آگ لگا دی گئی، اس کے علاوہ 100 سے زائد گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس واقعہ نے عوام کے ساتھ ضلع حکام اور سرکاری ملازمین میں دہشت پھیلادی ہے۔پیر کے روز ہی منی پور میں مشتبہ کوکی دہشت گردوں نے جیری بام جانے والے پولیس قافلے پر گھات لگا کر حملہ کیا۔ اس میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا۔ یہ واقعہ منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کے ضلع کے دورے سے عین پہلے ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جیری بام ضلع عام طور پر پرامن رہتا ہے مگر وہاںگزشتہ ہفتے سے کشیدگی بڑھ رہی ہے۔وزیر اعظم نہ تو شورش زدہ منی پور گئے اور نہ ہی چھتیس گڑھ اورجموں و کشمیرکے معاملے میں کوئی امیدافزا ردعمل ظاہر کیا ہے۔
منی پور ایک سال سے زیادہ عرصے سے پریشان ہے۔ کوکی اور میتئی گروہوں کے درمیان ہونے والے پرتشدد تنازعات کے سامنے انسانیت پوری طرح دم توڑ چکی ہے۔ چھتیس گڑھ نکسل متاثرہ ریاست ہے جہاں آئے دن دہشت گردی کے واقعات سامنے آرہے ہیں اورجموں و کشمیر میں امن اور معمول کی واپسی کے دعوے کے باوجودمسلسل ہورہے دہشت گردانہ واقعات ملک میںبڑھتی بد امنی اور حکومت کی ناکامی کاکھلا اشتہارہیں۔
امن و امان، ملک کا استحکام، سالمیت کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم مودی اپنی ترجیحات کی فہرست پر نظر ثانی کرنے کے ساتھ ساتھ سنگھ سربراہ موہن بھاگوت کے مشورہ کے مطابق انداز حکمرانی میں بھی تبدیلی لائیں۔ اپنی سیاسی سہولت اور وقتی مفاد سے اوپر اٹھ کر شورش زدہ علاقوں میں فروغ پارہی نسلی اور فرقہ وارانہ تشدد کی آگ بجھانے کے فوری اقدامات کریں۔
[email protected]
انداز حکمرانی بدلنے کی ضرورت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS