ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر بہت ساری خوبیاں اور صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔ یہ انسانی صلاحیت و استعداد اور اس کے متنوع کمال وہنر کا نتیجہ ہے کہ آ ج ہمارے سامنے ایسی ایسی چیزیں تحقیق و تفتیش اور جدید اکتسابات واکتشافات کی شکل میں وقوع پذیر ہورہی ہیں جن کے متعلق شاید ہی کسی نے سوچا ہو۔ انسانی استعداد اور اس کی اچھائیوں کو بروئے کار لانے سے صرف فائدہ اسی شخص یا فرد کو نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی تعمیری قدروں اور ہنر مندیوں سے پورا معاشرہ استفادہ کرتاہے۔ جو افراد باہنر، متنوع صلاحیتوں، اسی طرح ماہر فن ہوتے ہیں تو وہ معاشرے کے دیگر نوجوانوں کے لیے نمونہ عمل بن جاتے ہیں۔ چنانچہ دانشمند معاشرے، قومیں اور ادارے نوجوانوں کی مہارت اور تجربہ کاروں کی نہ صرف قدر کرتے ہیں بلکہ وہ انہیں مناسب مواقع بھی فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ مزید ترقی کرسکیں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔ جب باصلاحیت افراد کی خصوصیات اور ان کے فن کا بلا تعصب احترام کیا جاتا ہے تو یقینا اس سے معاشرے میں بقائے باہم اور توازن و اعتدال کی خوشگوار فضا ہموار ہوتی ہے۔ آج نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ناگفتہ بہ حالات کے بھنور میں پھنس کر عجیب وغریب کشمکش میں مبتلا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنی خدادا د صلاحیتوں کے ذریعہ ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی اور اس کی قدرو منزلت کو بڑھانے کیلئے استعمال کرناچاہیے تھا، افسوس آج ان بے پناہ خصوصیات کا نہ صرف ضیاع ہورہا ہے بلکہ ان کی تشکیل و تعمیر ان خطوط پر کرائی جارہی ہے جن سے معاشرے میں بد امنی اور غیر یقینی کیفیت میں لگاتار اضافہ ہو یا دیگر غیر سنجیدہ باتیں ابھر کر سامنے آ ئیں۔ تاہم نوجوانوں اور قوم و ملت کے مستقبل کو روشن وتابناک بنانے یا عظمت رفتہ کی بازیابی کے لیے نوجوانوں کو صالح فکر اور پاکیزہ نظریات سے مزین کرنا ہوگا۔ سوال تو ارباب حل وعقد سے یہ بھی ہے کہ آ ج کتنے صلاحیت مند نوجوان ہر شعبہ اور محکمہ میں مل جائیں گے کہ ان کے ساتھ اقربا پروری یا سازشی کامرانیوں کی وجہ سے صرف نا انصافی ہی نہیں ہوئی بلکہ ان کا استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ بر عکس اس کے آ ج بھی روئے زمین پر ایسے بہت سے معاشرے اور ممالک ہیں کہ جہاں حق و استعداد کی بنیاد پر عہدوں اور منصبوں کو دیا جاتا ہے، ان کے یہاں تعلقات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آ ج مغربی معاشرے نے علم وفن یا ایجادات و اختراعات کے میدان،اسی طرح جدید ٹیکنالوجی میں جو نمایاں ترقی حاصل کی ہے، وہ شاید کسی اور ملک کے حصے میں آئی ہو۔ ان تمام احوال، واقعات اور اسباب و وجوہ پر ہمیں نہایت متانت سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ یوں توہمارے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، اس پر ستم یہ کہ ا چھی صلاحیتوں کے مالک پیچھے رہ جاتے ہیں۔
جو علوم و فنون ہم نے ایجاد کیے اور ایک زمانہ تک ہمارا تقریباً تمام شعبوں میں شہرہ رہا ہے، اس کے باوجود اب ہمارے ادارے ان چیزوں کو حاصل کرنے یا اپنے نصاب و نظام میں داخل کرنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ اپنی شناخت کو برقرار رکھنے اور وجود کو تسلیم کرانے کیلئے علمی اعتبار سے بھی ہمیں آراستہ ہونا ہوگا، نیز وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر مضبوط منصوبہ بندی بھی کرنے کی اہمیت سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہاں اس بات کا ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ نوجوانوں کی تربیت یا صحیح رہنمائی نہ کرنے کی وجہ سے بھی ہم نے اپنا بہت نقصان کیا ہے۔ نوجوانوں کی درست رہنمائی کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے۔ آ ج کا دور اختصاص کا دور ہے، اس لیے طلبا اور نوجوانوں کی ایسی ترتیب و تشکیل کی جائے تاکہ وہ الگ الگ میدانوں کے ماہر بن کر ابھریں۔
آج کے اس دور میں مدارس کے طلبا میںاسکل ڈیولپمنٹ پروگرام کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ اب اس کے لیے بہت سارے اداروں میں بیداری پیدا ہوئی مگر وہ ابھی ناکافی ہے۔ آج کے دور میں بہت ساری چیزیں اور تقاضے تبدیل ہوئے ہیں، لہٰذا ہمیں ان ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر مدارسِ دینیہ کے طلبا کی تربیت کرنی ہوگی۔ آج کے تکثیری سماج کے تقاضوں سے انہیں روشناس کرانا ہوگا۔ مدارس کو چاہیے کہ وہ ادیان کے ماہرین و محققین کی ایک کھیپ تیار کریں۔ اگر ماضی میں جھانکتے ہیں تو پتہ چلتا ہے ہماری درسگاہوں اور دانش گاہوں میں مطالعہ ادیان پر کافی کام ہوا ہے۔ ابوریحان البیرونی، مسعودی، یعقوبی کے علاوہ خواجہ حسن نظامی دہلوی، ابو رحمت حسن میرٹھی وغیرہ نے نہایت قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں۔ مگر موجودہ وقت میں مدارس سے تقابل ادیان پر تحقیقات و تصنیفات کا سلسلہ رکا ہے چنانچہ اب اس کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سارے طلبا صحافت اور جرنلزم سے دلچسپی رکھتے ہیں، ان کی تربیت کے لیے بھی نظم و نسق کرنے نیز گاہے بگاہے اس موضوع کے ماہرین کے محاضرات کرائیں جائیں۔ یقینا ذرائع ابلاغ میں ہماری وافر مقدار میں کمی یا عدم دلچسپی کی وجہ سے آ ئے دن طرح طرح کے نہ صرف بے بنیاد اعتراضات کو برداشت کرنا پڑتا ہے بلکہ تعدی اور ظلم و جور کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب تک میڈیا میں ہماری حصہ داری قابل ذکر نہیں ہوگی،اس وقت ہمیں بہت سارے مسائل کا سامنا رہے گا۔ مدارس کو معاشیات و اقتصادیات پر بھی توجہ دینی ہوگی، جب ہم اکابر علماء کی سوانح کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے معاشیات پر اکابر علماء نے نہایت وقیع اور قیمتی کام کیا ہے۔ ابن ندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں اور حاجی خلیفہ نے کشف الظنون میں علم معاشیات سے متعلق پچیس کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ اردو مصنّفین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جنہوں نے اقتصادیات کو اپنی تحقیقی سرگرمیوں کا موضوع بنایاہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب اس موضوع پر ہماری درسگاہوں سے وقیع تحقیقات نہیں آ رہی ہیں۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ الغرض مدارس معاشرے کی تعمیر وترقی اور اس کی درست رہنمائی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مدارس کی طرف انسانیت کی نظریں مرکوز ہیں۔ وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر طلبا کی رہنمائی کرنی ہوگی۔
جو علوم و فنون ہم نے ایجاد کیے اور ایک زمانہ تک ہمارا تقریباً تمام شعبوں میں شہرہ رہا ہے، اس کے باوجود اب ہمارے ادارے ان چیزوں کو حاصل کرنے یا اپنے نصاب و نظام میں داخل کرنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ اپنی شناخت کو برقرار رکھنے اور وجود کو تسلیم کرانے کیلئے علمی اعتبار سے بھی ہمیں آراستہ ہونا ہوگا، نیز وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر مضبوط منصوبہ بندی بھی کرنے کی اہمیت سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آ خر میں یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مدارس کے طلبا بہت ساری صلاحیتوں کے علمبردار ہوتے ہیں، ان کی مہارت، قابلیت و لیاقت سے اسی وقت مکمل استفادہ کیا جاسکتا ہے جب کہ ان کو الگ الگ میدان کا ماہر بنایا جائے، ان کی تربیت واصلاح اور تحقیقی مزاج کو متوازن اور پختہ بنانے کے لیے ماہرین کے محاضرات وخطبات کرائے جائیں تاکہ وہ اپنے مستقبل کو خود اپنے لیے روشن بناسکیں اور اپنی بیشمار صلاحیتوں سے معاشرے کو فائدہ پہنچا سکیں۔
[email protected]