ایک بار پھر ملک کے عدالتی نظام میں شفافیت اوراصلاحات کی مانگ اٹھ رہی ہے۔اس بار جسٹس یشونت ورما کے مکان سے 15کروڑروپے کی برآمدگی کو لے کر عدالتی سسٹم پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ، حالانکہ یہ پہلا معاملہ نہیں ہے ، اس سے پہلے بھی کئی ایسے معاملے یا فیصلے سامنے آئے ، جن پر شبہات کا اظہارکیاگیا۔اس بار جج کے مکان سے جس طرح بڑی مقدار میں نوٹوں کی برآمدگی ہوئی یا جلے ہوئے نوٹ ملے ، اس سے پورا ملک ہل گیا اورعدلیہ پر لوگوں کا بھروسہ متزلزل ہونے لگا ۔کچھ ماہرین قانون ججوں کی تقرری کیلئے بنائے گئے کالجیم سسٹم میں بھی تبدیلی کی مانگ کرنے لگے ہیں ، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ کالجیم سسٹم ہی کے ذریعہ ایسے جج مقرر کئے جاتے ہیں ۔غور طلب امرہے کہ اتنے بڑے معاملہ پر سیاستداں خاموش ہیں ۔جسٹس ورما کا معاملہ بھی کچھ ایساہے کہ سپریم کورٹ بھی مسلسل کارروائی کرتاجارہاہے ۔پہلے دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو معاملہ کی داخلی انکوائری کا حکم دیا اورجسٹس ورما کو الہ آباد ہائی کورٹ واپس بھیجنے کا فرمان صاد ر کردیا، جس کی مخالفت وہاں کی بار ایسوسی ایشن نے کی۔
جب داخلی انکوائری کی رپورٹ پیش ہوئی ، تومزید جانچ کیلئے سہ رکنی کمیٹی بنادی گئی،جسٹس ورما کے جوڈیشیل ورک پر پابندی لگادی گئی ہے اوراب ان کے مکان سے نوٹوں کی برآمدگی اورجلے ہوئے نوٹوں کا ویڈیو جاری کردیا گیاہے، یعنی سپریم کورٹ خود ہی جسٹس ورما کو پوری طرح بے نقاب کرنے پر آمادہ ہے ۔معاملہ اتنا سنگین ہے کہ سپریم کورٹ کوئی بھی سخت قدم اٹھائے لوگوں کو کم ہی لگ رہاہے ، جبکہ لوگوں کی مانگ انہیںاس سے کہیں زیادہ کی سزا ملنی چاہئے ۔کسی بھی جج کو عہدہ سے ہٹانے کی آخری کارروائی مواخذہ کی صورت میں ہوتی ہے ، لیکن مواخذہ کاموجودہ عمل اس قدر پیچیدہ ہے کہ اس کی تکمیل نہیں ہوپاتی ، اس کا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے 75سالوں میں ایک بھی مواخذہ پائے تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جج کوعہدہ سے ہٹانا آسان نہیں ہے ۔
سوال صرف جسٹس ورما کے معاملہ کا نہیں ہے ۔ یہ بحث ملک میں ہمیشہ چلتی رہتی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جج صاحبان کو کسی سیاسی عہدے پر فائز نہیں ہونا چاہئے ، لیکن ملک میں سپریم کورٹ اورہائی کورٹوں کے کتنے سابق ججوں کو سیاسی عہدوں پر فائز کیا گیا ۔ایسے بھی جج ہوئے ہیں ، جنہوں عہدہ سے استعفیٰ دے کر پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اورجیت بھی گئے۔ایسابھی دیکھنے کو ملا کہ ایک جج نے کھل کر آرایس ایس سے اپنی وابستگی کا اظہارکیا ۔کچھ عرصے قبل الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھریادونے اکثریتی فرقہ کی بالادستی کی بات کرتے ہوئے اقلیتی فرقہ کے خلاف توہین آمیز الفاظ کا استعمال کیا تھا۔ لوگ اس طرح کے ججوں کے سابقہ فیصلوں پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں، لیکن کچھ نہیں ہوا، کیونکہ سسٹم کچھ ایساہے کہ زیادہ کارروائی کی گنجائش نہیں رہتی ہے ۔عدلیہ کی ساکھ اورامیج کو نقصان پہنچتا رہتاہے اورملک اپنی رفتار سے آگے بڑھتارہتا ہے ، پھر لوگ خود اس طرح کے واقعات کو بھول جاتے ہیں ۔ جب کوئی نیا واقعہ پیش آتاہے ، تو پرانے واقعات زیر بحث آتے ہیں ، لیکن جب پہلے ان کے خلاف کچھ نہیں ہوا ، تو بعد میں کیا ہوگا؟عدالتی تقرریوں میں شفافیت بڑھانے کیلئے 1993میں جو کالجیم سسٹم بنایا گیا تھا، آج یہ سوال کیا جارہاہے کہ آخر اس سسٹم کے ذریعہ ایسے ججوں کی تقرری کیسے ہوجاتی ہے ؟ کیا تقرری سے پہلے ان کی ٹھیک سے چھان بین نہیں ہوتی ؟کیاان کی غیرجانبداری کا امتحان نہیں لیا جاتا؟اس طرح کے کئی سوالات ہیں ،جو لوگوں کے دماغ میں پیداہورہے ہیں اوران کا کوئی جواب نہیں دیا جارہا ہے ۔وقتی طورپر معمول کی کارروائی سے سبھی کومطمئن کیا جاتاہے ، لیکن سسٹم میں خرابی کہاں ہے ، اس کا علاج تلاش نہیں کیا جاتاہے ۔
ملک کے موجودہ حالات میں صرف عدلیہ ہی ایک ایسی جگہ ہے ، جس پر لوگ بھروسہ کرتے ہیں اورسوچتے ہیں کہ کہیں اورسے انصاف ملے یا نہ ملے، وہاں سے دیر سویر انہیں انصاف ضرور ملے گا۔یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ انصاف حاصل کرنامشکل اورمہنگا ہے ۔ طویل مقدمہ بازی اوروکیل کی فیس پر کافی خرچ کرنا پڑتاہے ۔اب جسٹس ورما کے مکان سے نوٹوں کی برآمدگی کچھ اورہی کہانی بیان کرتی ہے ۔معاملہ کافی سنگین ہے ۔سوال شفافیت اوربھروسہ کا ہے ، جس کو برقرار رکھنا وقت کا تقاضا بھی ہے اورضروری بھی ۔اس لئے عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت کافی بڑھ گئی ہے ۔r