پھر ڈٹے کسان، کیسے نکلے گا سمادھان؟

0

ستاسی  دن پرانی کسان تحریک میں 99سال پرانے ایک ایسے واقعہ کی دلچسپ مماثلت دیکھنے کو مل رہی ہے، جسے ہماری آزادی کی تحریک کا ٹرننگ پوائنٹ بھی سمجھا جاتا ہے۔ محض چار دن بعد ہم اس واقعہ کے صدی سال میں داخل ہونے والے ہے۔ یہ واقعہ تھا چوری چورا کا، جہاں عدم توازن تحریک کے دوران ہوئے تشدد میں تحریک کاروں نے پولیس چوکی پھونک دی تھی جس میں 22پولیس اہلکاروں کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ اس کے مقابلہ میں 26جنوری کو لال قلعہ کے واقعہ میں جان-مال کا نقصان بھلے ہی کم ہوا ہو، لیکن زخم کہیں زیادہ گہرا نظر آتا ہے۔ چوری-چورا کے تشدد سے غمزدہ ہوکر عدم تشدد کے سب سے بڑے پجاری مہاتماگاندھی نے تو عدم تعاون تحریک واپس لے لی تھی، لیکن کسان تحریک اس کے برعکس راہ پر جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ حالاں کہ واقعہ کے اگلے دن ایسا لگا تھا کہ تحریک کے کچھ لیڈروں کے نہ چاہنے کے باوجود کسانوں نے بھی بڑے پیمانہ پر گھرواپسی کا ذہن بنالیا ہے، لیکن اس کے بعد ہوئے واقعات نے پھر سے تصویر بدل دی ہے۔
لال قلعہ کے واقعہ کے کفارہ کے لیے کسان لیڈروں نے گاندھی جی کی برسی پر ایک دن کا اُپواس تو رکھا، لیکن تحریک کو نئے سرے سے تیز کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ اسے تحریک کا پارٹ-2بھی کہہ سکتے ہیں اور اس میں دو تبدیلیاں بہت واضح نظر آنے لگی ہیں۔ پہلی یہ کہ سندھو بارڈر کی جگہ اب غازی پور بارڈر تحریک کی نئی امید بن گیا ہے، جہاں راکیش ٹکیت کا گروپ دھرنے پر بیٹھا ہے۔ نئی امید نئی حمایت لے کر آئی ہے جس سے تحریک کا مرکز اب پنجاب اور ہریانہ سے نکل کر مغربی اترپردیش کی جانب شفٹ ہوگیا ہے اور یہی دوسری تبدیلی بھی ہے۔ ٹکیت کے گاؤں سمیت مغربی یوپی کے کئی حصوں کے ساتھ ساتھ ہریانہ کی تمام جاٹ کھاپیں بھی اب کھل کر ٹکیت کی حمایت میں آگئی ہیں۔ ہر دن تیزی سے بدل رہے حالات اور اپنے نفع نقصان کو دیکھتے ہوئے کسان تحریک کو اب تک باہر سے حمایت دے رہی کئی اپوزیشن پارٹیاں بھی اب کھل کر اپنی حصہ داری نبھانے کے لیے ایک ایک کرکے سامنے آنے لگی ہیں۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی سمیت کئی اپوزیشن پارٹیوں نے جمعہ کو صدارتی خطاب کا بائیکاٹ کرکے حکومت کو اس بابت واضح اشارے بھی دے دیے۔
ان تمام واقعات کے درمیان یہ سب کیوں ہوا جیسے سوال اب شاید حل کے نظریہ سے بے معنی ہوگئے ہیں۔ لال قلعہ کا قصوروار کون ہے؟ کیا غازی پور بارڈر پر انتظامیہ کی جارحانہ کارروائی نے کسانوں کو نئے سرے سے صف آرا کردیا؟ غازی پور اور سندھو بارڈر پر ہوا تشدد واقعی مقامی لوگوں کی ناراضگی ہے یا کوئی سیاسی سازش؟ کیا اپواس سے کسان لیڈروں کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی؟ ایسے نہ جانے کتنے سوالات کے جواب مل بھی جائیں گے تو ایک نیا سوال پیدا ہوگا کہ کیا اس سے کسانوں اور حکومت کا ارادہ مکمل ہوجائے گا؟
بیشک ان سوالات کے جواب اس نظریہ سے ضروری ہیں کہ ان کے پیچھے کی اصلی طاقتیں بے نقاب ہوں، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے دو ماہ سے زیادہ پرانے ہوچکے تعطل کو سلجھانے کا عمل متاثر نہ ہو۔ کسان جسے اپنے جینے-مرنے کی جنگ کہہ رہے ہیں، حکومت اسے کچھ لیڈروں کی ہٹ دھرمی بتارہی ہے۔ حالاں کہ سچ یہ بھی ہے کہ کسانوں کی 40سے زیادہ تنظیمیں اس ’لڑائی‘ میں شامل ہیں اور سب کی اپنی اپنی رائے ہے، جس کے سبب حکومت اور کسانوں کی ایک رائے نہیں بن پارہی ہے۔ اس بات کو تو کسان بھی مانیں گے کہ سڑکیں ملک کو جوڑنے کے لیے ہوتی ہیں، دھرنے پر بیٹھ کر لوگوں کے درمیان فاصلے بنانے کے لیے نہیں اور اگر وہ اسی طرح دلّی کی سرحدوں پر راشن-پانی لے کر ڈٹے رہے، تو کتنا بھی ڈسپلن میں رہا جائے، دیرسویر لاء اینڈ آرڈر کا چیلنج تو کھڑا ہوگا ہی۔ ویسے بھی دلّی ملک کی راجدھانی ہے اور ملک کے مفاد میں یہ ٹھیک بھی نہیں ہوگا کہ اسرائیلی سفارتخانہ کے پاس ہوئے بلاسٹ جیسے مسئلوں کو لے کر یہاں کی پولیس پر پڑنے والے اضافی دباؤ کو نظرانداز کرکے اس کی کام کرنے کی صلاحیت کو کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے۔
حالاں کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس پوری تحریک کا کوئی پہلو اُجلا نہ ہو۔ 12دور کی بات چیت بتاتی ہے کہ حکومت معاملے کا حل نکالنا چاہتی ہے، تحریک کے پہلے 60دنوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ زیادہ تر کسان پرامن طریقہ سے اپنے مطالبات پورے کروانے کے حق میں ہیں، لال قلعہ پر دلّی پولیس کا تحمل قابل تعریف ہے جو مظفرنگر کی مہاپنچایت میں جمع ہزاروں کی بھیڑ کو دلّی کوچ کرنے کے بجائے واپس گھر بھیج کر کسان لیڈروں نے جس ڈسپلن کا مظاہرہ کیا ہے، اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ان سب واقعات کے درمیان اخلاقی سوال یہی ہونا چاہیے کہ آگے کیا کیا جائے کہ اس مسئلہ کا پرامن حل نکل جائے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ 12دور کی سرکاری بات چیت اور پردے کے پیچھے کی لاتعداد کوششوں کے بعد بھی کوئی پوائنٹ ایسا بچا ہوگا، جس پر اب تک کسی کا دھیان نہیں گیا؟ عام سمجھ تو یہی کہتی ہے کہ یہ مسئلہ ضد سے نہیں، آپسی بات چیت سے ہی سلجھ سکتا ہے اور اس کے لیے حکومت اور کسان دونوں کو اپنی اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔
بیشک بات چیت کا دور فی الحال ملتوی چل رہا ہو، لیکن پیر کو پیش ہورہا بجٹ وہ ’پل‘ ہوسکتا ہے جو دونوں فریقوں کو اعتماد کی نئی ڈور سے جوڑ دے۔ جمعہ کو پیش ہوئے اقتصادی سروے میں بھلے ہی نئے قوانین کی پرزور وکالت کی گئی ہو، لیکن بجٹ کے ذریعہ حکومت اسے منطقی بنانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ حکومت اگلے سال تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے لیے پرعزم ہے اور اس کی تکمیل کے لیے بجٹ میں اقتصادی مدد، سبسڈی اور کیش انسینٹیو کا دائرہ اور رقم، دونوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ نئے زرعی قوانین کے تناظر میں حکومت تحریک چلارہے کسان لیڈروں کے خدشات کو دور کرتے ہوئے منافع والی متبادل کاشتکاری اور ایم ایس پی پر انحصار کو کم کرنے کے لیے فصل تنوع کے نئے متبادل پیش کرسکتی ہے۔ متبادل فصلوں پر انسینٹیو میں اضافہ سے پنجاب، ہریانہ اور مغربی یوپی کی ناراضگی بھی کافی حد تک دور ہوسکتی ہے۔ تینوں قوانین فی الحال ملتوی ہیں، ایسے میں ایک متبادل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت ایم ایس پی پر گارنٹی دینے کے لیے تیار ہوجائے اور کسان فی الحال تینوں قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ اگلے فیصلہ تک ٹال دیں۔ دونوں فریقین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہار-جیت سے زیادہ اب یہ مسئلہ ملک کے مفاد کا بن گیا ہے، جو آرپار سے نہیں، بلکہ آپسی سروکار سے ہی سلجھے گا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS