ہندوستان میں بابائے قوم کا جو درجہ مہاتماگاندھی کو دیا جاتا ہے، امریکہ میں اس کے 7حصہ دار ہیں، جو سیون فاؤنڈنگ فادرس کے نام سے مشہور ہیں۔ ان شخصیات کو یہ اعزاز اس وجہ سے ملا ہے کہ دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت کی آزادی سے لے کر اس کے آئین کی تشکیل میں ان کا کوئی نہ کوئی اہم کردار رہا ہے۔ امریکہ کے ان 7 بانیوں میں سے ایک نام بنجامن فرینکلن کا بھی ہے۔ تقریباً 240سال قبل کیے گئے ایک تبصرہ کی وجہ سے یہاں ان کا ذکر ضروری ہوگیا ہے۔ اس وقت جب بنجامن فرینکلن سے امریکہ کی پہچان کو ایک جملے میں بیان کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک جمہوریہ ہے، اگر آپ اسے بنائے رکھیں تو۔ بنجامن فرینکلن سے یہ سوال پوچھنے والے کو شاید اندازہ بھی نہیں رہا ہوگا کہ دو صدیوں بعد اس جواب میں پوشیدہ جوابدہی کو لے کر ہی امریکہ کو اپنی عظیم روایت کو چیلنج دینے والے سب سے بڑے سوال سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ امریکہ کے سامنے یہ حالات ایسے شخص کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں، جسے محض چار سال پہلے امریکی عوام نے بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے ملک کی کمان سونپی تھی۔6جنوری کو وہ اعتماد ہی نہیں، جمہوریت کی دنیا میں امریکہ کی ساکھ بھی راکھ ہوگئی۔
اس تاریخ کو ملک کے 46ویں صدر کے طور پر جوبائیڈن کے نام پر مہر لگنی تھی۔ جگہ تھی واشنگٹن ڈی سی کا کیپٹل ہل یعنی امریکی پارلیمنٹ۔ لیکن اس دن امریکہ میں ایک نہیں، دو مہر لگیں۔ ایک نئے صدر جوبائیڈن کے نام پر اور دوسری امریکہ کی اس کھوکھلی پہچان پر جس کے دم پر وہ پوری دنیا کو جمہوریت کا سبق بڑھاتا رہتا ہے۔ سبکدوش ہونے والے صدر ڈونالڈٹرمپ کی ہار سے بوکھلائے ان کے مسلح حامیوں نے کیپٹل ہل پر ایسا تانڈو مچایا کہ پوری دنیا لرز اٹھی۔ امریکہ کے اندر پیدا ہورہے حالات کے تعلق سے ہم نے گزشتہ مضمون میں جو خدشات ظاہر کیے تھے، دنیا نے ویسا ہی تماشہ دیکھا۔ ٹرمپ حامیوں نے سیکورٹی کے ہر انتظام کو زمیں بوس کرتے ہوئے اس تاریخی عمارت میں زبردست توڑپھوڑ اور آگزنی کی۔ فسادیوں نے تین منزلہ کیپٹل ہل کی زمین سے لے کر چھت تک پر اپنا قبضہ کرلیا۔ اس دوران کئی مظاہرین پارلیمنٹ کے اندربھی پہنچ گئے۔ کچھ نے تو اسپیکر نینسی پیلوسی کی کرسی پر قبضہ کرلیا، تو باقیوں نے دوسرے ممبران پارلیمنٹ کے کمروں میں گھس کر کہرام مچایا۔ جس امریکی پارلیمنٹ میں بغیر اجازت کے پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا، فسادیوں نے قومی وقار کی اسی علامت کو چار گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ بروقت اگر ممبران پارلیمنٹ اور سینیٹ ممبران کو باہر نہیں نکالا گیا ہوتا تو امریکہ کی اور فضیحت ہوئی ہوتی۔
جب پوری دنیا سے اس واقعہ پر تیکھے ردعمل کا دور شروع ہوا تو ٹرمپ بھی سامنے آئے اور تشدد پر آمادہ ہجوم کے خصوصی تعاون کی سراہنا کرتے ہوئے انہوں نے جس بے شرمی کے انداز میں امن کی اپیل کی، اس نے اس واقعہ کے اصلی ویلن اور اس کے خطرناک منصوبے سے پردہ اٹھادیا۔ دراصل الیکشن کے میدان اور عدالت کے گلیاروں سے خارج کیے گئے ٹرمپ اس منصوبہ پر کام کررہے تھے، جو آج تک امریکہ میں کبھی نہیں ہوا۔ ٹرمپ جمہوریت میں ہجومی نظام کے دم پر تختہ پلٹ کرنا چاہتے تھے۔ 6جنوری کو امریکی کانگریس الیکشن نتائج پر آخری مہر لگانے جارہی تھی، یعنی ٹرمپ کو جو کچھ کرنا تھا، اس سے پہلے ہی کرنا تھا۔ ٹرمپ کے بلاوے پر رات سے ہی ان کے حامیوں کا جمع ہونا شروع ہوگیا، جو صبح ہونے تک ہزاروں کی تعداد میں پہنچ گیا۔ اس دوران ٹرمپ نے کئی اکسانے والی تقاریر کیں جن سے مشتعل ہجوم نے بے قابو ہوکر کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا۔
اس کے بعد ہوئے تشدد میں چار لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ احتیاط کے لیے واشنگٹن کو نیشنل گارڈس کے حوالہ کرتے ہوئے وہاں 15دن کی ایمرجنسی لگادی گئی ہے۔ یعنی 20جنوری کو بائیڈن کی باضابطہ حلف برداری اب سنگینوں کے سایہ میں ہوگی۔ امریکہ کے چہرے پر پُتی اس سیاہی کو بائیڈن نے قوم سے غداری بتاتے ہوئے اسے گھریلو دہشت گردوں کی کارروائی کہا ہے۔ ملک اور دنیا کے بڑھتے دباؤ کے درمیان ٹرمپ کے اپنوں نے بھی ان سے کنارہ کرنا شروع کردیا ہے۔ جس سوشل میڈیا کے ٹرمپ کبھی چہیتے ہوا کرتے تھے، اسی کو انہیں بلاک کرنا پڑا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے 11بڑے وزرا اور افسران نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ فرسٹ لیڈی میلانیا ٹرمپ کی چیف آف اسٹاف اور وہائٹ ہاؤس کی ڈپٹی پریس سکریٹری اور سوشل سکریٹری نے بھی اپنے دفاتر چھوڑ دیے ہیں۔ لیکن اب شاید بہت دیر ہوچکی ہے۔ استعفیٰ دینے والوں میں زیادہ تر نام وہی ہیں جو گزشتہ چار برس سے اقتدار کی ملائی کھانے کے لیے ٹرمپ کے ہر ’کارنامے‘ پر خاموشی اختیار کرکے ان کی بالواسطہ حمایت ہی کررہے تھے۔
لیکن اب یہ بیتی بات ہوچکی ہے۔ امریکہ اب کس سمت میں آگے بڑھے گا؟ ٹرمپ کا صدارتی عہدہ پر رہنا کیا ملک کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے؟ نئی انتظامیہ بھی اس غلطی کے لیے ٹرمپ کو معاف کرنے کے موڈ میں نہیں نظر آرہی ہے۔ ڈیموکریٹ نے اس کی تیاری شروع کردی ہے۔ سب سے پہلے نائب صدر مائک پینس پر ٹرمپ کو 25ویں ترمیم کے ذریعہ برطرف کرنے کا دباؤ ڈالا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو 1967 میں آئی اس ترمیم کا کسی امریکی صدر کو اس کے مقررمدت کار سے پہلے ہٹانے کا یہ پہلا معاملہ ہوگا۔ لیکن اگر پینس اس کے لیے راضی نہیں ہوتے ہیں تو ڈیموکریٹ ٹرمپ کے خلاف مواخذہ (Impeachment) لاسکتے ہیں۔ جارجیا میں جیت کے بعد ڈیموکریٹ ویسے بھی اب کانگریس کے دونوں ایوانوں میں مضبوط ہوگئے ہیں۔ ایک امکان اور نظر آرہا ہے۔ ٹرمپ نے تشدد کے بعد اقتدار کی پرامن منتقلی کی بات کہی ہے، لیکن وہ خود بائیڈن کی حلف برداری میں شامل نہیں ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ صدارتی عہدہ کی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے20جنوری سے پہلے ملک چھوڑ دیں۔
لیکن کیا صرف اتنے سے ہی امریکہ میں سب کچھ نارمل ہوجائے گا؟ امریکہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ 1920 اور 1930 کی دہائی تشدد اور انتہاپسندی سے بھری تھی۔ ٹرمپ کے چار برس کے دوراقتدار میں وہی انتشار، کچھ کم مقدار میں ہی سہی، لیکن امریکی زندگی کا حصہ بنتا رہا۔ ٹرمپ کے دوراقتدار کے آخری ایک سال میں پولرائزیشن اور تقسیم کے تڑکے نے معاشرہ کی کھائی کو مزید چوڑا کردیا۔ سیاہ فام جارج فلوائڈ کی موت سے جڑی بلیک لائیوس میٹر تحریک اور ہجوم کے تشدد نے امریکہ میں ہی وہائٹ ہاؤس کا رتبہ کم کردیا۔ ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب ٹرمپ مخالفین مظاہرہ کے لیے وہائٹ ہاؤس ہی پہنچ گئے، جس کے بعد ٹرمپ کو اپنی جان بچانے کے لیے بنکر میں چھپنا پڑا تھا۔ سال2016میں بھی الیکشن نتائج آنے کے بعد ٹرمپ کی مخالفت میں اسی طرح مظاہرے ہوئے تھے، جیسے آج بائیڈن کی مخالفت میں ہورہے ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ امریکہ آج بنیاد پرستی اور لبرل ازم کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ نظریاتی سطح پر دونوں میں سے کسی ایک نظریہ کی حمایت کوئی بری بات نہیں ہے، بس اتنا ضروری ہے کہ دونوں نظریوں کو اپنی فطری رفتار سے پھلنے پھولنے کی آزادی ملتی رہے۔ اسے تکثیریت کہا جاتا ہے، جسے ہندوستان نے اپنایا ہے۔ اسی وجہ سے جمہوریت کے لحاظ سے ہندوستان کئی معنوں میں امریکہ کے آگے کھڑا نظر آتا ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے امریکہ کو بھی اختلافات کو قبول کرنے کی اپنی پرانی روایت کی جانب لوٹنا ہوگا، جسے آج بھلادیا گیا ہے۔ عدم اتفاق کو پھوٹ اور انتشار میں بدلنے سے روکنے کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ امریکی عوام کو بنجامن فرینکلن کی بات کو یاد رکھنا ہوگا کہ ان کے ملک کا جمہوریہ چاہے کتنا بھی عظیم ہو، وہ تبھی تک محفوظ ہے، جب تک وہ خود اسے بچائے رکھنا چاہے گی۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
‘جمہوریت کا شرمناک ’ٹرمپ کارڈ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS