روس کے خلاف ناٹو ممالک تیار: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

گزشتہ دنوںروس نے ناٹو ممالک کو واضح الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ناٹو کا کوئی بھی رکن ملک یوکرین کی مدد کے لیے آگے آئے گا تووہ اپنی بربادی کا ذمہ دارخود ہوگا۔ روس نے اپنی جوہری پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ اگرکسی’ناٹو ملک‘ کی میزائل سے اس کے اوپر حملہ کیا جاتا ہے تواسے ناٹو کی پوری تنظیم کی جانب سے حملہ تصور کیا جائے گا۔ اگر جوہری طاقت والے کسی ملک کی مدد سے اس پر حملہ ہوتا ہے تو وہ جوہر ی حملہ کرنے پر بھی غور کر ے گا۔ ناٹو کے رکن ممالک نے روس کی دھمکیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوکرین کو امریکی میزائیل ’اے ٹی اے سی ایم ایس‘ کے استعما ل کی منظوری دے دی اور یوکرین نے اس کا استعمال روس کے اوپر کر دیا۔ اس کے بعد جہاںبرطانیہ نے ’اسٹارم شیڈو‘ میزائل استعمال کرنے کی اجازت یوکرین کو دی وہیں فرانس نے بھی اسے روس کے خلاف ’اسکالپ میزائل‘ استعمال کرنے کی منظوری دے دی۔ ناٹو ممالک پوری تیاری کے ساتھ یوکرین کی حمایت میں میدان کارزار میںہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے اقدامات سے روس برہم ہے اور یوکرین سے اس کی جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کا اندیشہ ہے۔

4اپریل،1949 کو سوویت یونین کے خلاف 12 ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، کنیڈا، ناروے، بلجیم، ڈنمارک، نیدرلینڈ، پرتگال، آئس لینڈ اور لکسمبرگ نے مشترکہ دفاع کے لیے ایک سیاسی اورفوجی اتحاد ’نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن یعنی ناٹو کی تشکیل کی تھی۔ 1952 میں یونان اور ترکیجبکہ 1955 میں مغربی جرمنی ناٹو میں شامل ہوئے۔ ناٹو کے مقابلے کے لیے سوویت یونین نے مشرقی یوروپ کے کمیونسٹ ممالک کا علیحدہ فوجی اتحاد ’وارسا پیکٹ‘ بنایا۔ مئی 1955 کو سوویت یونین کے زیراثر ممالک البانیہ، بلغاریہ، چیکو سلواکیہ،مشرقی جرمنی،ہنگری،پولینڈ اور رومانیہ نے اس اتحاد کے لیے معاہدے پر دستخط کیے۔ بعد میں وارسا پیکٹ تحلیل کر دیا گیا۔ 1991 میں سوویت یونین 15 ممالک میں تقسیم ہو گیا۔ ان میں سے ہی ایک ملک روس ہے۔ وارسا پیکٹ کے کئی ممالک ناٹو کے رکن بن گئے۔ آج استونیا، لٹویا، لتھوینیا، پولینڈ، چیک جمہوریہ، سلوواکیہ، ہنگری، رومانیہ، سلووینیا، کروشیا، مونٹے نیگرو،البانیہ، شمالی مقدونیہ اور بلغاریہ ناٹو کا حصہ ہیں۔ سویڈن کی شمولیت کے بعد ناٹو میں شامل ممالک کی تعداد 32 ہو گئی ہے۔ سوویت یونین کے بکھراؤ سے قبل یوکرین اسی کا حصہ تھا۔

یوکرین ناٹو کا رکن نہیں ہے لیکن اس کا شراکت دار ضرور ہے۔ اس بنا پر وہ کبھی بھی ناٹو میں شامل ہو سکتا ہے۔ روس چاہتا ہے کہ یوکرین کو ناٹو میں شامل نہ کیا جائے۔ وہ مغربی ممالک سے ایسا نہیں کرنے کی یقین دہانی چاہتا ہے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کا ماننا ہے کہ یوکرین خودمختار ملک ہے۔ اسے اپنے مستقبل، تحفظ اور اتحاد کے بارے میں فیصلہ لینے کی مکمل آزادی ہے۔ کوئی یوکرین کو ناٹو میں شامل ہونے سے نہیں روک سکتا۔ یوکرین نے بھی مغربی ممالک سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں جبکہ روس یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مغربی ممالک اپنی طاقت اور اتحاد کے زعم میں اس کی گھیرا بندی کرنے میںلگے ہیں۔ بقول روس، امریکہ نے 1990 میں ناٹو کے مشرق میں نہیں پھیلنے دینے کی ضمانت دی تھی لیکن اب وہ اس سے انکار کرتا ہے۔ یوکرین ناٹو میں شامل ہونے کا خواہاں ہے لیکن روس اس کے لیے قطعی تیار نہیں ہے۔ روس نے یوکرین کو اتحاد میں شامل ہونے سے روکنے کے مقصد سے ہی 24 فروری، 2022 کو جنگ شروع کی تھی۔
روس کے پڑوسی استونیا اور لٹویا میں 9000-9000، لتھوینیا میں 20,000، پولینڈ میں1,30,000، ہنگری میں25,000، رومانیہ میں 80,000 اور بلغاریہ میں27,000 ناٹو فوجی تعینات ہیں۔ ناٹو نے یوکرین جنگ میںاب تک براہ راست مداخلت تو نہیں کیہے لیکن اس نے مشرقی یوروپی ممالک میں اپنے فوجیوں کو اتارکر روس کو اپنی موجودگی کا احساس ضروردلا دیا ہے۔ اپریل 2024 میں یوکرین کے صدر ولودو میر زیلنسکی نے روس کے فضائی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ناٹو ممالک کو یوکرین کو کم سے کم 7 پیٹریاٹ میزائل سسٹم یا انتہائی بلندی پر فضائی حدود کے دفاعی نظام کی ضرورت سے آگاہ کرتے ہوئے مدد کی اپیل کی تھی۔ اس کے بعدناٹو ممالک نے یوکرین کو دفاعی اور اسٹرٹیجک دفاعی نظام فراہم کرنے کی سمت میں تیز قدمی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ امریکہ نے یوکرین کوجو میزائلیں فراہم کرائی ہیں، وہ 300 کلومیٹر تک کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ امریکہ یوکرین کے دفاعی اخراجات پورے کرنے کے لیے اربوں ڈالر کی امداد پہلے ہی دے چکا ہے۔ اس میں دفاعی نظام اور پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم کی ممکنہ خریداری والا 2.20 ارب ڈالر کا ابتدائی پیکیج بھی شامل ہے۔ امریکہ نے ناٹو کی مشرقی سرحد کے تحفظ کے لیے 3000 فوجیوں کو پولینڈ اور رومانیہ بھیجنے کے علاوہ 8500 فوجیوںکو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس نے 20 کروڑ ڈالر کے جیولین اینٹی ٹینک میزائل اور اسٹنگر اینٹی ایئر کرافٹ میزائل بھی بھیجی ہیں۔ امریکہ نے ناٹو کے رکن ممالک کو امریکی ساخت کے ہتھیار یوکرین کو فراہم کرنے کی اجازت دی ہے مگر امریکہ کا یوکرین میں اپنے فوجیوں کو بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ برطانیہ نے یوکرین کو کم فاصلے تک نشانہ بنانے والی 2000 اینٹی ٹینک میزائلوں کے علاوہ پولینڈ میں350 اور استونیا میں 900 فوجی اہلکار بھیجے ہیں۔ برطانیہ نے جنگ شروع ہونے کے بعد سے یوکرین میں پیدا ہونے والے انسانی بحران میں مدد کے لیے 1000 فوجیوں کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ ڈنمارک، اسپین، فرانس اور نیدرلینڈ نے بھی مشرقی یوروپ میں جنگی طیارے اور جہاز بھیجے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان سرحدوں پر لڑی جا رہی جنگ سے ناٹو کے کئی اتحادی ممالک کو روس کا اگلا ہدف بننے کا خدشہ ہے۔

روس کی دھمکی کے بعد ناٹو ممالک میں خوف و ہراس کی صورتحال ہے۔ جوہری حملے کے امکان کے مدنظر ناٹو کے کئی اہم ممالک نے اپنے شہریوں کی حفاظت اور محفوظ مقامات تک ان کی رسائی یقینی بنانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ ناٹو کے سب سے طاقتور اور جوہری اسلحہ والے ملک امریکہ نے جوہری حملے کے امکانات کے مدنظر شہریوں کی حفاظت کے لیے گائیڈ لائنز جاری کردی ہیں۔ امریکی حکومت نے آگاہ کیا ہے کہ جوہری حملے کی صورت میں محفوظ مقامات تک پہنچنے کے لیے امریکی شہریوں کے پاس زیادہ سے زیادہ 15 منٹ کا وقت ہو گا۔ تیسری عالمی جنگ کے ممکنہ خطرات اور روس کے حملوں کو دیکھتے ہوئے جرمن حکومت نے سرکاری اور نجی عمارتوں کو بنکروں میں تبدیل کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ منصوبہ بند طریقے سے عمارتوں کے تہہ خانوں، زمین کے نیچے کی پارکنگ اور میٹرو ٹرین اسٹیشنوں کو شہریوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اب تک دفاعی پوزیشن اختیار کیے یوکرین، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی مدد سے حملہ آور کی پوزیشن میںآگیا ہے۔ روس میںکام کرنے والی کئی شدت پسند تنظیمیں آزادی کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ جنگ کے طول پکڑنے پر روس کے 90 کی دہائی کی مانند ایک مرتبہ پھرسے ٹوٹنے کے آثار سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS