قومی اسکول : قوم نے خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی!

0

فیروز بخت احمد
بات جب بھی قومی سینئر سیکنڈری اسکول کی ہوتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے، دِل و دِماغ میں غم و غصّہ سرائیت کر جاتا ہے احساسات بے قابو ہو جاتے ہیں کیونکہ سرائے خلیل، باڑہ ہندو راؤ میں دہلی ہائی کورٹ کی چیف جسٹس محترمہ گیتا متل صاحبہ نے 27 اگست 2018 کو اسکول کو 4000 میٹر خالی زمین معروف والد اور بیٹی قانون داں اطیب صدیقی و طیبہ صدیقی کی زبردست جرح کے بعد ہدیہ کر دی تھی، جو پرانے سلاٹر ہائوس یعنی قصاب خانہ کی ہوا کرتی تھی۔ یہ زمین راقم الحروف کے 2015 کے مقدمہ برائے فلاح عامہ کے عوض میں دی گئی تھی، کیونکہ 30 جون 1976 میں دورانِ ایمرجنسی، اس اسکول کی پانچ منزلہ، تیس کمروں والی عمارت کو یہ کہہ کر زمین بوس کر دیا گیا تھا کہ صرف چھ ماہ میں ایک بہترین اسکول تعمیر کر دیا جائے گا۔ آج تک اسکول ٹین کی چھتوں تلے اْس قول پر عمل ہونے کا انتظار کر رہا ہے!
22 دسمبر 2013 کو جب اسکول کی بقاء کے لئے راقم نے اْس وقت کے ایل جی نجیب جنگ اور علاقہ کے ممبر پارلیمنٹ کپل سبل سے وقت لیا۔ میٹنگ کے دوران مسٹر سبل نے قومی اسکول کے تعلّق سے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ وہ تو غیر قانونی ہے! راقم الحروف نے ان کے چودہ طبق روشن کرتے ہوئے اْنہیں باور کرایا کہ بغیر مکمل معلومات کے اْنہیں کسی بھی پبلک پلیٹ فارم پر جہالت کی باتیں نہیں کرنی چاہیے کیونکہ قومی اسکول 1948 میں ہی مدرسے سے پرائمری اسکول بن گیا تھا، 1962 میں مڈل، 1975 میں سیکنڈری اور 1982 میں سینئر سیکنڈری بنا دیا گیا تھا، جو دہلی ڈائریکٹوریٹ کے ذریعے ہوا تھا۔ اس اہم میٹنگ میں دہلی اور باڑہ ہندو راؤ کی کئی اہم شخصیات تھیں، میں اسکول کے سابق منیجر اور خیر خواہ، سراج الدین قریشی صاحب، منیجر عبدالملک، سماجی کارکن اقبال محمد ملک، سماجی کارکن شاہد راحت، بی جے پی کے محمد خالد، محمد فخرالدین اور دوست محمد وغیرہ موجود تھے۔
چونکہ قومی اسکول جو کہ ایڈیڈ اسکول تھا اس کے تمام اساتذہ کو اسی سرکاری تعلیمی ایجنسی سے تنخواہیں دی جاتی تھیں، اس کا سرکاری بجلی کا میٹر تھا، پانی کی لائن تھی اور سی بی ایس ای بورڈ کے ذریعہ امتحانات ہوا کرتے تھے، تو یہ غیر قانونی کیسے ہو سکتا تھا؟ اس کے بعد سبل صاحب نے قومی اسکول کے بارے میں غلط بیانی سے توبہ کر لی! قاعدہ سے تو انہیںبطور چاندنی چوک ایم پی، قومی اسکول کی بازیابی کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے تھا۔ در اصل کانگریس کی اسی طرح کی مسلم مخالف پالیسیوں کی وجہ سے قومی اسکول ہی نہیں بلکہ مسلم قوم کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور اس کے ہاتھوں میں سچر کمیٹی، شری کرشنا کمیشن اور ریزرویشن کے بھیک کے کشکول تھما دیئے گئے!
در اصل جب دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے قومی اسکول کو دی گئی یہ زمین کئی سال تک خالی پڑی رہی تو ایک سماجی کارکن نے بلا شبہ نیک نیت کے ساتھ کنٹمپٹ پٹیشن یہ سوچ کر ڈال دی کہ شاید اس کے بعد سرکاری ایجنسیز اسکول کو اس کا حق دلوائیں گی۔ یہ تو ہوا نہیں لیکن ان تمام اداروں کے سرکاری افسران کی نیند کھلی کہ اگر اسکول کا معاملہ دوبارہ کورٹ میں چلے گا تو ان کی خیر نہیں! یہ عین ممکن تھا کہ اِن افسران کو معطل کر دیا جاتا۔
قومی اسکول کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ کورٹ کے ذریعے جو 4000 میٹر کی زمین اسے دی گئی تھی، اس میں سے 2400 میٹر، جس طرح سے ایم سی ڈی پارکنگ کے لئے پٹیشنر کو بتائے بغیر دن دہاڑے ڈاکوں کی طرح دے دی گی اور یہ سب عدالت کو جھوٹ بول کر نہایت ہی غیر قانونی طریقہ سے کیا گیا۔ دہلی ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ نے کورٹ میں درخواست داخل کی کہ اس سے قومی اسکول کا وجود ہی ختم ہو گیا، کیونکہ اسے بارہویں سے خارج کر کے اسے دسویں تک کا اسکول بنانے کی بات کی جا رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے اس دفتر نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ قومی اسکول کو بند کر کے اس کے بچے و اساتذہ دیگر اْردو میڈیم اسکولوں میں بھیج دیے جائیں، جس کی راقم یعنی پٹیشنر نے جم کر مخالفت کی، جس کے بعد اسے کسی بھی میٹنگ کے لئے نہ تو ایم سی ڈی اور نہ ہی ڈی ڈی اے نے اْسے مدعو کیا۔ مدعو نہیں کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ تمام ایجنسیز اس بات پر آمادہ ہو گئیں کہ اس سینئر سیکنڈری اسکول کی 4000 میٹر زمین میں سے 2400 میٹر پارکنگ کو دے دی جائے اور پٹیشنر کو اطلاع بھی نہ کی جائے!
ایک ایسے دور میں کہ جب مرکز میں موجود بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار نے حال ہی میں آزادی کے 75 سال کے بعد ’’امرت مہوتسو‘‘ کال کی تقریبات کے حوالہ سے 2047 تک 100 سال پورے ہونے تک، آزادی کی زریں تاریخ منانے کا بیڑا اٹھایا ہے، وہیں، 75 سال قبل کانگریس کے راج میں تعمیر شدہ قومی سینئر سیکنڈری اسکول کو کانگریس سرکار نے ہی ایمرجنسی میں منہدم کر دیا اور 500 اسکول بنانے والی دہلی کی عام آدمی سرکار نے خیموں میں چل رہے اس بوسیدہ اسکول کو مرحوم بنا دیا! دہلی سرکار کے سابق وزیرِ تعلیم جناب منیش سیسودیا نے راقم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ زمین مِلنے پر ایک مثالی اْردو میڈیم اسکول بنائیں گے۔ یہ وعدہ اس وقت کیا گیا تھا، جب عام آدمی پارٹی کے تمام لیڈران دس لاکھ بجلی کے بل لے کر اْس وقت کی دہلی کی چیف منسٹر، شیلا دکشت کے گھر پر گئے تھے اور منیش سسودیہ کے ساتھ اس وقت، مشہور شخصیت و شاعر کمار وشواس بھی موجود تھے، جو اس بات کے شاہد ہیں! اس پر ایک مشہور ہندی فلم کے گانے کی یہ لائن یاد آتی ہے، ’’وعدہ تیرا وعدہ، وعدہ پہ تیرے مارا گیا, بندہ میں سیدھا سادھا!‘‘
جس طریقہ سے پْرانی دہلی کے فصیل بند خطہ باڑہ ہندو راؤ میں75 سالہ قدیمی قومی سینئر سیکنڈری اسکول کی دہلی ہائی کورٹ کے ذریعہ دی گئی 4000 میٹر زمین میں سے 2400 میٹر غصب کر کے صرف 1600 میٹر ہی زمین چھوڑی گئی ہے، اس سے تمام عوام الناس میں غم و غصہ ہے! در اصل، حال ہی میںدہلی سرکار کے دہلی ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ نے نہ صرف قومی اسکول کے وجود کو ختم کر کے اس کی جگہ دسویں تک سروودیہ اسکول کے لئے عدالت میں میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے، بلکہ اس میں نہایت ہی ڈھٹائی کے ساتھ اپنا غاصبانہ قبضہ جمانے کی بات بھی کہی ہے اور اس اردو میڈیم اسکول کے گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے طلباء کو فتحپوری اسکول مسلم اسکول میں ٹھونسنے کا بھی پلان بنایا ہے۔ بقول محترمہ راجکماری، شعبہ تعلیم کی سینئر افسر اْن کے دفتر نے اس کی زمین کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور اسے بجائے قومی اسکول سرکاری سروودئے کا نام دیے جانے کی بات کی جا رہی ہے۔ افسوس کا مقام۔ہے کہ 1948 میں اسکول کی یہ جگہ، سرائے خلیل کی رہنے والی ایک خاتون، حجن بی نے اْن خاندانوں کے بچّوں کے لئے دی تھی ، جنہوں نے پاکستان جانے کے بجائے، اپنے وطن عزیز کو فوقیت دی تھی۔ اس پر امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ شعر زبان پر آ جاتا ہے: “جو چلا گیا اْسے بھول جا/ہند کو اپنی جنت بنا!”
( مضمون نگار خانوادہ مولانا آزاد کے چشم و چراغ ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS