ملکی سالمیت اور لسانی تعصب کا زہرآلود شرارہ: ڈاکٹر محمد فاروق

0

ڈاکٹر محمد فاروق

زبان محض الفاظ کا ڈھیر یا حروف کا مجموعہ نہیں ہوتی،یہ کسی قوم کی تاریخ،ثقافت،شناخت اور اس کے وجود کا نچوڑ ہوتی ہے۔ زبان پر حملہ محض لسانی توہین نہیں بلکہ اس سے وابستہ تہذیب، اقدار اور کروڑوں انسانوں کی عزت نفس پر براہ راست وار ہے۔ آج ہندوستان اسی زہرآلود شرارہ کی زد میں ہے،جہاں لسانی تعصب کو ایک مذموم سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ملک کے کثیر لسانی و کثیر الثقافتی سماجی تانے بانے کو پارہ پارہ کیا جاسکے۔ اس فتنے کا تازہ ترین اور شرمناک مظہر وہ واقعہ ہے جس میں نئی دہلی پولیس نے بنگالی زبان کو ’’بنگلہ دیشی زبان‘‘ قرار دے کر ملک میں ایک شدید سیاسی تنازع کو جنم دیاہے۔

دہلی پولیس کے لودھی کالونی پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر امت دت کی طرف سے 24 جولائی کو بنگا بھون کے افسر انچارج کو لکھے گئے ایک خط نے اس تعصب کا پردہ چاک کر دیا۔ یہ خط مشتبہ بنگلہ دیشی شہریوں سے ضبط کی گئی دستاویزات کو سمجھنے کیلئے ایک مترجم کا مطالبہ کر رہا تھا،مگر اس میں بنگالی کو ’’بنگلہ دیشی زبان‘‘ کہنے کی سنگین غلطی کی گئی، جس پر مغربی بنگال کی حکمراں ترنمول کانگریس اور سی پی ایم نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ ترنمول کانگریس نے اسے آئینی طور پر تسلیم شدہ ہندوستانی زبان کی شناخت کو مجروح کرنے کی دانستہ کوشش قرار دیا اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ ٹی ایم سی کے قومی جنرل سیکریٹری ابھیشیک بنرجی نے اسے بی جے پی کی طرف سے بنگال کو بدنام کرنے اور ہماری ثقافتی شناخت کو مجروح کرنے کی منصوبہ بند کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آرٹیکل 343 اور آئین کے آٹھویں شیڈول کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے بھی اس اقدام کو قابل مذمت، توہین آمیز، ملک دشمن اور غیر آئینی قرار دیا۔ ان کے بقول،بنگالی کو بنگلہ دیشی زبان کہنا،جو رابندر ناتھ ٹیگور اور سوامی وویکانند کی زبان ہے اور اسی زبان میں ہمارا قومی ترانہ اور قومی گیت لکھا گیا ہے،اس بنگالی زبان کو بنگلہ دیشی زبان کہنا بنگالی بولنے والے تمام لوگوں کی توہین ہے۔ ٹی ایم سی نے دہلی پولیس،بی جے پی اور وزارت داخلہ سے رسمی معافی اور تفتیشی افسر امت دت کو فوری معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ یہ بنگالی بولنے والے لوگوں کو بیرونی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے۔ بی جے پی کا جواب دفاعی نوعیت کا تھا،جس میں یہ کہہ کر معاملے کو الجھانے کی کوشش کی گئی کہ پولیس نے غیر قانونی بنگلہ دیشی شہریوں کو پکڑا تھا اور ان کی بولی کوبنگلہ دیشی زبان کہا۔ مغربی بنگال بی جے پی کے صدر سمک بھٹاچاریہ نے اس حد تک کہہ دیا کہ پولیس نے بجا طور پر گرفتار افراد کی بولی کو بنگلہ دیشی زبان کہا،کیونکہ یہ مغربی بنگال میں بولی جانے والی بنگالی سے مختلف ہے،جو کہ ایک مضحکہ خیز اور غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔ یہ تنازع ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب حال ہی میں ممتابنرجی نے بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں پر بنگالی مہاجر مزدوروں کو ’بنگلہ دیشی‘ سمجھ کر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔

یہ واقعہ کوئی اکلوتا جزیرہ نہیں بلکہ لسانی تعصب کے اس بحر کی ایک لہر ہے جو ہندوستان کی وحدت کو نگلنے پر آمادہ ہے۔ اس کا دوسرا سرا تمل ناڈو میں ہندی مسلط کرنے کی مذموم کوششوں سے جا ملتا ہے۔ تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے پیر 3 مارچ 2025 کو ایک انتہائی دو ٹوک اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ ڈی ایم کے تمل ناڈو میں ہندی کو نافذ کرنے کی اجازت نہیں دے گی، چاہے اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے،لیڈروں اور کارکنوں کو جیل کی سزا اور تشدد کا سامنا کرنا پڑے اور اپنی جانیں گنوانی پڑیں۔ ان کے مطابق،یہ ڈی ایم کے پہلے بھی ثابت قدم تھا اور اب بھی اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہندی ہندوستان کی قومی زبان ہے اور سنسکرت ملک کی قدیم زبان ہے،ان کا یہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے۔ تملوں کو کسی زبان سے کوئی نفرت نہیں مگر پوری ریاست تین زبانوں کی پالیسی کے بہانے ہندی کو نافذ کرنے کی مخالفت کرتی ہے۔ مسٹر اسٹالن نے گورنر آر این روی کے اس دعوے پر بھی سخت ردعمل ظاہر کیا تھا کہ دو زبانوں کی پالیسی نے تمل طلبا کو ایک اضافی جنوبی ہندوستانی زبان سیکھنے کے موقع سے محروم کردیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ بی جے پی کی حکمرانی والی کتنی ریاستیں ایک اضافی شمالی ہندوستانی زبانیں سکھا رہی ہیں؟ یہ تمل ناڈو کی دہائیوں پرانی لسانی جدوجہد کا تسلسل ہے جہاں 1960 کی دہائی سے ہندی مخالف مظاہرے جاری ہیں اور یہ ریاست اپنی دو لسانی پالیسی (تمل اور انگریزی) پر سختی سے قائم ہے۔

لیکن ان تمام لسانی منافرتوں کی جڑ میں ایک ایسی تاریخی اور تلخ حقیقت ہے جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے،وہ ہے اردو زبان سے دشمنی۔آج جو لوگ بنگالی کی توہین پر نالاں ہیں یا ہندی کے تسلط کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، ان میں سے اکثر اس وقت خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں جب اردو کو،جو اسی ہندوستان کی سرزمین پر پیدا ہوئی، پروان چڑھی اور جس نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو جنم دیا،اسے منظم طریقے سے اجنبی، بیرونی اور صرف مسلمانوں کی زبان بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ وہی اردو ہے جس نے تحریک آزادی کے ہر سنگ میل پر انقلاب زندہ باد کا نعرہ بن کر لاکھوں دلوں کو جوش دلایا۔ اردو سے یہ دشمنی 1867 میں شروع ہوئی جب بنارس کے ہندو رہنمائوں نے اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا اور ’’ہندی، ہندو، ہندوستان‘‘ کا نعرہ دے کر ملک کو لسانی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کا بیج بویا۔ آج اسی نظریے کے پیروکار شہروں کے اردو ناموں کو بدل کر، اردو الفاظ والے اشتہارات پر پابندی کا مطالبہ کرکے اور سرکاری اداروں اور تعلیمی نظام سے اردو کو بے دخل کرکے اپنی تنگ نظری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں اردو کو گنگا جمنی تہذیب کی علامت قرار دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ اردو کسی مذہب کی زبان نہیں بلکہ ایک خالص ہندوستانی زبان ہے،مگر اس کے باوجود حکومتی سطح پر اسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

یہی وہ خوفناک منظر ہے جو لسانی تعصب کے زہر سے آلودہ فضا میں ابھر رہا ہے۔ دہلی پولیس کی جانب سے بنگالی کو بنگلہ دیشی زبان کہنے کا تازہ واقعہ محض ایک افسوسناک غلطی نہیں،بلکہ ایک منظم ذہنیت کی عکاسی ہے جو ہندوستان کی رنگا رنگ لسانی دھنک کو مٹا کر ایک ہی رنگ میں رنگنے کے درپے ہے۔ یہ نہ صرف آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کثیر الثقافتی ورثے پر بھی براہ راست حملہ ہے جس پر اس قوم کی بنیاد قائم ہے۔ اردو کے خلاف صدیوں پرانی دشمنی اور اب بنگالی اور تمل زبانوں پر مسلط ہونے کی کوششیں اس بات کا بھیانک ثبوت ہیں کہ تعصب کی یہ آگ کسی ایک زبان تک محدود نہیںرہتی۔ آج اگر اردو،جو اس سرزمین کی روح ہے،پامال ہو رہی ہے اور بنگالی زبان کی شناخت کو یوں مٹایا جا رہا ہے،تو کل کوئی اور علاقائی زبان اس کی زد میں آئے گی۔ تمل ناڈو کے مضبوط موقف سے یہ سبق سیکھا جانا چاہیے کہ زبان صرف بات چیت کا ذریعہ نہیں بلکہ غیرت اور خود مختاری کا سوال ہے۔ یہ ملک کی سلامتی کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔

لسانی منافرت کی یہ سازش ہندوستان کی مشترکہ میراث کو توڑنے اور اس کے وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ ہندوستان کی طاقت اس کی کثرت میں وحدت میں پنہاں ہے۔ اس تنوع کو کچلنے کی ہر کوشش،خواہ وہ لسانی ہو یا مذہبی،قوم کی روح پر گہرا گھائو لگاتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ تمام لسانی اور ثقافتی اکائیاں،جو اب تک خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں،اس زہریلی سیاست کے خلاف متحدہ آواز بلند کریں۔ کیونکہ اگرآج اردو کی شمع بجھا دی گئی اور بنگالی جیسی عظیم زبان کو اجنبی قرار دیا گیاتو کل ان کے اپنے چراغوں کی لو بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ لسانی رواداری اور احترام ہی قومی یکجہتی اور سالمیت کی واحد ضمانت ہے۔

farooquekolkata@yahoo.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS