ئی دہلی: اردو دنیا کے بزرگ معروف شاعر گلزار دہلوی (آنند موہن زتشی) کا کووڈ-19 سے صحتیاب ہونے کے پانچ دن بعد جمعہ کی دوپہر انتقال ہو گیا۔ گلزار دہلوی اگلے مہینے 94 سال کے ہونے جا رہے تھے اور انہوں نے نوئیڈا میں واقع اپنی رہائش پر آخری سانس لی۔ گلزار دہلوی کے فرزند انوپ زتشی نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا ’’ان کی کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ 7 جون کو منفی آئی تھی، جس کے بعد ہم انہیں گھر لے آئے تھے۔ آج انہوں نے دوپہر کا کھانا لیا اور تقریباً 2.30 بجے ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘
گلزار دہلوی کی پیدائش پرانی دہلی کی گلی کشمیریان میں 1926 کو ہوئی تھی اور وہ 1975 میں حکومت ہند کی جانب سے شائع ہونے والی سائنس کی واحد اردو کتاب ’سائنس کی دنیا‘کے ایڈیٹر بھی تھے۔ ان کی کاوشوں کے نتیجہ میں ملک بھر میں اردو اسکول قائم ہوئے۔ گلزار دہلوی میں سنہ 1930 کے دور میں جنگ آزادی کی تحریک میں اس وقت شامل ہوئے تھے، جب وہ اسکولی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں شاعری میں خوب نام کمایا۔ گلزار دہلوی گزشتہ سال تک مشاعرہ پڑھتے ہوئے نظر آئے تھے اور آخری وقت میں بھی انہوں نے ڈائس پر موجود رہتے ہوئے خوب داد بٹوری تھیں۔
گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار، مشاعروں کی شان اور دہلی تہذیب کی آخری نشانی آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کے انتقال پر اردودنیا اور خاص کر اردو شاعری اور سرکردہ ادیبوں اور شاعروں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے اردو تہذیب اور اردو دنیا کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔ گلزار دہلوی کے انتقال پر مشہور شاعر اور ادیب مظفر حنفی نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گلزار دہلوی سے میرے تعلقات کا دائرہ سات اٹھ دہائیوں کا احاطہ کرتا ہے شاید 1960 میں پہلی مرتبہ انہیں کھنڈوا مشاعرے میں مدعو کیا تھا، جس میں فراق صاحب بھی آے تھے گلزار صاحب اپنی محدود سرمایہ شاعری کے باوجود اپنی طاقت لسانی اور باڈی لینگویج کے فنکارانہ استعمال سے مشاعرے کو قابو میں رکھتے تھے اور بسا اوقات لوٹ بھی لیتے تھے انکے ساتھ سفر کرنے میں بھی ایک گنا لطف اتا تھا ہر چند ک سرشا رکے عالم میں ہوتے تھے اور تھرمس میں کل رواں سے لبریز رکھتے تھے بہم حوش وحواس کا دامن نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہاکہ ہمیشہ حفظ مراتب کا خیال رکھتے تھے بذلہ سنجی اور زمانہ شناس انسان تھے۔