نئی دہلی: براعظم ایشیا کے دو بڑے ہمسائے اور دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دو سب سے بڑی جوہری طاقتیں، چین اور ہندوستان ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسائے بیٹھی ہیں۔ دونوں طاقتوں کے نہ صرف آپس میں تنازعات کی ایک تاریخ ہے، جن میں کبھی کبھار سلگتی آگ میں چنگاریاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں اور شعلے بھی بھڑک اُٹھتے ہیں، بلکہ دونوں کے اپنے اپنے ہمسایوں کے ساتھ تنازعات کی الگ الگ تاریخ بھی ہے۔ فی الحال چین اور ہندوستان کے درمیان شدید کشیدگی کا ماحول ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کی سرحد میں کئی مقامات متنازع ہیں۔ ان تنازعات کے سبب ان دونوں ملکوں کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے فوجی دستے کی چھ دہائیوں سے اکثر مُڈھ بھیڑ ہوتی رہی ہے۔ سنہ 1962 میں ان دونوں کے درمیان ایک ماہ طویل جنگ بھی ہوئی تھی جس میں ہندوستان کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔ چین نے ہندوستان کے کئی ہزار مربع کلو میٹر علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، ایک ہزار فوجی ہلاک کیے تھے، جبکہ تین ہزار جنگی قیدی بنائے تھے۔ چین کے بھی 800 فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ امریکی تجزیہ کار بروس راییڈل کے مطابق چین کے ساتھ انڈیا کی جنگ میں امریکہ بھی فعال ہو گیا تھا۔ بہرحال بعد میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں کی گئیں لیکن اب بھی متنازع سرحد، دریاؤں کے بہاؤ میں تبدیلی اور پہاڑی علاقے کی وجہ سے تنازعے کی فضا برقرار رہتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ سرحدی علاقے جو چین سے ملتے ہیں، اسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کہا جاتا ہے۔ اور اس جگہ کئی علاقے دونوں ملکوں کے درمیان متنازع ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے فوجی تصادم تین مقامات پر ہوئے ہیں جن میں ایک ’وادی گلوان‘ہے، دوسرا ’ہاٹ سپرنگ‘نامی خطہ ہے اور تیسرا علاقہ ’پینگونگ‘نامی جھیل کے جنوب میں ہے۔ یہ تینوں علاقے لداخ میں واقع ہیں۔ موجودہ کشیدگی صرف لداخ کے علاقوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ریاست سِکّم کے شمال مشرقی علاقے ناتھولا میں بھی فوجی حالتِ جنگ میں آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ حالیہ تصادم کی ایک بنیادی وجہ بتاتے ہوئے ہندوستان کے دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا نے ایک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ’ماضی میں عموماً پر امن رہنے والا دریائے گلوان کا علاقہ اب جنگ کا خطہ بن گیا ہے، کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے سب سے قریب ہے اور جہاں ہندوستان نے دریائے شیوک سے لے کر دولت بیگ اولڈی تک ایک نئی سڑک بنائی ہے، جو کہ لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا سب سے زیادہ حساس علاقہ ہے۔‘
اس خطے میں انڈیا کی جانب سے انفراسٹرکچر نے چین کو مشتعل کیا ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا ’گلوبل ٹائمز‘نے غیر مبہم انداز میں کہا ہے کہ وادی گلوان چین کی سرزمین ہے اور اس خطے کی سرحد پر یہ بالکل واضح ہے کہ وہاں کس کا کنٹرول ہے۔ چین کے ایک تحقیقی ادارے چینگڈُو انسٹی ٹیوٹ آف گلوبل افیئرز کے سربراہ نے اسی موضوع پر کہا ہے کہ ’چین کی فوج کے خیال میں ہندوستان نے وادی گلوان میں جارحیت کی ہے۔ اس لیے انڈیا وہاں صورتِ حال (سٹیٹس کو) کو بدل رہا ہے، اور اس بات نے چین کو اشتعال دلایا ہے۔‘ اس خطے میں کشیدگی کی حالت گذشتہ برس سے بڑھ رہی ہے جبکہ اگست میں انڈیا نے ایک متنازع اقدام کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو یکطرفہ اقدام کے ذریعے تبدیل کردیا تھا۔ اس کے بعد انڈیا نے اس خطے میں اپنی جانب سے اپنی سرحدوں کا ایک نیا نقشہ بھی جاری کیا تھا، جس میں اس وقت چین کے کنٹرول میں اکسائی چِین کو انڈین وفاق کے زیرِ انتظام لداخ میں شامل کر دیا گیا۔
ہندوستان اور چین کے درمیان تنازعے کی تاریخ
سنہ 1962 کی جنگ کے بعد بھی ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی تصادم ہوئے ہیں۔ سنہ 1967 میں سِکم کے علاقے میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دو واقعات ہوئے۔ پہلا ناتھولا کا واقعہ کہلاتا ہے جبکہ دوسرا چھولا کا واقعہ ہے،جس میں چینی فوج کو سِکّم سے پسپا ہونا پڑا تھا۔
اس کے بعد کافی عرصے تک اس مقام پر کشیدگی جاری رہی اور بالآخر سنہ 1975 میں ہندوستان نے خود مختار ریاست سکم کا انڈیا سے الحاق کر لیا۔
سنہ 1987 میں چین اور انڈیا کے درمیان فوجی جھڑپ کے دوران دونوں جانب سے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا گیا اس طرح اس دوران کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
تاہم حالیہ تصادم سے پہلے سنہ 2017 میں اُس وقت کئی فوجی زخمی ہوئے تھے، جب دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہو گئی تھیں۔
انڈیا اور چین کے سرحدی تنازعات کی تاریخ انڈیا کی آزادی سے بھی پرانی ہے، اور جمہوریہ انڈیا بننے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک ماہ کی ایک طویل جنگ بھی ہو چکی ہے، دونوں کے درمیان ان علاقائی تنازعات کو طے کرنے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ان سرحدی تنازعات کو طے کرنے کے لیے 21ویں صدی میں دونوں ممالک کے نمائندوں کے درمیان 22 مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں، لیکن معاملہ اب مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ کوہ ہمالیہ کے سلسلے کے پار انڈیا کے شمال مشرقی حصے کی جانب لداخ کے شمال مشرق میں ایک خطے کا نام اکسائی چِن ہے۔ اس کا رقبہ 35 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ یہ خطہ اس وقت چین کے زیرِ انتظام ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ خطہ چین کے خود مختار صوبے سنکیانگ کا حصہ ہے۔ جب کہ انڈیا اسے اپنے زیرِ انتظام لداخ کی یونین ٹیریٹوری کا حصہ قرار دیتا ہے۔