حنا تبسم
نئی دہلی: جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بروز اتوار شام کو ہوئے حملے نے سیاسی، سماجی، مذہبی، ملی اور فلمی دنیا سے وابستہ لوگوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ اور سبھی کا یہی کہنا ہے کہ اگر اس ملک میں طلباء محفوظ نہیں ہیں تو اور کون محفوظ رہ سکتا ہے۔ طلباء ہمارے ملک کی ترقی کی ضمانت ہوا کرتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ طلباء ہمارا مستقبل ہیں۔ لیکن المیہ ہے کہ انتظامیہ، حکومت اور محکمہ پولیس سبھی کے کردار نہایت ہی افسوسناک ہیں۔ غور طلب ہے کہ گزشتہ شام تقریباً 7 بجے سیکڑوں کی تعداد میں نقاب پوش افراد جے این یو میں داخل ہوئے اور طلباء اور اساتذہ پر بے رحمی سے حملہ کیا۔ جس میں تقریباً 20 طلباء کے زخمی ہونے کی بات کہی جارہی ہے۔ اس حادثے پر لوگوں کے رد عمل کا سلسلہ جاری ہے۔
کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے بھی جے این یو حملے پر مودی حکومت پر نشانہ سادھا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جے این یو تشدد کی صاف وشفاف جانچ ہونی چاہئے۔ ہندوستان میں طلباء اور نوجوانوں کی آواز مستقل دبائی جارہی ہے۔ ان پر مظالم کی انتہا کی گئی ہے اور ان غنڈوں کی حکومت کے ذریعہ پشت پناہی کی جارہی ہے۔ طلباء پر حملہ قابل مذمت ہے۔ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھے ٹھاکرے نے کہاکہ جے این یو پر حملے نے 26/11 کی یاد دلا دی، نقاب پوش حملہ آور کون تھے، اس کی تفتیش ہونی چاہئے۔ ملک کے طلباء میں ڈر کا ماحول ہے۔ ہمیں متحد ہوکر طلباء میں خود اعتمادی پیدا کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جے این یو پر حملہ کرنے والے بزدل ہیں۔ سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم نے جے این یو حملے پر کہاکہ یہ واقعہ شاید اس کا سب سے ٹھوس ثبوت ہے کہ ہم تیزی سے تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ سب سے مشہور یونیورسٹی میں ہوا ہے۔ اور مرکزی حکومت، وزیر داخلہ، لیفٹیننٹ گورنر اور پولیس کمشنر کی نگرانی میں ہوا۔ سی پی آئی لیڈر کنہا کمار نے بھی ٹویٹ کے ذریعہ کہاکہ کتنی بے شرم حکومت ہے۔ پہلے فیس بڑھاتی ہے، طلباء احتجاج کریں تو پولیس سے پٹواتی ہے اور طلباء تب بھی نہ جھکیں تو اپنے غنڈے بھیج کر حملہ کرواتی ہے۔ جب سے اقتدار میں آئے ہیں طلباء کے خلاف انہوں نے جنگ چھیڑ دی ہے۔ فلم اداکارہ ٹوئنکل کھننہ ٹویٹ کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں گائیوں کو طلباء سے زیادہ تحفظ دیا جاتا ہے۔ یہ وہ دیش ہے جس نے ڈر میں جینے سے انکار کردیا ہے، اس طریقے سے تشدد کرکے کسی کو دبایا نہیں جاسکتا ہے۔ اس طریقے سے احتجاج اور زیادہ بڑھے گا۔ اے ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی نے اپنے ٹوٹ میں لکھا ہے کہ جے این یو کے بہادر طلباء پر حملہ طلباء کو سزا دینے کے لیے ہے کیوں کہ انہوں نے اٹھ کھڑے ہونے کی جرأت کی۔ حکومت کو جواب دینا چاہئے کہ پولیس اہلکار غنڈوں کی حمایت کیوں کر رہے ہیں۔ شیو سینا لیڈر آدتیہ ٹھاکرے نے کہاکہ طلباء کے ذریعہ تشدد اور مظالم کا سامنا کرنا نہایت ہی افسوسناک ہے۔ اب وہ جامعہ ہو یا جے این یو، انہیں مظالم کا سامنا نہ کرنا پڑے،انہیں رہنے دو۔ جو طلباء پر حملہ کرتے ہیں ان غنڈوں کو کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طلباء کو جلد از جلد انصاف ملے گا۔ آدتیہ ٹھاکرے کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے فلم اداکارہ سونم کپور نے بھی لکھا ہے کہ ہمیں ایسے ہی لیڈر کی ضرورت ہے۔ آشا کی کرن موجود ہے۔ فلم اداکارہ سیانی گپتا نے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ وہ ڈرے ہوئے ہیں، اس لیے ساری طاقتیں بہادر طلباء پر جھونک دی ہیں۔ یہ حکومت کے ذریعہ فروغ دی گئی دہشت گردی ہے۔ وہ لوگ آپ کے اتحاد سے ڈرے ہوئے ہیں۔ فلم اداکار سوشانت سنگھ نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ اسٹریٹ لائٹ اور انٹر نیٹ بند کرکے، سی سی ٹی وی کیمرے توڑکر اور منہہ چھپا کر چور اور دہشت گرد ہی آتے ہیں، دیش بھکت نہیں۔ دہلی کے کانگریس ہیڈ کوارٹر میں پارٹی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’جے این یو میں جو کچھ بھی ہوا وہ وائس چانسلر کی رضامندی سے ہوا۔ وزیر داخلہ امت شاہ کے اشارے پر دہلی پولس نے جے این یو کیمپس میں طلبا پر حملہ ہونے دیا۔ تین گھنٹے تک پولس کیمپس کے باہر کھڑی رہی تاکہ غنڈے کیمپس میں طلبا اور اساتذہ کو پیٹ سکیں۔‘‘ جے این یو میں طلبا پر کانگریس کے سینئر لیڈر کپل سبل نے کہا’’نقاب پوش لوگوں کو کیمپس میں کس طرح گھسنے دیا گیا؟ وائس چانسلر نے کیا کیا؟ پولس باہر کیوں کھڑی تھی؟ وزیر داخلہ کیا کر رہے تھے؟ یہ سبھی سوال ایسے ہیں جن کے جواب نہیں ملے ہیں۔ یہ ایک واضح سازش ہے، جانچ کی ضرورت ہے۔‘‘ کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’ہندوستان نے لبرل جمہوریت کی حیثیت سے عالمی سطح پر شہرت قائم کی ہے اور اب مودی شاہ کے غنڈے ہماری یونیورسٹیوں میں غنڈہ گردی کررہے ہیں اور ہمارے بچوں میں خوف پھیلارہے ہیں ، جنہیں بہتر مستقبل کے لئے تیار ہونا چاہئے‘۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طلبا کی مدد کے لیے ان کی پارٹی کے رہنماؤں کا ایک وفد مسٹر دنیش ترویدی کی قیادت میں دہلی روانہ ہوگیا ہے اور وہ طلبا کی ہرممکنہ مدد کریں گے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے ٹوئٹ میں کہا کہ۔ جے این یو میں تشدد کے واقعہ سے میں حیران ہوں۔ طلبا پر بری طرح سے حملہ کیا گیا ہے۔ پولیس فوری طور پر تشدد بند کرے اور امن بحال کرے۔ کجریوال نے ٹوئٹ کرکے سوال اٹھایا کہ اگر ہمارے طلبا یونیورسٹی کیمپس میں محفوظ نہیں ہیں تو پھر ملک کی ترقی کیسے ہوگی؟ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ ’نقاب پوش شرپسندوں نے جے این یو کے طلبا اور اساتذہ پر حملہ چونکا دینے والا ہے‘۔اس حملے میں بہت سارے طلبا اساتذہ زخمی ہوئے ہیں۔ ’ملک پر حکمرانی کرنے والے فاشسٹ ہمارے بہادر طلبا کی آواز سے خوفزدہ ہیں۔ جے این یو میں آج ہونے والا تشدد اسی خوف کی عکاسی کرتا ہے‘۔ بی جے پی لیڈر اور انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشنک نے جے این یو میں ہونے والے واقعے کی مذمت کی اور طلبا سے کیمپس میں قیام امن برقرار رکھنے کی اپیل کی اور انتظامیہ سے حالات پر قابو پانے کو کہا۔ آپ کے رہنما سنجے سنگھ نے کہاکہ امت شاہ کو استعفیٰ دینا چاہئے۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما سنجے سنگھ نے جے این یو تشدد سے متعلق مرکزی وزیر داخلہ پر براہ راست حملہ کیا ہے۔جب سے امت شاہ ملک کے وزیر داخلہ بنے ہیں، تب سے ملک کا دارالحکومت دہلی غنڈہ گردی ، تشدد اور جرائم کا مرکز بن گیا ہے۔ کبھی وکلا پر حملہ آور ہوتا ہے تو کبھی طلبا پر حملہ ہوتا ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ کو اپنے عہدے پر فائز ہونے کا حق نہیں ہے۔سی پی آئی ایم کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری نے جے این یو حملے کی مذمت کرتے ہوئے ہندو سخت گیر طاقتوں کواس حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ کیرالہ کے وزیر پینارائی وجین نے اس سلسلے میں میڈیا کو دئے گئے اپنے بیان میں کہا ’’جے این یو میں نازی اسٹائل میں طلبا پر حملے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس فیملی کو اب اس خونی کھیل سے خود کو الگ کر لینا چاہیے۔ جو طلبا کی آواز ہے وہی اس ملک کی بھی آواز ہے۔‘‘ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے بھی جے این یو واقعہ کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس کی عدالتی جانچ ہونی چاہیے۔ جے این یو میں طلبا اور اساتذہ کے ساتھ ہوئی مار پیٹ شرمناک ہے۔ مرکزی حکومت کو اس واقعہ کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ساتھ ہی اس واقعہ کی عدالتی جانچ ہو جائے تو بہتر ہوگا۔‘‘دہلی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مالیوال نے ٹویٹر کے ذریعہ سے کہا کہ’ یہ انتہائی شرمناک ہے جس طرح کیمپس کے اندر چہروں پر نقاب باندھ کر طلباء پر حملہ کیا۔ یہ بدمعاش کیمپس میں داخل کیسے ہوئے ، کس پر ایف آئی آر درج ہوئی ، کتنے گرفتار ہوئے، سی سی ٹی وی رپورٹ طلب کی جائے گی، پولیس کی جواب دیہی طے ہے‘۔ بالی ووڈ اداکارہ سورا بھاسکر نے کہا کہ ’یہ تصادم نہیں تھا! یہ ایک پہلے سے طے شدہ ، سفاکانہ ، اے بی وی پی کے نقاب پوش بدمعاشوں کا یک طرفہ حملہ تھا جسے دہلی پولیس کے ذریعہ گنڈوں کو کیمپس میں داخلے کی اجازت دی گئی۔ کم از کم 3 گھنٹے تک ہونے والے حملے کے بعد میڈیا اور شہریوں کے دباؤ کی وجہ سے دہلی پولیس نے اسے روکنے کے لئے اقدام کئے۔ بالی ووڈ طلباء اداکارہ شبانہ اعظمی نے کہا ’طلباءاور اساتذہ کو مارا پیٹنا قابل تجدید ، قابل مذمت ہے،یہ سب ایک ڈراؤنے خواب کی طرح لگ رہا ہے۔ قصورواروں کے خلاف فوری کارروائی ہونی چاہئے‘۔ بالی ووڈ فلموں کے ڈائرکٹر انوراگ کشپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’جے این یو میں اب ہندوتوا دہشت گردی نظر آرہی ہے‘۔ پرشانت بھوشن نے بھی جے این یو معاملے پر وزیر داخلہ کو نشانہ بنایا ہے، اپنے ٹویٹر کے ذریعہ کہا ’شاہ دہلی پولیس کے باس ہیں‘
- Business & Economy
- Education & Career
- Health, Science, Technology & Environment
- Regional
- Kerala, Other States & UT
- Opinion & Editorial
- Politics
- Sports & Entertainment
جے این یو طلباء پر حملے کی چہار جانب سے پرزور مذمت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS