قومی مردم شماری اور سماجی انصاف

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان

30اپریل کو مرکزی حکومت کی کیبنٹ کمیٹی برائے سیاست نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگلی عام قومی مردم شماری کے ساتھ ذات پر مبنی مردم شماری بھی کی جائے گی۔ عام قومی مردم شماری کو2021 میں ہی شروع ہونا چاہیے تھا لیکن مرکزی حکومت نے کورونا وبا کے بہانے اس میں5سال کی تاخیر کردی ہے حالانکہ ملک کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی طرف سے حکومت پر یہ دباؤ رہا ہے کہ حکومت جلد از جلد عام قومی مردم شماری کروائے لیکن حکومت نے یہ فیصلہ کافی تاخیر سے لیا ہے۔ مردم شماری ملک کی سماجی، سیاسی، تعلیمی اور اقتصادی ترقی کیلئے نہایت ہی اہم عمل ہے۔ حکومت کے ذریعے بہتر پالیسی سازی کیلئے ایک معینہ مدت کے دوران اعدادوشمار اور ڈیٹا کو جمع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے ہر 10سال پر قومی مردم شماری کرائی جاتی رہی ہے۔ مزید ترقیاتی پالیسی ریسرچ اور ترقیاتی تجزیے کے لیے بھی اعدادوشمار کی ضرورت ہے۔حکومت کے پاس اعداد و شمار کو جمع کرنے کیلئے دوسری اور تنظیمیں اور ذرائع ہیں جیسے کہ نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن، بیریوڈک لیبر فورس سروے اور نیشنل فیملی ہیلتھ سروے لیکن یہ سروے عام طور سے مجموعی آبادی کے چھوٹے سے حصے کو شامل کرتے ہیں۔ حالانکہ ان تمام سروے کا انحصار قومی مردم شماری کے شیڈول پر ہی منحصر ہے، اسی لیے اعدادوشمار کے میدان میں کام کرنے والے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ قومی مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ تمام سروے کے نتائج کو معتبر طریقے سے حاصل نہیں کیا جاسکتاہے۔

جہاں تک ذات پر مبنی مردم شماری کا سوال ہے تو حکومت کے ذریعے لیا گیا فیصلہ ایک خوش آئند بات ہے، تمام حزب اختلاف نے حکومت کے ذات پر مبنی مردم شماری کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ قومی سطح پر کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی کا یہ مطالبہ پہلے سے رہا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کی جائے۔ ان کے مطابق اس کے ذریعے نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن اور سرکاری اسکیموں کا فائدہ مختص کرنے کیلئے تمام ذاتوں کی آبادی کے نمبرات کے مطابق سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ ملک کی دوسری علاقائی پارٹیوں جیسے کہ سماجوادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، ڈی ایم کے اور جنتا دل یونائیٹڈ کے علاوہ کئی دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی ذات پر مبنی مردم شماری کروائے جانے پر زوردیا تھا۔
1951سے جو بھی مردم شماری کی گئی ہے، اس کے تحت دلت اور آدی واسیوں کے علاوہ دوسری سماجی ذاتوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ 1931میں پہلی بار ذات کی بنیاد پر قومی مردم شماری کی گئی تھی۔ 1941کی مردم شماری میں بھی ذات کو شامل کیا گیا تھا لیکن اس وقت جاری عالمی جنگ کے دوران ذات سے متعلق اعدادوشمار کو جاری نہیں کیا جاسکا تھا، لہٰذا 1951 سے کئی سیاسی جماعتوں کا یہ مطالبہ تھا کہ ذات پر مبنی قومی مردم شماری کی جائے، ان جماعتوں کا تعلق زیادہ تر پسماندہ ذاتوں سے ہے لیکن مرکز کی تمام حکومتوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ سال2010میں اس وقت کی مرکزی حکومت نے 2011 کی مردم شماری کے دوران یہ فیصلہ لیا کہ ذات اور کمیونٹی کے اعدادوشمار کو جمع کیا جانا ضروری ہے لہٰذا وزیراعظم کے دفتر نے رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر سے یہ درخواست کی کہ ذات پر مبنی اعدادوشمار جمع کیے جائیں لیکن رجسٹرار جنرل نے اس درخواست کو مسترد کردیا، بعد میں بی جے پی کے ساتھ تمام علاقائی پارٹیوں کے او بی سی ممبر پارلیمان نے جب مرکزی وزارت داخلہ پر دباؤ ڈالا تو اس کا یہ کہنا تھاکہ عملی طور پر ذات پر مبنی مردم شماری کروانا کافی مشکل ہے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ کا یہ کہنا تھاکہ یہ کافی بڑا عمل ہے اور اس کام کیلئے21لاکھ لوگوں کی ضرورت ہے جو اعدادوشمار جمع کریں گے، اس میں زیادہ تر لوگ اسکول کے اساتذہ ہیں اور ان کو بہتر ٹریننگ دینے کی ضرورت پڑے گی۔ بالآخر اس وقت کی مرکزی حکومت کی اتحادی پارٹیوں کے دباؤ میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ حکومت ایک علیحدہ سماجی اقتصادی ذات پر مبنی مردم تحقیق کروائے گی اور یہ مردم شماری جون2011سے شروع کی جائے گی اور اس کا عمل عام قومی مردم شماری کے ساتھ2012 میں مکمل کرالیا جائے گا۔ اس مردم شماری کیلئے حکومت نے4900کروڑ روپے خرچ کیے تھے اور 2016 میں مرکزی وزارت برائے دیہی ترقی اور مرکزی وزارت برائے شہری ترقی نے ذات پر مبنی اعدادوشمار کو جمع کیا تھا جبکہ ذات پر مبنی اعدادوشمار کو مکمل طور سے چھپا لیا گیا، بعد میں اس مردم شماری کا خام اعدادوشمار مرکزی وزارت برائے سماجی انصاف کے حوالے کیا گیا تھا جس نے نیتی آیوگ کے چیئرمین کی صدارت میں ایک ماہرین کی کمیٹی قائم کی جس کا مقصد ان تمام اعدادوشمار کی درجہ بندی کرنا تھا لیکن یہ اعدادوشمار ابھی تک عوامی سطح پر مہیا نہیں کرائے جاسکے ہیں، ذات پر مبنی اعدادوشمار کو اکٹھا کرنے کی گونج 2024 کے انتخابات میں شروع ہوئی تھی اور اس وقت حکومتی اداروں میں او بی سی کی نمائندگی میں غیر برابری کا مسئلہ اٹھایا گیا اور اس سے پہلے اور بعد میں کئی ریاستوں نے ذات پر مبنی اعدادوشمار کو جمع کرنے کیلئے سروے کروائے تھے، اسی طرح سے 2021 میں مرکزی حکومت نے قومی سطح پر بیک ورڈ کلاسز کمیشن کا بھی قیام کیا جس کا مقصد یہ بھی تھا کہ یہ کمیشن او بی سی آبادی سے متعلق اعدادوشمار کو اکٹھا کرے گی جو 2021 کی مردم شماری کے عمل کا حصہ ہوگا۔ جولائی 2021میں پارلیمنٹ میں حکومت نے یہ کہا تھا کہ دلت اور آدی واسیوں کے علاوہ مردم شماری میں دوسری او بی سی ذاتوں سے متعلق اعدادوشمار اکٹھے نہیں کیے جاسکتے ہیں۔

ابھی تک حکومت نے اس مردم شماری کو شروع کرنے کیلئے باقاعدہ تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے جبکہ یہ ایک بڑا عمل ہے، اس کے تحت گھروں کی لسٹنگ، گھروں کی گنتی اور آبادی کی گنتی کی جائے گی، اس کے علاوہ مردم شماری سے متعلق تفصیلی سوالات بھی تیار کیے جائیں گے جوکہ کافی وقت طلب کام ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ مرکزی حکومت حتمی اعدادوشمار 2029 سے پہلے مشکل سے ہی مہیا کراسکے گی۔ حالانکہ مردم شماری کے اعدادوشمار کا استعمال حکومت کی پالیسیوں کو منظم اور مؤثر بنانے کیلئے نہایت ضروری ہے، اس کے علاوہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کے حلقوں کے نمبرات کو بڑھانے کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ اس کی ضرورت خواتین کے لیے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ریزرویشن پالیسی کے نفاذ کیلئے ضروری بھی ہے، اس کے علاوہ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے ریزرویشن کیلئے بھی ان اعدادوشمار کا استعمال کیا جاسکتاہے۔

ذات پر مبنی مردم شماری کے ذریعے مسلمانوں میں پسماندہ برادری کے نمبرات بھی اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت مسلمانوں کی پسماندہ برادری کی ترقی کی بات کافی دنوں سے کررہی ہے، اس لیے ذات پر مبنی مردم شماری کے ذریعے پسماندہ مسلم برادریوں کے ساتھ سیاسی اور معاشی انصاف کیا جاسکتا ہے۔ خاص طور سے دلت مسلم برادریوں کو بھی ریزرویشن کے فائدہ سے دور رکھا گیا جو کہ ان کے ساتھ آزادی کے بعد سے تمام مرکزی حکومتوں کے متعصبانہ رویہ کو ظاہر کرتاہے اور یہ معاملہ سپر یم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ کے دباؤ میں کئی سالوں پہلے مرکزی حکومت نے جسٹس کے جی بالاکرشنن کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا مقصد دلت مسلم برادریوں کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی صورتحال کا جائزہ لینا تھا مگر ابھی بھی جائزہ رپورٹ کو مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔ لہٰذا اگلی ذات پر مبنی مردم شماری میں دلت مسلم کے بارے میں اعداد وشمار جمع کیا جانا ضروری ہے۔

(مضمون نگار اقتصادی امور کے تجزیہ نگار ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS