نریندر مودی کا امریکہ دورہ: بھارت-امریکہ تعلقات کا ٹرننگ پوائنٹ یا روایتی سفارتی چال؟: عبدالماجد نظامی

0
نریندر مودی کا امریکہ دورہ: بھارت-امریکہ تعلقات کا ٹرننگ پوائنٹ یا روایتی سفارتی چال؟: عبدالماجد نظامی

عبدالماجد نظامی

وزیراعظم نریندر مودی کا حالیہ دورۂ امریکہ بھارت کے لیے سفارتی اور اسٹرٹیجک لحاظ سے ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس دورے میں دفاع، ٹیکنالوجی، اور اقتصادی شراکت داری کے کئی معاہدے کیے گئے، جنہیں حکومت نے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا ہے، تاہم اس دورے کے طویل مدتی اثرات، بھارت کی خودمختاری اور اس کے عالمی سفارتی مقام پر کیا اثرات ہوں گے، یہ ایک تفصیلی تجزیہ کا متقاضی موضوع ہے۔ اگر بھارت-امریکہ تعلقات کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ پیچیدہ رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران بھارت نے غیرجانبداری کی پالیسی اپنائی، جبکہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات قائم رکھے۔1991کے بعد بھارت کی معیشت کے کھلنے اور 2005 میں بھارت-امریکہ جوہری معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئی گرمجوشی دیکھنے میں آئی۔ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ تعلقات مزید مستحکم ہوئے، خاص طور پر اسٹرٹیجک اور دفاعی تعاون میں اضافہ ہوا۔

وزیر اعظم مودی کے اس امریکہ دورہ میں کئی کلیدی امور پر بات چیت ہوئی، جن میں دفاعی معاہدے، ٹیکنالوجی کی منتقلی، تجارتی تعاون اور جغرافیائی سیاست شامل تھی۔ ان معاہدوں کو بھارت کے لیے کتنا فائدہ مند سمجھا جا سکتا ہے، اس کا تفصیلی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دفاعی شراکت داری، خودانحصاری یا امریکی انحصار کی بات کی جائے تو بھارت اور امریکہ نے دفاعی شعبے میں کئی اہم معاہدے کیے، جن میں جی ای 414 جیٹ انجن ٹیکنالوجی کی منتقلی نمایاں ہے۔ بھارت کو طویل عرصے سے جدید دفاعی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ واقعی بھارت کو وہ اسٹرٹیجک آزادی دینے کے لیے تیار ہے جو وہ اپنے قریبی اتحادیوں کو دیتا ہے؟ امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کے مطابق ٹیکنالوجی کی منتقلی پر شرائط عائد کرتا رہا ہے، اس لیے اس معاہدے کی عملی صورت کیا ہوگی، یہ وقت ہی بتائے گا۔

اسی طرح چین کے خلاف امریکی حکمت عملی اور بھارت کا کرداربھی اس دورہ کا اہم حصہ ہے۔ امریکہ، چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے بھارت کو ایک اہم شراکت دار کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ کواڈ(QUAD) اور انڈو-پیسفک حکمت عملی کے ذریعے بھارت کو چین کے خلاف ایک مضبوط بلاک میں شامل کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے لیے سوال یہ ہے کہ کیا وہ خود کو امریکہ کی چین مخالف پالیسی میں اتنی شدت سے شامل کر سکتا ہے کہ اس کے اپنے قومی مفادات متاثر ہوں؟ چین، بھارت کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے اور اس کے ساتھ سرحدی تنازعات بھی موجود ہیں، اس لیے ایک محتاط سفارتی حکمت عملی درکار ہے۔ اب بات کرتے ہیں ٹیکنالوجی اور اقتصادی تعاون کی آیا یہ ایک حقیقت ہے یا صرف بیانات تک محدود ہے۔

اس دورے میں امریکہ اور بھارت کے درمیان سیمی کنڈکٹر انڈسٹری، مصنوعی ذہانت اور خلائی تحقیق کے شعبے میں تعاون پر زور دیا گیا۔ بظاہر یہ ایک بڑی پیش رفت لگتی ہے، لیکن ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ اکثر ایسی ٹیکنالوجیز کی فراہمی میں تاخیر کرتا ہے جن سے کسی ملک کی حقیقی خودمختاری میں اضافہ ہو۔
بھارت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ آیا یہ معاہدے واقعی مقامی سطح پر صنعتی ترقی کا سبب بنیں گے یا پھر یہ محض امریکہ سے درآمدات میں اضافے کا ذریعہ بنیں گے؟ بھارت اگر اپنی ٹیکنالوجی انڈسٹری کو مضبوط کرنا چاہتا ہے تو اسے صرف امریکی کمپنیوں پر انحصار کرنے کے بجائے مقامی ریسرچ اور ڈیولپمنٹ پر بھی زور دینا ہوگا۔

امریکہ، بھارت کو ایک بڑے دفاعی خریدار اور جغرافیائی سیاسی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن وہ اسے مکمل اسٹرٹیجک آزادی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت کو اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو قومی مفادات کے مطابق متوازن رکھنا ضروری ہے۔
سب سے اہم بات کہ بھارتی عوام کے لیے اس دورے کے حقیقی فوائد کیا ہو سکتے ہیں ۔
عام بھارتی شہری کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس دورے سے ان کی زندگی میں کیا فرق پڑے گا؟
کیا روزگار کے مواقع بڑھیں گے؟ اگر بھارت میں امریکی سرمایہ کاری آتی ہے اور مقامی صنعتوں کو فروغ ملتا ہے تو روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں، لیکن اگر زیادہ تر معاہدے صرف درآمدات پر مبنی رہے تو ان کا فائدہ محدود ہوگا۔

کیا مہنگائی اور معیشت پر کوئی مثبت اثر پڑے گا؟ اگر بھارت کو ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبے میں زیادہ خودانحصاری حاصل ہوتی ہے تو یہ مہنگائی کم کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے، لیکن اگر یہ معاہدے صرف امریکہ کے تجارتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے کیے گئے تو ان کا اثر عوام تک نہیں پہنچے گا۔
کیا بھارت واقعی ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے؟ عالمی سفارت کاری میں طاقتور ہونا صرف معاہدے کرنے سے ممکن نہیں، بلکہ اصل طاقت اندرونی صنعتی، سائنسی اور اقتصادی ترقی سے آتی ہے۔ اگر بھارت اپنی ٹیکنالوجی اور دفاعی صنعت کو مضبوط کر سکا تو یہ ایک حقیقی کامیابی ہوگی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دورہ کو سفارتی کامیابی سمجھا جائے یا محض روایتی تعلقات کی حد تک محدود رہے گا؟

نریندر مودی کا امریکہ دورہ کئی لحاظ سے اہم تھا، لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا اس سے بھارت کو کوئی حقیقی سفارتی برتری حاصل ہوئی یا یہ روایتی تعلقات کا تسلسل تھا؟ دفاع، ٹیکنالوجی اور اقتصادی تعاون کے شعبے میں کیے گئے معاہدوں کا اثر آنے والے سالوں میں واضح ہوگا۔ اگر یہ معاہدے محض علامتی رہے اور ان پر عملی پیش رفت نہ ہوئی تو یہ دورہ صرف ایک سفارتی تقریب تک محدود رہے گا۔

بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی میں محتاط رویہ اپنانا ہوگا تاکہ وہ امریکہ یا کسی بھی دوسری طاقت کا محض ایک مہرہ نہ بنے، بلکہ اپنی خودمختاری کو یقینی بناتے ہوئے عالمی تعلقات میں توازن برقرار رکھے۔ اگر بھارت اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی اندرونی صلاحیتوں کو ترقی دے سکا تو یہ واقعی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہوگی، ورنہ یہ محض ایک اور روایتی امریکی دورہ ثابت ہوگا جس کا کوئی دیرپا فائدہ نہیں ہوگا۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS